• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دوسرے کو مبارکباد اور تہنیتی پیغامات دئیے جا رہے ہیں، سب ٹھیک ہو جانے کی ڈھارس بندھائی جارہی ہے، موجودہ حالات کو اپنے حق میں تبدیل ہونے اور آئندہ انتخابات میں فتح کے روشن امکانات بارے امیدیں لگائی جارہی ہیں، گویا ایک نئے محفوظ اور کامیاب راستے کا انتخاب ہو چکا ہے، کیا ایک اور این آر او ہوگیا ہے؟ افسوس کہ کوئی ماننے کو تیار ہے نہ اس پر بات کرنے کو، کیونکہ بقول شخصے سیاسی بقا کی واحد سبیل یہی تھی کہ نااہلی کے شور میں خاموش معاہدہ کر کے سیاسی بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ کیا جائے اور مستقبل پر چھائے گہرے کالے بادل بھی چھٹ جائیں۔ سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ڈیل نہ کرنے کی پاداش میں حکومت میں ہونے کے باوجود بے اختیار حکمران اب ڈیل پر کیوں قائل ہوئے، کوئی این آر او کیا؟ اگر کیا تو یہ این آر او کس نے کیا؟ کس سے کیا؟ اور اس موقع پر کیوں کیا؟ سوال کریدنے کی میری کئی کوششیں کامیاب تونہ ہوئیں البتہ کئی طرح کے حیلے بہانے اور وضاحتیں سننے کو ضرور ملیں، ایک لمحے کے لئے حکمرانوں کی اس توجیہات کو مان بھی لیا جائے کہ کوئی این آر او نہیں ہوا، تو زمینی حقائق تو چیخ رہے ہیں کہ مجھے تسلیم کرو، میں آپ کا نیا این آر او ہوں، یعنی
Non-resistance Order
۔ اب اس ’’ڈیل یا این آر او‘‘ کو نہ بھی مانا جائے تو حقائق تو تبدیل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس کے اثرات کو بدلا جاسکتا ہے۔ آپ نےطے کیا تھا کہ دفاع، خارجہ اور انٹرنل وایکسٹرنل سیکورٹی پالیسی آپ بنائیں گے، آرمی چیف کو میز کی دوسری طرف بغیر چھڑی کے بٹھائیں گے، تمام اجلاس ومذاکرات وزیراعظم ہاوس میں ہوں گے، دفاع اور سیکورٹی اخراجات کی مد آپ طے کریں گے، کس ملک سے دوستی اور کس سے دشمنی رکھنی ہے آپ فیصلہ کریں گے، آپ خود دیکھیں گے کہ سی پیک کیسے اور کون چلائے گا، الغرض آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ ملک کے اندر اور باہر سب کچھ آپ کے اشارہ ابرو سے ہوگا، پھر بقول منیرنیازی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
افسوس یہ ہے کہ آپ نےسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے یہ خوابوں کی بستی سجائی، زمینی حقائق کا ادراک آپ کو بہت اچھی طرح تھا لیکن آپ پھر وزیراعظم تھے، حقیقت پسندی کی بجائے دربار سے ’’واہ واہ ظلِ الہی آپ کا اقبال بلند ہو‘‘ کی تکرار نے آپ کے اوسانوں کو محو تعریف رکھا۔ کئی مواقع پر آپ کو آئینہ دیکھنے کا بھی موقع ملا لیکن آپ نظریں چرا گئے، پھر28جولائی کو فیصلہ آگیا۔ اس ہولناک سیاسی زلزلے نے ن لیگ کی صفوں میں دراڑیں تو ڈالیں لیکن آپ نے تجربے کی بنیاد پر ان کے نشان چھپا دئیے، جو وقت کے ساتھ واضح اور گہرے ہوتے جارہے ہیں، آپ نے نااہلی کے بعد سب سے بڑا اور بنیادی سوال ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ رکھا جس کا عوام تو جواب دینے کی بجائے انگشت بدنداں ہوگئے تاہم ان کے سیاسی حریفوں اور حلیفوں سمیت سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نےعمران خان نااہلی کیس میں اضافی نوٹ کے ساتھ بھی دیا، تاہم آپ نے اس کو بھی مسترد کر کے سازش قرار دیا، مان بھی لیا جائے کہ آپ کو ’’ممنوعہ حدود‘‘ میں دخل اندازی کی سزا دی گئی ہے تو منتخب زیرک رہ نما تو آپ تھے قافلہ لٹنے کا سبب بھی آپ کو ہی بتانا چاہئے تھا اور اب تک سازش کا پردہ چاک کر ہی دینا چاہئے تھا لیکن ایسا ہونا تھا نہ ہوا، بلکہ آپ کی اپنے باغی لیڈر ہونے کی حکمت عملی اسی طرح ناکام ہوئی جیسے نیا پاکستان بنانے کی خواہش میں مسٹر ہاشمی کی اور پھر پرانے پاکستان میں واپس آگئے آپ کی نئی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی جماعت کے لیڈرز کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔ شاید وقت گزرنے کے ساتھ ن لیگ کو ایک مرتبہ پھر احساس ہو گیا ہے کہ ’’عوامی طاقت‘‘ دراصل ہے کیا؟ یہ کس کے پاس ہے؟ کس کے پاس رہتی ہے اور کس کے پاس رہے گی؟ جی ہاں یہ احساس ہوتا بھی کیوں نا، حقیقت یہی ہے کہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد دائیں بازو کی طاقت ورجماعت بنی، ہر دور میں انہی کی اشیرباد سے حکومت بنائی اور بدستور پنجاب پر تخت نشیں ہے، پرانے قصوں اور کہانیوں کو متروک سمجھ کر مسترد بھی کر دیا جائے تو واضح ہے کہ ایک دفعہ غلامی کا دم بھرنے کے بعد پھر عمر بھر آزادی نصیب نہیں ہوتی، البتہ آزادی کی خواہش رکھنے والوں، اس کا مطلب سمجھنے والوں اور اس پر یقین رکھنے والوں کو ایک دن آزادی ضرور مل جاتی ہے۔ آزادی کی بجائے اقتدار کی خواہش میں پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کے اتنے حصے بخرے کئے گئے کہ کئی نام تو ذہنوں سے محو ہوچکے ہیں۔ ن لیگ بننے کے سفر سے اقتدار کی منزل تک جتنے بھی امتحان آئے ’’طاقتوروں‘‘ کی فراہم کردہ نقل سے یہ کامیاب ہوئے۔ اقتدار کی بجائے سیاسی آزادی کی جدوجہد کی جاتی تو شاید منزل آہی جاتی، لیکن انہیں کیسے ملتی جو قید وبند کی صعوبتوں پر دیار غیر کی شاہی غلامی کو ترجیح بنائیں، جو خود خلد سے نکلیں تو ووٹ کی حرمت اور تقدس کی بات کریں جب اقتدار ہو تو انہی اصولوں کو قربان کردیں، اپنی کرسی بچانی ہو تو سیاسی اقدار اور جمہوریت کی مضبوطی کا نعرہ لگائیں، طاقت میں ہوں تو پارلیمنٹ کو بے توقیر اور اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیں، دوسروں کو بے تخت وتاراج کرنا ہو توعدل کی زنجیر ہلائیں، اپنے خلاف فیصلے آئیں تو انصاف کا قتل قرار دیں، پسند ہو تو منصب پر بٹھادیں، کچھ ناگوار گزرے تو زمین بوس کردیں، ڈکٹیٹر کے تابع فرمان پابہ زنجیر بن کر ڈیل کر کے آئین شکن حلف اٹھائیں، طاقت کے گھمنڈ میں ہوں تو ڈکٹیٹر کو آئین شکنی کا درس سکھانے کا خواب دیکھیں۔ عوام کیسے یقین کریں کہ آپ اس نظام سے مخلص ہیں کیونکہ جب آپ کو دھرنوں نے گھیرا تھا تو آپ نے اپوزیشن سے جمہوریت کی بقا کی بھیک مانگی، جب ان کے ہوم گرائونڈ پر انہیں دیوار سے لگایا جارہا تھا تو آپ نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی، جمہوری اصولوں کا ٹرننگ پوائنٹ کے ساتھ ساتھ یہی موجودہ حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ پھر آپ نااہل ہوئے، واویلا کیا، صدائیں دیں، ہزار بار مڑ کر بھی دیکھا لیکن کہیں سے کوئی صدا آئی نہ مدد، جب اپنے بھی ساتھ چھوڑنے لگے تو اب آپ سب کچھ مان گئے، آپ کو اندازہ ہوگیا کہ اقتدار کے حقیقی وارث آپ تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے، کیونکہ آپ ان اصولوں کو خود پامال کرچکے جن کو بنیاد بنا کر آپ نے آئندہ ایک دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے خواب سجائے تھے، آپ کو عدلیہ کے مخالف تحریک چلانے کا جواب بھی گھر سے مل گیا، عوام امید سے تھے کہ آپ سیاسی جماعتوں سے مل کر فیصلہ کن جنگ کریں گے، تاہم آپ سنبھل گئے، تاخیر اس لئے ہوئی کہ اب آپ کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں تھا، ’’مہربانوں‘‘ نے سین سے مکمل آئوٹ کرنے کی بجائے آپ کو ایک موقع اور دینے کا فیصلہ کیا، پارٹی کو متحد رکھنے کے لئے پھر حقیقی بھائی کو اپنا جانشیں نامزد کردیا، شاید اسی سے آپ اور آپ کے خاندان سمیت پارٹی کی بھی سیاسی بقا کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ شہبازشریف ایک چست اور سخت گیر منتظم تو ہی ہیں ان کی بڑی قابلیت ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ’’سیاسی ہم آہنگی‘‘ بھی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں کئی نازک مراحل پر انہوں نے اپنے دوست چوہدری نثار کے ساتھ دانش مندی کے کرشمے دکھائے، بڑے بھائی کو اب بھی ان سے بہت توقعات ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نیازی صاحب سے کہیں زیادہ، طاقت ور اپنے آزمائے ہوؤں پر اعتماد کرتے ہیں اور چھوٹے بھائی ’’انہیں‘‘ بہت سوٹ کرتے ہیں، تاہم یہ سب آئندہ کے انتخابی معرکے اور نتائج سے جڑا ہے، اگر انتخابات وقت پر کرائے گئے؟ اس صورت حال نے عوام کو بھی پھر کنفیوژ کر دیا کہ ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے ’’اصولوں‘‘ اور ’’ضابطوں‘‘ کے بہت پکے ہیں، ووٹ کی حرمت کے نام پر جب چاہیں جہاں چاہیں اور جس کے ساتھ چاہیں این آر او کر لیتے ہیں، بی بی کی شہادت کے بعد 2008کے بروقت انتخابات اور زرداری کی راول پنڈی اسلام آباد میں اہم ملاقاتوں کے ذریعے اقتدار کے دروازے تک رسائی کے چشم کشا واقعات ہوں یا، 2013کے انتخابات سے قبل مسٹر خان کی بیلٹ باکس توڑ رش سے اقتدار میں انٹری کی آس کے درمیان میاں صاحب کی تخت نشین ہونے کی کیانی ڈیل، سب مایا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عوام کی آنکھوں میں جمہوریت پسندی کی دھول جھونکنے کے باوجود وہ سمجھ چکے ہیں کہ آپ لیفٹ کے ہوں یا رائٹ کے آپ کے اسلام آباد آنے کا راستہ راول پنڈی کے درمیان سے ہوکر گزرتا ہے لیکن اچھی بات ہے کہ آپ سب این آر او کو اب بھی بہت برا سمجھتے ہیں۔

تازہ ترین