ساری دنیا میں کرمس کی تیاری ہو رہی تھی اسی طرح پاکستان میں بھی کرسمس کی تیاریاں زوروشور سے چل رہیں تھی مسیحی کمیونٹی کرسمس کے پروگراموں کی تیاریوں کے حوالے سے مصروف تھی۔ صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع بیت ال میمورئیل میتھوڈسٹ چرچ کے سنڈے اسکول میں بچے کرسمس کے پروگراموں کی تیاریوں میں مصروف تھے وہ اس بات سے قطعی طور پر غافل تھے کہ چند لمحوں بعد ان پر کیا قیامت صغریٰ ٹوٹنے والی ہے اور پھر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گرد جو پلان 2016 سے بنا رہے تھے اس میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گرد چرچ کے گارڈ سلطان مسیح کو مار کر اندر داخل ہوئے اور خود کش دھماکہ کر دیا جس سے 9مسیحی جاںبحق ہو اور 51زخمی ہو گئے جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔ نقصان زیادہ ہو سکتا تھا مگر سلطان مسیح نے مرنے سے قبل چرچ کا بڑا گیٹ بند کر کے دہشت گردوں کا چرچ میں داخلہ مشکل بنا دیا تھا۔ ان دہشت گردوں کو گیٹ کُود کر آنا پڑا اس میں وقت لگا اس دوران پولیس نے دہشت گردوں کو چرچ کے اندر داخل ہونے سے روک دیا ۔ اگر گارڈ سلطان مسیح چرچ کا گیٹ بند نہ کرتا تو جانی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا تھا۔ یہ کیسا گارڈ تھا کہ اس کے ہاتھ میں اسلحہ تو کیا کوئی لاٹھی بھی نہیں تھی اور اس کی بینائی بھی بہت کمزور تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کا ذمہ دار کون ہے؟۔ ایک بحث چل پڑی کہ پولیس نے وقت پر کاروائی کر کے دوسرے دہشت گرد کو مار دیا تھا۔ لیکن شدید فائرنگ کے باوجود بھی سلطان مسیح اگر گیٹ بند نہ کرتا تو پولیس کو تو معلوم بھی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اگر وہ گیٹ بند نہ کرتا تو ان کا اند داخل ہونا کون سا مشکل تھا۔ اس واقعے کا پس منظر جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ جو مجھے نظر آرہا ہے اور میری تحقیق ہے وہ مجھے کہیں کسی بھی میڈیا پر نظر نہیں آیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہےکہ 2013میں سانحہ پشاور چرچ جس میں 88مسیحی جاں بحق ہوئے تھے اس کے بعد پاکستان کی معروف سماجی شخصیت سیموئیل پیارا اور ان کی ٹیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ پٹیشن داخل کی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئ تھی کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔2014میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جو جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا، ایک آرڈر جاری کیا تھا جس کے پانچویں نکات میں چاروں صوبائی حکومتوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ چرچز، مندر اور گردواروں کی حفاظت کے لئے ایک اسپیشل پولیس فورس تشکیل دے جو مکمل طور پر تربیت یافتہ ہو اوروہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کر سکیں۔ مگر چونکہ حکومت کے لئے اقلیتوں کی جان و مال کی وقعت دو کوڑی کی ہے اس لئے انہوں نے کچھ نہ کیا۔ کوئٹہ کے اسی چرچ کو 2016 میں بھی دھمکی موصول ہوئی تھی مگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ 7اکتوبر 2017کو شاہ زمان روڈ کوئٹہ پر واقع ایک چرچ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا اور ملزمان فرار ہو گئے۔ خوش قسمتی سے اس میں جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر یہ ایک ٹریلر تھا یہ دہشت گرد جائزہ لے رہے تھے کہ حکومت ان کے خلاف کیا اقدام کرتی ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ 4 اکتوبر کو سپہر تین بجکر 15منٹ پر پاسٹر انیل جانسن کو جو کہ شاہ زمان روڈ پر واقع بیت ال میموئیل میتھوڈسٹ چرچ کے پاسٹر ہیں ان کو فون پر ایک دھمکی موصول ہوئی اور ان کو کہا گیا کہ شام تک دو کروڑ روپے کا بندوبست کر لو ورنہ تم عیسائیوں کو مار دیں گے۔ اسی طرح کی فون کال اسی چرچ کے اسسٹنٹ پاسٹر مظفر منور کو بھی موصول ہوئی۔ حیرت کی بات یہ تھی کے کال کرنے والا شخص باقائدہ اپنے نمبر سے کال کر رہا تھا اور بے خوف تھا اپنا نمبر اور اپنا تعارف کروا رہا تھا۔ پاسٹر انیل نے اس سے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اتنا پیسہ کہاں سے لائیں مگر وہ دھمکیاں دے رہا تھا۔ پھر ہفتے کے روز 7اکتوبر کوان کے چرچ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس واقعہ کو پاکستان کے میڈیا نے دکھایا تھااس حملے کے بعد یہ دونوں خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے زرغون آباد تھانے میں دھمکی آمیز فون اور اس کا نمبر سب کچھ پولیس کو بتایا۔ ایف آئی آر نمبر 154/17درج کرائی۔ پاسٹر انیل جانسن نے اس دہشت گرد کی آواز بھی ریکارڈ کر لی تھی جو راقم نے بھی سُنی اور فون نمبر بھی دیکھا ہے (جس کیلئے میں معروف سماجی شخصیت گُلباز فضل کا شکریہ ادا کرتا ہوں) مگر 7اکتوبر کے واقعہ کے بعد بھی بات ایف آئی آر سے آگے نہیں بڑھی اور پھر دہشت گردوں نے اپنا کام کر لیا۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کی ایجنسیاں 2016کی دھمکیوں کو سنجیدہ لیکر تفتیش کرتیں یا 7اکتوبر کے دستی بم حملے کے بعد اس دہشت گرد کو تلاش کرتیں جس کی آواز، فون نمبر تک پولیس کو دیا گیا تھا تو سانحہ کوئٹہ میں اتنا بڑا جانی نقصان نہ ہوتا۔ حکومت کی جانب امداد کا اعلان کیا گیا مگر ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ کچھ لوگ اقلیتی ارکان کو قصوروار قرار دے رہے ہیں کہ جو خاموش رہ کر حلوہ کھا رہے ہیں اور صرف فوٹو سیشن کیلئے جائے وقوع پر پہنچ جاتے ہیں اور فوٹو کے بعد پرسرار سی مسکراہٹ کے بعد نکل جاتے ہیں مذہبی لیڈر بھی اب نہیں ہیں کیونکہ بشپ جان جوزف نہیں ہیں۔