• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاٹا اصلاحاتی بل‘قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کو احتجاج کی ایک نئی وجہ مل گئی

اسلام آباد(فصیح الرحمان خان)فاٹا اصلاحاتی بل کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کو احتجاج کی ایک نئی وجہ مل گئی ہے۔جب کہ نواز شریف کو قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ سازشوں سے بچنے کے لیے اختلاف رکھنے والوں سے ذاتی حیثیت میں بات کریں۔ حال ہی میں فیض آباد میں مذہبی چند سو افراد کی جانب سے کامیاب دھرنے اور مسقتبل قریب میں متوقع قادری۔پی ٹی آئی دھرنا پارٹ 2 کی طرح قومی اسمبلی میں بھی احتجاج پسند حزب اختلاف کو احتجاج کی ایک نئی وجہ مل گئی ہے۔جیسا کہ خورشید شاہ کی قیادت میں حزب اختلاف نے کہا ہے کہ جب تک حکومت فاٹا اصلاحاتی بل جو کہ قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہے پر بحث شروع نہیں کرے گی ، وہ قومی اسمبلی اجلاس سے واک آئوٹ کرتے رہیں گے۔قومی اسمبلی کے اسپیکر ایازصادق اس تکنیکی تاخیر کے ذمہ دار بیوروکریٹ کے خلاف اقدام کرنا چاہتے تھے ۔جب کہ حزب اختلاف نے حکومت کے مضبوط حلیف مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی کو فاٹا اصلاحاتی بل میں تاخیر کا ذمہ دار تھہرایا۔جب کہ یہ دونوں رہنما قومی اسمبلی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ عباسی اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام نظر آئے۔پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی فاٹا اصلاحات بل کے اعداد وشمار سے متعلق تفصیلی خطاب کیا، مرتضیٰ عباسی نے انہیں خطاب مختصر کرنے کا کہا تو وہ مدعا پر آگئے ، وہ چاہتے تھے کہ وزیر سیفران قادر بلوچ اس تکنیکی تاخیر کی اصل وجوہات بیان کریں ، تاہم وزیر موصوف کے جواب سے حزب اختلاف مطمئن نہیں ہوئی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑتی اجلاس سے واک آئوٹ کرنے لگی، جس پر کورم کی نشاندہی کی گئی جو کہ کم نکلا۔یہ ایک نیا چلن نکل گیا ہے کہ جب بھی حزب اختلاف کسی بھی مسئلے پرواک آئوٹ کرتی ہےتو اجلاس کی کارروائی کورم پورا نہ ہونے کے سبب روک دی جاتی ہے۔جب کہ ارکان اسمبلی کے روزمرہ اخراجات ، تنخواہوں پر عوام کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔2013سے ہی ن لیگ پارلیمانی امور اسی طرح چلارہی ہے۔ان افعال کو مصنوعی سیاسی طوفان سے تشبیہ دی جارہی ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ کا کام کہا جارہا ہے۔کسی بھی وزیر سے پوچھا جائے وہ اس سے لاعلم ہونے کی بات کرے گا۔گزشتہ اگست کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کا مارچ، جس کا مقصد پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرنا تھا ، جب کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی جماعت اور ان کی حکومت کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہی تھی، کیوں کہ وہ نواز شریف کی واپسی برداشت نہیں کرسکتی تھی ، اسی سبب بہت سے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کے پارٹی چھوڑنے کی افواہیں اسی وقت سے گردش کررہی ہیں۔پہلے 27ارکان اسمبلی کی ایک متنازعہ فہرست جاری کی گئی ، جن پر کالعدم فرقہ پرست گروہ سے تعلقات کا الزام عائد کیا گیا، جس سے حکمران جماعت میں ہلچل مچ گئی اور یہ گتھی تاحال نہیں سلجھی ہے۔تاہم ، اس افواہ نے اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیا جب 20سے ذائد ن لیگ کے ارکان پارلیمنٹ، اسمبلی اجلاس سے دور رہے ، جب کہ اس اہم وقت میں حزب اختلاف نااہل رکن پارلیمنٹ کی پارٹی صدارت کے حوالے سےہونے والی قانون سازی میں حکومتی بل کے خلاف تھی ۔جس کا ذمہ دارلیگی اعلیٰ قیادت نے سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی اور راجا حیات کو ٹھہرایا۔شریف خاندان کے ذرائع کے مطابق، کم از کم 50ارکان پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہیں ، جو موقع ملنے کی تلاش میں ہیں۔نواز شریف کو ان کے قریبی ساتھیوں نے اس پوری سازش سے لندن کے سفر سے قبل ہی آگاہ کردیا تھا اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اختلاف رائے رکھنے والوں سے ذاتی طور پر بات کریں اور ان کی بات سنیں کیوں کہ ان میں سے اکثر ذاتی حیثیت میں بات کرنا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے نواز شریف بھی ان سے ملاقات کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔لیکن ان میں ایک رہنما جن سے درخواست نہیں کی گئی ہےکہ وہ اس مشکل وقت میں حکمران جماعت کا ساتھ نہ چھوڑیں۔
تازہ ترین