• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمت درست نہ ہو تو راہ ہی طویل اور کٹھن نہیں ہوتی، انسان بھی کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس کے برعکس سمت کا درست تعین کرلیا جائے تو سفر سہل ہو جاتا ہے اور منزل مقصود کا حصول یقینی۔ مفر ممکن نہیں کہ عہدِحاضر میں جتنے بھی طرز ہائے حکمرانی موجود ہیں ان میں سب سے پسندیدہ طرزِ حکومت جمہوریت ہے، وجہ یہ کہ اس میں عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرسکیں۔ ہماری سیہ بختی، کہ ہمارے ہاں جمہوریت پنپ نہ سکی۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحہ ٔ موجود تک حصولِ اقتدار کے لئے ریاستی اداروں کی باہمی آویزش جاری رہی اور اب حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بڑے دلگیر لہجے میں کہا ہے کہ ’’لگتا نہیں کہ حکومت مدت پوری کرسکے، چاروں طرف سے کھینچاتانی ہو رہی ہے، ایک کے سوا تمام جماعتیں چاہتی ہیں کہ حکومت مدت پوری کرے، جو ہو رہا ہے وہ 2007اور 2008میںبھی نہیں ہوا، پہلی بار مایوس ہوا ہوں۔ استعفے آسکتے ہیں۔ گریٹر پلان بنتا نظر آرہا ہے، باخبر ہوں، حکومت مضبوط بھی ہوتی ہے اور مصلحتاً کمزور بھی ہوجاتی ہے۔ ہمیں ذاتی کی بجائے پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہئے، چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے لیکن کیا ہونے ولا ہے، سمجھ نہیں آرہا۔ ہمارے اندرونی خطرات بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔‘‘ سردارایاز صادق کا یہ کہنا قابل غور ہے کہ ’’ضروری نہیں ہوتا کہ نظام کو مارشل لا ڈی ریل کرے، بیرونی طاقتیں بھی کھیل کھیلتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’تاریخ میں سرگرمیاں اتنی جلدی نہیں ہوتیں۔ یہ سب نارمل نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔ نظام کودھچکا لگا تو پاکستان کو دھچکا لگے گا۔ امریکہ بھی آج کل پاکستان کے بارے میں چپ ہے۔ کل چپ نہیں رہے گا۔ ہمیں متحد ہوکرخطرات سے نمٹنا ہوگا۔‘‘ اسپیکر قومی اسمبلی کے خیالات، تحفظات اور خدشات قابل غور بھی ہیں اور لائق تشویش بھی۔ پاکستان کے سیاسی حالات کا بنظر غائر جائزہ لیاجائے تو بلاشبہ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ تاریخ میں تبدیلیاںاتنی برق رفتار نہیںہوا کرتیں۔ محض پچھلے دو سال کے اندرملک میں اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں واقعی اتنی حیران کن ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایسی تبدیلیاں نظر نہیںآئیں۔ سی پیک بھی ان تبدیلیوںکا ایک اہم عامل ہے البتہ باہمی کھینچاتانی نے سیاست اور سیاسی عمل میں بے یقینی کا ایسا عنصر داخل کردیا ہے کہ عوام ہی نہیں ہر کوئی ابہام میںمبتلا دکھائی دیتا ہے۔اسی ابہام کے باعث قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ حکمران خود نظام تلپٹ کرانے کے متمنی ہیں اور باہمی گٹھ جوڑ سے انتخابات کا التوا چاہنے والے بھی سرگرم عمل ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کہتے ہیں کہ لگتا ہے اسمبلیاں مدت پوری نہیں کریں گی البتہ مارشل لا کے امکان کو رد کرتے ہیں۔ خود آرمی چیف بھی اس امر کا متعدد مرتبہ اظہار کر چکے ہیں کہ وہ جمہوریت اور جمہوری اقدارپر یقین رکھتے ہیں۔ عدلیہ اپنے فرائض آزادانہ انجام دے رہی ہے اور وزیرخارجہ خواجہ آصف بھی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کے غیرمستحکم ہونے کا تاثر غلط ہے اور اسمبلیاںاپنی مدت پوری کریں گی تو پھر سردار ایاز صادق کی صرف ایک بات قابل غور رہ جاتی ہے کہ ’’ادارے ہی نہیں بیرونی قوتیں بھی تو کھیل کھیلتی ہیں۔‘‘ بیرونی قوتوں کے بارے میں و ہ آگہی دے دیتے تو ابہام کے بادل چھٹ جاتے اور یاسیت کابھی خاتمہ ہوتا۔ بہرکیف سیاسی صورتحال کو بے یقینی کی دبیز تہوں سے باہر نکال کر اس کا حل تلاش کرنا ملک کے تمام اداروں کا اولین فریضہ ہے۔ ملک کے جتنے بھی اسٹیک ہولڈر ہیں، سامنے آئیں اور حالات کی بہتری کی سعی کریں۔ اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جاسکتی ہے جس میں فوج کوبھی مدعو کیاجائے تاکہ کوئی قابل عمل اور موثر حکمت ِ عملی وضع کی جاسکے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی ان امور پر بات کی جاسکتی ہے خواہ یہ سارا عمل اِن کیمرہ ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمل میں تاخیر نہ کی جائے، ذاتی کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے سب مل بیٹھ کر ملک کو ابہام اور بے یقینی کی صورتحال سے نکالیں۔ ملکی مفاد میںاپنی سمت درست کریں تاکہ ہماری سالمیت و وقار پر آنچ نہ آنے پائے۔

تازہ ترین