• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے سال2018کا آغاز ہوچکا، 2017جیسے تیسے گزر گیا اللہ کرے نیا سال ہم سب کے لئے خوشی، اطمینان اور وطن سے دلی محبت کا سال ثابت ہو۔ اس سال ملکی دولت اور وسائل کی لوٹ مار کی حوصلہ شکنی ہو اور نظام عدل نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے یکساں ہو جس میں عام آدمی کو معاشی، قانونی اور ہر طرح کے تحفظ کا احساس ہو۔ 2018کی ایک سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار اس سال کے دوران ایک نہیں، تین حکومتیں عوام کو دیکھنے میں ملیں گی جس میں جمہوریت کے کئی روپ سامنے آئیں گے۔ پہلے تو یہ امید ہے کہ موجودہ حکومت کی پانچ سالہ مدت اپریل کے وسط میں پوری ہوجائے گی(ویسے تو آج کل حکومت کا معاملہ روزانہ کی بنیاد پر ہے اور نہیں ہے کی بنیاد پر چل رہا ہے) اس کے بعد 90دن کے لئے نگران حکومت اور پھر 2018کی آخری سہ ماہی میں عام انتخابات کی صورت میں پانچ سالہ مدت کے لئے نئی حکومت قائم ہوگی۔ خدا کرے خوش فہمی پر مبنی یہ اندازے درست ثابت ہوں اس لئے کہ جیسے انسان کا دل دن میں مسلسل دھڑکتا ہے اسی طرح جمہوریت کا دل بھی دھڑکتا رہتا ہے مگر اس دل کا کوئی حال نہیں ہے، جس کی حفاظت اور تسلسل کے دعوے وہ ادارے کررہے ہیں جن کے با رے میں ہمارے سبھی سیاسی قائدین اپنی تقریروں میں محض عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے آمریت کے ادوار کے حوالے سے ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن سیاسی قائدین کی اکثریت اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر انہی اداروں سے مدد بھی لیتے ہیں اور اپنا نظام بھی چلاتی ہے مگر عوام بے چارے ہر دور میں بے وقوف بنے ہی رہتے ہیں، اب بھی 2018کے الیکشن کی گہما گہمی جیسے ہی شروع ہوگی ملک میں امیر طبقہ غریبوں سے ایسے ہمدردیاں کرنا شروع کردے گا جیسے وہ ان کے اپنے ہوں۔ اس سے چند ماہ تو غریبوں کے دن اچھے گزر جاتے ہیں مگرووٹ لینے کے بعد یہی طاقتور غریبوں کو پہچانتے بھی نہیں۔
اللہ کرے اب کی بار ایسا نہ ہو مگر اس سے پہلے دیکھنا ہے کہ 2018میں تو عملاً ملک میں کوئی کام نہیں ہوگا اور نہ ہی معیشت سے لے کر کسی شعبہ میں کسی اصلاحات کی امید، کیونکہ تین بار حکومتوں کی تبدیلی سے انتظامی طور پر کئی سرگرمیاں سامنے آسکیں گی، مگر عوام بے چارے ایسے ہی حالات سے دو چار رہیں گے جس سے وہ اب گزر رہے ہیں۔ اس دوران موجودہ حکومت اپنی موجودہ مدت کا آخری بجٹ بھی پیش کرے گی جس میں کئی شعبوں میں ترقی کے بڑے بڑے اعلانات ہوں گے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، پھر نگران حکومت 90دن کے لئے بنے گی اللہ کرے یہ 90دن 24ماہ کی مدت سے بھی زیادہ نہ ہوجائیں اور عوام جمہوریت نام کی چیز کو بھول جائیں ،اگر اب ایسا ہوتا ہے تو پھر ہمارے سیاسی قائدین کس منہ سے عوام کو اپنا رونا روئیں گے۔ ان سب حالات سے پہلے اگر اسلام آباد میں کوئی معجزہ ہوجاتا ہے اور برادر اسلامی ملک ترکی کی مدد سے سعودی حکومت سیاسی معاملات کو کسی نئے فارمولے کے تحت مستحکم کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر نامعلوم 2018کیسا گزرے گا۔ اس سلسلے میں حلقہ 120کے انتخابات کے دنوں میں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ترکی حکومت کے ساتھ جو معاملات طے کئے تھے اب اس کی شکل سامنے آرہی ہے۔ ان کی سعودی عرب روانگی میں بھی ترکی حکومت کی سپورٹ واضح نظر آرہی ہے اس کے بعد وزیر اعلیٰ انگریزی ا سٹائل میں جیسے خصوصی طیارے میں سعودی عرب گئے ہیں اس سے سابق وزیر اعظم بھٹو صاحب کے دورہ تاشقند جانے کا منظر یاد آگیا۔ پھر کیا ہوا، معاہدہ تاشقند طے پایا۔ آج تک کسی کو بھی سمجھ نہیں آیا کہ اس معاہدہ میں پاکستان کی جیت ہوئی یا ہار! اس طرح اب بھی کوئی نیا معاہدہ طے پاتا ہے تو شاید صورتحال ایسی ہی ہو اور شریف فیملی کی توقعات زیادہ پوری نہ ہوں۔ اس لئے کہ بداعتمادی ا ور بدگمانی ان کی طرف سے کچھ زیادہ ہی پیدا کردی گئی ہے۔ اس لئے اب یہی دعا ہے کہ2018میں ایک حکومت یا بنے یا تین! اللہ کرے ملکی معاملات صحیح طریقے سے چلنا شروع ہوجائیں۔

تازہ ترین