جج نے کہا: ”ان کو اپنی بیٹی سے محبت نہیں تھی بلکہ ان کو اس بات کی فکر تھی کہ ان کی بیٹی نے مغرب کی اقدار کو اپنا لیا ہے اور یہ بات ان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے“۔ باپ نے کہا: ”اگر کسی نے شفیلہ کے بارے میں زبان کھولی تو اس کا بھی شفیلہ جیسا انجام ہوگا“۔
چھوٹی بہن علیشا نے کہا: ”اس کے والدین نے اس کے سامنے شفیلہ کو دم گھونٹ کر قتل کیا تھا“۔
بھائی جنید نے کہا: ”اس کا انجام یہی ہونا تھا“۔
سات مردوں اور پانچ عورتوں پر مشتمل جیوری نے کہا: ”انہوں نے اپنی بیٹی کو قتل کرکے باقی سارے خاندان کی زندگی بھی تباہ کردی“۔
شفیلہ کی ایک قریبی دوست میلیسا پونر نے عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد کہا کہ آج انصاف کے تقاضے پورے ہوگئے ہیں، میں نے کئی برس تک اس دن کا انتظار کیا ہے“۔
کچھ واقعات اور کہانیاں ایسی بھی ہیں جو اَن کہی رہ جاتی ہیں، انہیں بیان کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور انہی کی خاموش آنکھوں میں یا سلے ہوئے ہونٹوں کی تھرتھراہٹ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو ”غیرت“ کے نام پر لکھی گئی ہے۔ اس غیرت نامی جذبے کے نام پر قتل کے مشہور مقدمہ میں شفیلہ احمد کے والدین کو لندن کی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جج مسٹر جسٹس روڈرک ایونز نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ: ”والد افتخار احمد اور والدہ فرزانہ احمد کو ہر حال میں پچیس ،پچیس برس تک جیل میں رہنا ہوگا۔ فیصلہ سنانے سے پہلے چسٹر کورٹ کے جج جسٹس روڈرک نے جیوری کے ارکان سے کہا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ کرتے وقت اپنے جذبات اور ہمدردی کو ایک طرف رکھیں اور انہیں فیصلے پر حاوی نہ ہونے دیں“ سو ایسا ہی ہوا، سات مردوں اور پانچ عورتوں پر مشتمل جیوری نے مقتولہ شفیلہ احمد کے ”باغیرت“ والدین کو اس قتل کے جرم میں مجرم قرار دے دیا۔
شفیلہ احمد ستمبر 2003ء میں وارنگٹن میں واقع اپنے گھر سے لاپتہ ہوگئی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا سے ہی لاپتہ ہوگئی تھی۔ تلاش بسیار کے بعد پولیس نے اس کی لاش کمبریا دریا کے کینٹ کے کنارے سے برآمد کی تھی۔ باقی کی کہانی وہی دو معاشروں کی کہانی ہے، دو ثقافتوں کا تضاد ہے، دو اقدار کا افسانہ ہے، دو تہذیبوں کا تصادم ہے۔ لیکن ٹھہریئے … میرے حساب سے یہ دو ثقافتوں کا تصادم نہیں ہے بلکہ وہ تصادم ہے جو جہالت، ہٹ دھرمی، بے حسی اور مذہبی عقیدہ کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں عقیدہ کوئی خاص معنی یا اہمیت نہیں رکھتا، ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جن کشتیوں کے بادبان کھلے ہیں وہ ان کے ساتھ بہہ نکلتی ہیں اور اپنی راہ پر آگے بڑھتی ہیں لیکن جن کشتیوں کے بادبان کھلے نہیں ہیں، وہ ان ہواوٴں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتیں۔ تو کیا یہ ہواوٴں کا قصور ہے؟ مذکورہ واقعہ مغرب میں مقیم پاکستانیوں کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والے حالات پہلی بار رونما ہوئے ہیں یہ ایک سنگین بیماری کی واضح علامت ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھی جب کینیڈا میں مقیم ایک پاکستان نژاد لڑکی نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تو اس کا باپ جو بدقسمتی سے پاکستان ہی تھا، اس نے اس معصوم لڑکی کا اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ کر جنت کا ”حقدار“ ہوگیا۔ یہ دلخراش، دلدوز، سفاکانہ واردات ٹورنٹو کے مضافات مسی ساوٴ میں پیش آئی تھی۔ کینیڈا سے ساری دنیا میں جاری کی گئی اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ 57 سالہ محمد پرویز نامی ایک شخص نے اپنی 16 سالہ بیٹی اقصیٰ پرویز کا گلا گھونٹ دیا، لڑکی کو فوری قریبی ہسپتال لے جایا گیا اور اس کو مصنوعی تنفس پر رکھا گیا لیکن ظالم باپ کے طاقتور ہاتھوں نے یہ علاج کارگر نہ ہونے دیا اور یہ لڑکی اسی رات ”پرامن مذہب“ کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام
کے ظہور سے پہلے اور بعد میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے؟ تب بھی لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور اب بھی اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ یہ مذہب و ثقافت کے نام پر جان دینے والی اقصیٰ پرویز مقامی ایپل ووڈ ہائی سکول میں زیرتعلیم تھی، اس کی کلاس فیلوز نے بتایا کہ اقصیٰ کے کچھ عرصہ سے اپنی فیملی سے اختلافات چل رہے تھے، خاندان کے درمیان کچھ مسائل تھے کیونکہ اس نے حجاب پہننے سے انکار کردیا تھا، ہمارے سکول کی کوئی بھی لڑکی حجاب نہیں پہنتی۔ ان طالبات نے بتایا کہ اقصیٰ پرویز اپنے باپ کے اصرار پر گھر سے نکلتے وقت حجاب پہن لیتی تھی اور سکول آنے کے بعد مروجہ ملبوسات پہن لیتی تھی، ان لڑکیوں کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ سکول آنے کے بعد کس تیزی سے دوڑ کر واش روم میں داخل ہوتی تھی اور اپنا لباس تبدیل کرتی تھی تاکہ وہ ہم سب کی طرح لگے، سکول کی دوسری ہم عمر لڑکیوں کی طرح نظر آئے۔ اس بھیانک قتل کی واردات نے کینیڈا جیسے پرامن ملک میں صدمہ کی لہر دوڑا دی۔ اخبار نویسوں نے ٹورنٹو میں مقیم ایک پاکستانی خاتون کا انٹرویو کیا، تو اس نے کہا: ”حجاب کبھی بھی پاکستانی معاشرے کا حصہ نہیں رہا، یہ عرب سے آیا ہے اور عربی ثقافت پاکستان سے مختلف ہے“۔ اس ٹیچر خاتون سونیا احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ: ”وہ شخص (محمد پرویز) اب یہ سمجھتا ہوگا کہ اس نے صحیح قدم اٹھایا ہے اور وہ سیدھا جنت میں جائے گا جہاں 70 حوریں اس کا انتظار کررہی ہوں گی۔ اس خاتون نے کہا کہ: ”ہم پاکستانی جنوبی ایشیائی باشندے ہیں اور جنوبی ایشیائی باشندوں کا کلچر جداگانہ ہے“۔ ایک اور خاتون عاصمہ خان جو رسالہ مسلم گرل کی چیف ایڈیٹر ہیں، نے صحافیوں کو بتایا کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں عرب علماء اور انتہا پسندوں کو مدعو کیا جنہوں نے روسیوں کے خلاف ”جہاد“ کے علاوہ پاکستانی خواتین سے شادیاں کیں اور شوہروں کے کہنے پر حجاب کی روایت کا پاکستان میں آغاز کیا جسے ضیاء حکومت اور اس کے چیلے چانٹوں نے بڑھاوا دیا۔ ضیاء الحق سے پہلے حجاب کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلم گرل کی ایڈیٹر ان چیف نے نوجوان لڑکیوں پر والدین کی مرضی مسلط کئے جانے کی سخت مخالفت کی۔
عورت پر ظلم کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر آج اپنوں اور غیروں کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ میرے حساب سے اس سوال کا جواب تو بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ ایک بات تو سب پر واضح ہے اور یہ بات طے شدہ بھی ہے کہ جاگیردارانہ و قبائلی رسم و رواج اور معاشرت سے ہم نکل نہیں سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری اہم حقیقت بھی ہمارا منہ چڑا رہی ہے اور وہ ہے ہمارا فقہی لٹریچر۔ اس سلسلے میں مجھے زیادہ کچھ نہیں کہنا کہ اس میں بہت سے ”پردہ نشینوں“ کے نام بھی آتے ہیں مگر اس فقہی علوم میں عورت سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ فقیہہ نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہی فساد برپا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ بات کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عورت کے بارے میں ہمارا تصور دین ناقص، فرسودہ، جاگیردارانہ اور بغض و تعصب پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فقہی لٹریچر کے زیرسایہ پاکستانی معاشرہ میں عورت کے بارے میں ایک ”مضبوط“ ناقص سوچ پیدا ہوگئی ہے اور یہ ناقص سوچ نہ صرف مملکت خداداد میں اپنا گھر بنا چکی ہے بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر مغرب میں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ ہم جہاں جاتے ہیں اس ناقص سوچ کی گٹھڑیاں سر پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے مغرب ایک جمہوری معاشرہ ہے یہاں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ کیا یہاں عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہوتی؟ برطانیہ یا کینیڈا، ہالینڈ یا امریکہ کسی ایک نسل یا ثقافت کا ملک نہیں رہا
بلکہ سارا مغرب ایک ملٹی کلچر یا کثیر الثقافتی ملک بن گیا ہے مگر اس کثیر الثقافتی معاشرے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہاں کی صدیوں پرانی اقدار اور تہذیب پر کوئی اور تہذیب مسلط کردی جائے، آج کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے ملاوٴں، مولویوں، علماء کرام اور نام نہاد دانشوروں کی اکثریت ساتویں اور آٹھویں صدی کی اسلامی روایات اور رسم و رواج کو مثال سمجھتی ہے۔ نئے وقت کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتی ہے، پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھولتی ہے۔ آج ”باشعور“ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس گروہ کو ساتویں صدی کی ذہنیت سے نکالے اور اسلام کی ایسی عصری شکل مرتب کرے جو دوسرے مذہب ، تہذیب و تمدن اور روایات کے ماننے والوں کو بھی قابل قبول ہو۔ میرے حساب سے پاکستان سے تارکین وطن کی پہلی نسل تک اپنے اپنے عقائد اور مسلک و فقہ ہی لے کر بیرون ملک آئے تھے۔ ابھی مولویوں اور ”علماء“ کی آمد شروع نہیں ہوئی تھی پھر ہوا یہ کہ دوسری اور تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے مغربی ملکوں کی ہر گلی اور ہر محلے میں ”علماء“ کے ساتھ ساتھ ان کے مسلک، عقائد اور فرقے بھی پہنچ گئے۔ ان لوگوں نے پاکستان کی طرح مغرب میں بھی فرقہ وارانہ اور تنگ نظری کے ڈھول پیٹنے شروع کردیئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس معاشرے کو ”کفرستان“ سے تعبیر کرتے ہوئے اس معاشرے کی برائیاں گنا گنا کر نئی نسل کو ایسا پیغام دیا کہ اس میں افتخار احمد اور محمد پرویز جیسے مسلمان کھمبیوں کی طرح اگنے لگے جس کے نتیجے میں آج ہم ان علماء، مولویوں اور ملاوٴں اور ان کی خودساختہ روایات کی اموات کا ماتم ہی نہیں کر رہے بلکہ اس مغربی معاشرے کے ساتھ اپنے تعلقات کی موت کا بھی ماتم کررہے ہیں برطانیہ میں مقیم افتخار احمد اور کینیڈا کا رہائشی محمد پرویز دراصل اس معاشرہ کا کبھی بھی حصہ نہیں رہے، کبھی بھی حصہ نہیں بن سکتے، تو کیا یہ بہتر نہیں ہے میرے پیارے حسن نثار کہ افتخار احمد اور محمد پرویزایسے لوگوں کو واپس بلالو؟ کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ یہ اپنے لوگوں میں پلٹ جائیں؟ کیا تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں؟۔