میرے دوست اور دی نیوز اور جنگ کے صحافی امتیاز عالم نے ایک بہت اچھا کام کیا، انہوں نے سارک معاہدہ میں شامل ملکوں کے صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی جو کہ بہت مشکل کام تھا مگر امتیاز عالم نے اپنی محنت اور لگن سے اس منصوبے کو کامیاب کیاکیونکہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور بھوٹان ایک پلیٹ فارم پر صحافی تعاون کر رہے تھے۔امتیاز عالم نے اس سلسلے میں بہت سی مخالفت اور دشمنی کو برداشت کیااور یوں خطے کی سب سے بڑی صحافی تنظیم کو جنم دیا جو کہ سائوتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسی ایشن کے نام سے کام کر رہی ہے۔ مجھے اس بڑی تنظیم کا چیئرمین نامزد کیا اور خود اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے اور اسی سلسلے میں مجھے کم از کم بارہ مرتبہ ہندوستان اور دیگرسارک ملکوں میں جانے کا اعزازحاصل ہوا۔میں نے اتنی بار امریکہ کا بھی دورہ کیا ہے، امریکہ میں میرا پہلا دورہ ٹرائی جن جہاز کی افتتاحی پرواز کے سلسلے میں تھا اس دورے کے لئے یونین اور حکومت نے مجھے نامزد کیا تھا اس زمانے میں صحافیوں کی تنظیم کے لئے کام کرنے والوں کو سرکاری طور پر مدد دی جاتی تھی میں نے اس مدد سے پورا فائدہ اٹھایا اور صاحبان نے بھی میری پذیرائی کی۔ امریکہ کے پہلے دورے میں میرے ساتھ پشاور کے صحافی جوہر میر بھی تھے جو کہ پاکستان سے امریکہ میں منتقل ہو چکے تھے وہاں پر جوہر میر ایک ریڈ انڈین لڑکی کو اپنا دل دے بیٹھے تھے ،مگر دل دینے کا عمل عارضی تھااور یوں ہم اس واقع سے محروم رہے۔ہوٹل کے کمرے میں مجھے ایک قلم دان دکھائی دیا جو کہ بہت ہی خوبصورت تھا میں نے فیصلہ کیا کہ اس قلم دان کو اپنے ساتھ پاکستان لے جائوں گا اور یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور شرم بھی آئی کہ ہوٹل انتظامیہ نے لکھ رکھا تھا کہ اگر آپ کو یہ قلم دان پسند آئے تو ہماری طرف سے بطور تحفہ قبول کریں۔ امریکہ کے پہلے دورے میں مجھے بطور صحافی لندن جانے کا بھی اتفاق ہوا جہاں میرے دوست اور بہت ہی اچھے آدمی اعزاز احسن موجود تھے ۔میں نے وہاں بہت عرصہ قیام کیا امریکہ میں میری ایک مہربان نصرت انور خان بھی وہاں موجود تھیں مگر مجھے جوہر میر اپنے ساتھ اپنے گھر میں لے گئے جہاں میں نے تین دن قیام کیا اور اس کے بعد ایک دن انور خان آ گئیں اور میرا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئیں ان کے خاوند بہت خوش ہوئے اور بیٹیوں نےبھی خیر مقدم کیا۔اس دورے سے پہلے میں بطور صحافی سعودی عرب بھی جا چکا تھا اور جدہ میں ملک میراج خالد کے ہمراہ ٹھہرا ہوا تھا۔یہ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس سے اگلے سال کا ذکر ہے اس کانفرنس میں ملک میراج خالد نے بنگلہ دیش کی گرفت میں آئے ہوئے پاکستانی فوجیوں کے بارے میں ایک دردمند اپیل کی اس اپیل کے جواب میں لیبیا کے مندوب نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ بیرون ملکوں میں ہندوستان کی تمام جائیداد اور مالی فائدہ کے منصوبوں کو منسوخ کر دیا جائے اور پوچھا کہ کیا میراج خالد میری اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں ؟اور ملک میراج خالد نے کہا کہ میں ایک وقفہ چاہتا ہوں۔اس وقفے میں وہ میرے کمرے میں آئے اور ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا کہ لیبیا نے یہ تجویز پیش کی ہے اور بھٹو صاحب نے کہا فکر نہ کرو میں لیبیا کے مندوب سے بات کرتا ہوں اور کانفرنس میں لیبیا کے مندوب نے اپنی تجویز واپس لینے کا اعلان کیا۔سعودی عرب کے اس دورے میں عبدالحفیظ کاردار بھی موجود تھے انہوں نے مجھے تقریباً تمام مقدس مقامات دکھائے اور میں نے ان کے اور ملک میراج خالد کے ساتھ عمرہ بھی ادا کیا۔اس زمانے میں کعبہ کے اندر تصویر لینے کی اجازت تھی عمرہ ادا کرنے کے بعد میں لیٹا ہوا تھا اور میرے سامنے کعبہ تھا میں نے کہا میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ جس طرف منہ کرکے دنیا بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں وہاں موجود ہوں۔