• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذیشان اور بشیر صاحب دونوں میرے لئے عجیب کردار ہیں، ذیشان مجھ سے سینئر ،لیکن میرا دوست ہر وقت بن ٹھن کر رہتا ہے ، گزشتہ کئی دنوں سے مجھ سے کچھ رقم ادھار مانگ رہاتھا، میں اس کی مطلوبہ رقم تو اس کو بطور قرض نہ دے سکا ،البتہ کچھ رقم میں نے جیسے تیسے کرکے کردی، لیکن میں اس بات پر حیران تھا کہ اتنا بن ٹھن کے رہنے والے ذیشان کو آخر کچھ عرصے بعد ہر بار کیوں قرضے کی ضرورت محسوس ہوجاتی ہے ، ذیشان کے مقابلے میں بشیر صاحب ہمارے گائوں کے ہیں میں انہیں بچپن سے دیکھ رہاہوں وہ میرے والدین کے بھی بزرگ ہیں اور میرے لئے بھی ان کی حیثیت بہت احترام والی ہے، وہ جب بھی ہمارے گھرآتے کبھی دیسی گھی کا ڈبہ تو کبھی مکئی کا آٹا، کبھی مونگ پھلی کا تو کبھی ریوڑیوں کے پیکٹس ،میں نے آج تک انہیں خالی ہاتھ آتے نہیں دیکھا، بلکہ جب وہ جانے لگتے تو ہم تمام گھر والوں سے بار بار پوچھتے کہ کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتائیں ہم جواباً انہیں کہتے کہ اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے ،تو وہ کہتے کہ اللہ آپ کو اور زیادہ دے لیکن کبھی کبھی 99بیل رکھنے والے کو کسی ایک بیل رکھنے والے کی ضرورت بھی پڑ ہی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بشیر صاحب کو بڑا سخی دل عطا فرمایا ہے لیکن میں جب سے بشیر صاحب کو دیکھ رہاہوں انہوںنے اب بھی وہی شوز پہنے ہوتے ہیں جو میں نے انہیں کئی سال پہلے پہنے دیکھا تھا ،سردیوں میں ان کی وہی جیکٹ ہوتی ہے جو کئی سا ل سے وہ سر دیو ں میں پہن رہے ہیںمیں نے ایک مرتبہ ان سے سوال کیا کہ بشیر صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن آپ کو میںنے ایک ہی جیکٹ یا شوز پہنے دیکھا ہے، وہ ہنس پڑے اور میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے یہ گھڑی تقریباًپچاس سال پرانی ہے ، میرا بھائی میرے لئے سعودی عرب سے لایا تھا، یہ بہترین وقت بتاتی ہے ایک آدھ مرتبہ خراب بھی ہوئی ہے لیکن میں نے گھڑی کے مکینک سے ٹھیک کروالی ہے ، مجھے اس گھڑی سے محبت ہوگئی ہے میں اس کو پھینک نہیں سکتا، یہ گھڑی مجھے وقت بتانے کا کام کررہی ہے اور اس کو باندھنے کا مقصد بھی یہی ہے تو کیا میں اس کو پھینک کر ایک دوسری گھڑی لے لوں۔ اسی طرح میرے شوز بھی ملازم نا می موچی کے ہا تھوںخالص چمڑے کے بنے ہوئے ہیں، یہ میرے پائوں کیلئے آرام دہ بھی ہیں اور مضبوط بھی ہیں ،کیا میں لوگوں کو دکھانے کیلئے یہ پھینک کر شوز کا ایک نیا جوڑا خرید لوں، یہی معاملہ جیکٹ کا ہے ، انہوںنے میرا ہاتھ پکڑ کر جیکٹ کی اندرونی سطح پر ٹچ کراتے ہوئے کہاکہ دیکھو کتنی گرم ہے میں سردی روکنے کیلئے پہنتا ہوں اور یہ جیکٹ اپنی ڈیوٹی زبردست طریقے سے کررہی ہے ۔ میں بشیر صاحب کی قناعت اور عادات کو سمجھ گیا کہ وہ وسائل رکھنے کے باوجود اپنی دولت کو صرف دوسروں کو دکھانے کیلئے خرچ کرنے کو تیار نہیں وہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں لیکن فضول خرچی نہیں کرتے وہ اپنے گائوں میں ایک دستکاری اسکول چلاتے ہیں جس کے سارے اخراجات وہ خود برداشت کرتے ہیں اب میرے دوست ذیشان کی بھی سن لیجئے اعلیٰ برانڈز کے کپڑے ، شوز اور گھڑی اس کے استعمال میں ہوتی ہیں، لش پش کرتی گاڑی بھی ہوتی ہے ، اس نے ایک اچھے شاپنگ پلازہ میں الیکٹرانکس کا ایک آؤٹ لیٹ بھی کھول رکھا ہے، لیکن جب بھی اس سے بات کرو وہ کہتا ہے یا رکرائے بڑے ہیں، بجلی کے بل ہی پورے نہیں ہوتے ، ملازموں کی تنخواہیں دیں تو اپنے اخراجات نکالنے مشکل ہوجاتے ہیںمیں سمجھ گیا کہ بات کم یا زیادہ وسائل کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے وسائل ہوش سے خرچ کرنے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل دے رکھے ہیں لیکن ہم نے نہ ہی ان کی قدر کی اور نہ ہی ان کو سوچ سمجھ کر خرچ کیا، بلکہ ٹھاٹھ تو شاہانہ رکھے اور وسائل کو اندھا دھند ضائع کرکے آج ہم بھی قرضوں کے بوجھ تلے ہیں، ذیشان کا حال بھی ایسا ہی ہے ۔

تازہ ترین