• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال یہ ہے کہ کیا شاعری نئی اور پرانی بھی ہوتی ہے ہر چند اس کا جواب نفی میں ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج بھی ہم خسرو، بیدل، غالب، میر، سودا، اقبال کے علاوہ جدید شعراء فیض، راشد، مجید امجد، میرا جی اور اخترالایمان کو نہ پڑھ رہے ہوتے مگر زندگی نے اتنے رنگ دکھائے ہیں کہ زمانہ حال اور ماضی کے تہذیبی عناصر کو کھنگالتے ہوئے یہ تخصیص کرنی پڑ جاتی ہے اور کبھی کبھی کلاسک کو یاد کرتے ہوئے زمانہ حال یہ منطبق ہوتا دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور لطف بھی آتا ہے۔ انسان جب چاند پر گیا تو ہر زبان پر غالب کا شعر تھا۔ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب۔ ہم نے دشت امکان کو ایک نقش پا، پایا۔ کتنا جدید اور کتنا برمحل۔ اسی طرح فیض صاحب کی دست صبا کی ساری شاعری میں جو استعارات اور تلمیحات استعمال کی گئی ہیں، وہ منفرد ہیں۔ قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو۔ قفس کی تیلیاں تو بہت جدید و قدیم شعراء نے بیان کی ہیں مگر قفس کی اداسی کا منظر فیض صاحب ہی نے پیش کیا ہے۔ اس طرح کہیں تو صبح ترے کنج لب سے ہو آزاد۔ یہ فکر تنہائی اور جیل ہی میں ارزاں ہو سکتی تھی۔ اس طرح ن۔م راشد نے چاہے حسن کوزہ گر کے حوالے سے زندگی کے مضمرات کو بیان کرنے کی دہلیز پار کی کہ ”ابولہب کی دلہن جو آئی“ یا پھر ”اجل ان سے مل“۔ یہ موضوعات قدیم ہونے کے باوجود اتنے جدید ہیں کہ ابھی تک ان کی تفاصیل پر بحث جاری ہے۔
کچھ موضوعات جو مجید امجد نے اپنی شاعری کے لئے منتخب کئے چاہے وہ 9نمبر کی بس ہو کہ گلاب کے پھول والی غزل، شاعری ایک ایسے متنوع اور ہمہ رنگ شاعر کی تلاش میں ہے کہ جب ناصر کاظمی تک آئی ہے تو یوں گویا ہوتی ہے
وہ جس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
زمانے کے بدلنے کے ساتھ اگر شاعر کہتا ہے پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے تو منیر نیازی کے لہجے میں خوشگوار آنکھیں نمودار ہوتی ہیں اور شکیب جلالی کہہ اٹھتا ہے کہ زمیں پہ پاؤں دھرا اور زمین چلنے لگی۔ ظفر اقبال نے اپنی نئی طرز ایجاد کی اور کہا چھپنے لگی ہے دھوپ، سویٹر اتار دے۔ مصحفی نے رفوگری کی تو آتش نے بھی رفو کرتے رہنے کو اولیت دی۔ غالب نے پندار کو اپنے انداز میں استعمال کیا تو احمد فراز نے پندار محبت بنا ڈالا۔ دستار، غالب سے ہوتی ہوئی۔ فیض صاحب اور احمد فراز تک ہوتی ہوئی، سر پر ہی رہی مگر زندگی میں ہم نے دیکھا کہ دستار پیروں میں رکھو تو وڈیروں سے اپنی عورتوں کی عصمت بچا سکتے ہو۔کج ادائی، میر اور غالب سے ہوتی ہوئی جب فیض صاحب تک پہنچی تو رقم ہوئی کہ تیری کج ادائی سے ہار کر شب انتظار چلی گئی اور فراز تک آئی یوں لکھی گئی۔ ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی۔ طاقوں کو چھوڑ کر سردیوار آ گئے۔ محبت کا صیغہ اور استعارہ ہر عہد کی شاعری میں مرغوب رہا ہے۔ چاہے حفیظ ہوشیارپوری لکھیں ”محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے“ یا فیض صاحب ”مجھ سے پہلی سی محبت“ یا پھر غلام محمد قاصر
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اور جون ایلیا کا کہنا:
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
پاکستان کی شاعری نے بہت سے زمانے دیکھے ہیں اگر کلاسک میں کہا گیا کہ دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے،یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا۔ تو فیض نے کہا کہ مرے دل مرے مسافر اور یوں جلاوطنی اور ضیاء الحق کی بربریت پر بالکل اس طرح لکھا گیا جیسے سودا نے شہر آشوب لکھا سلیم شاہد نے کہا قید میرے جسم کے اندر کوئی قیدی نہ ہو۔ سانس لیتا ہوں تو آتی ہے سدا زنجیر کی۔ یہیں شیخ ایاز نے لکھا ”میرے دانشورو! پاؤں زخمی سہی، ڈگمگاتے چلو“ اور عطا شاد نے لکھا ”ہماری زمین پر ایک گلاس پانی کی قیمت عمر بھر کی غلامی ہے“ اور احمد فراز نے کہا، یوں میرے شہر کا ہے سرا پا لہو میں تر‘ جیسے صلیب پر ہو مسیحا لہو میں تر۔
9/11 نے دنیا کا نقشہ بدلا۔ وحشت اور بربریت کا شکار پاکستان اور افغانستان کو ایسا کیا کہ خودکش حملے اور ڈرون حملے، روزمرہ کا معمول ہوگئے۔ عباس اطہر نے کہا ”سنو! موت کے اور مصیبت کے، ماتم کے سال، نحوست کے سال، تمہاری کہانی تو اب مختصر ہے“۔ داؤد کمال نے لکھا غصیلے دریا، کچے مکانوں اورجوار کی پکی فصل میں تمیز نہیں کرتے اور جدید شاعروں میں عامر سہیل نے کہا تم شہر سنبھالو، یہ مضافات سنبھالو، گلیاں ہی نہ بھر جائیں کسی روز غدر سے، مزید کہا، تاریخ بھی لکھ پاتا نہیں کھل کے میں عامر، اس ملک کے لوگوں کی، کسی ملک کے ڈر سے۔
یہ صحیح ہے کہ شاعری نئی پرانی نہیں ہوتی ہے مگر ہوتی ہے کہ ہر معاشرے کے نئے مسائل نئے موضوعات کو جنم دیتے ہیں۔ ہر چند غالب نے کہا تھا، لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور۔ اس زمانے میں کس کو پتہ تھا کہ دل بھی بدلے جا سکیں گے مگر اس زمانے میں جبکہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہو۔ missing persons کا مسئلہ ہو، بلوچستان میں علیحدگی کی آوازیں بزور تقریر اور شاعری دونوں طرح اٹھ رہی ہوں۔ مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کرنے والے رہائی پا لیتے ہوں اور honour killing یعنی غیرت کے نام پر قتل کو فخریہ بیان کیا جاتا ہو۔ نئی شاعری میں افضال سید، ثروت حسین اور علی اکبر ناطق نے وہ لہجہ اختیار کیا ہے جہاں زہرہ نگاہ نے لکھا ہے ”سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے“ اور کہا ”کہتے ہیں اس کا سر ملا“۔ نئی شاعری کے بیان کو جون ایلیا کے اس شعر پہ مختصر کروں گی۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
تازہ ترین