• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو 36 کھرب روپے کی امداد دینے کے معاملے کو امریکہ کی بے وقوفی سے تعبیر کرنے کا بیان دے کر اپنے جذباتی پن کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ جیسا کہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور امریکی صدر انتخاب از خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کی تبدیل شدہ سوچ کا مظہر ہے ۔ امریکی صدر کے بیان پر پاکستان میں جو ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے ، وہ نہ صرف پاکستان کے حالات کے تناظر میں فطری ہے بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی شاید یہی چاہتی ہو کہ پاکستان میں اس طرح کا ردعمل سامنے آئے ۔
اس وقت پاک امریکہ تعلقات جس طرح اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ہم امریکی پچ پر نہ کھیلیں ۔ امریکہ پاکستان پر غضبناک کیوں ہو رہ اہے ؟ پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے اس سوال کے مختلف جوابات دے سکتے ہیں لیکن افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور امریکی مفادات کے لئے طویل عرصے تک ’’ جہاد ‘‘ کرنے والے رہنما حکمت یار کی اس بات میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے خطے میں امریکہ مخالف اتحاد بننے کی وجہ سے امریکی صدر پاکستان پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اس خطے میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور یہاں امریکہ کی طویل فوجی موجودگی خطرات سے دوچار ہے ۔
پاکستان کو امریکی صدر اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ اقدامات پر ردعمل کے لئے سب سے پہلے اپنا بیانیہ تبدیل کرنا چاہئے ۔ پاکستان کو یہ کہنے کی ضرورت نہٰں ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔ یہ امریکی بیانیہ ہے کیونکہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ پاکستان کر رہا ہے ۔ امریکی بیانیہ کے مطابق اگر پاکستان دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرتا تو افغانستان میں حالات ٹھیک ہو جاتے اور وہاں امریکی افواج اور دیگر اتحادی افواج کی موجودگی کی ضرورت نہ ہوتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان اور اس خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں چاہتا کیونکہ یہ دہشت گردی اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی موجودگی کا جواز مہیا کرتی ہے ۔ نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی اس خطے کے لئے امریکی ایجنڈے کے لئے ضروری ہے بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی امریکی ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے جو ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ نافذ کیا ، اس کا بنیادی جوہر دنیا میں مصنوعی دہشت گردی کی بنیاد پر امریکی فوجی مداخلت کے لئے جواز پیدا کرنا ہے تاکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں امریکہ مخالف عالمی طاقتیں پیدا نہ ہو سکیں اور بدامنی کے ذریعہ دنیا کو کنٹرول کیا جا سکے ۔ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد ایک عشرہ تاریخ انسانی میں بدترین خونریزی اور عالمی سطح پر اجتماعی مایوسی کا عشرہ تھا لیکن تاریخ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ انسان نے بدترین حالات میں بھی جینے کے راستے بنائے ہیں ۔
موجودہ حالات میں پاکستان کو دنیا سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی انتہائی طاقتور اور جدید افواج کی موجودگی میں دہشت گردی کنٹرول کیوں نہیں ہوئی ؟ ان افواج کی افغانستان میں موجودگی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہوا ؟ یہ سوالات اس بیانیہ کو تقویت دیں گے ، جو قبل ازیں دنیا کے چند رہنماؤں نے اختیار کر رکھا ہے کہ طالبان ، داعش ، القاعدہ ، بوکوحرام اور دیگر انتہا پسند دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی خود امریکہ کر رہا ہے ۔ عرب ممالک میں داعش کی حالیہ کارروائیاں بے نقاب ہو چکی ہیں ۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو امریکی گالیوں کا جواب گالیوں سے دینے کی بجائے اپنی سفارت کاری کے ذریعہ اس بیانیہ کو رائج کرنا چاہئے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سے محاذ آرائی نہ کی جائے اور نہ ہی امریکی امداد کی بحالی کے لئے پہلے جیسی کوششیں کی جائیں ۔ کولیشن فنڈ اور سیکورٹی امداد کے نام پر امریکہ نے اب تک پاکستان کو جو دیا ہے ، اس سے کئی ہزار گنا زیادہ رقم امریکہ اس خطے بشمول پاکستان اور افغانستان میں خفیہ آپریشنز پر خرچ کر چکا ہے ۔ امریکہ جس قدر جنگوں اور فوجی مہم جوئی پر اخراجات کرتا ہے ۔ اگر اس کاایک فیصد بھی اتحادی ملکوں کی ترقی پر خرچ کرے تو دنیا میں جنگیں ختم ہو جائیں ۔ پاکستان کو امریکی خفیہ آپریشنز کے لئے آنے والے فنڈز کو بلاک کرنا ہو گا ۔ ان فنڈز نے پوری دنیا میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا ڈرامہ جاری رکھنے کے لئے ایک مخصوص مفاد پیدا کر دیا ہے ۔ اس مخصوص مفاد پر کاری ضرب لگانا ہو گی ۔
ہمارے خطے میں جو نئی صف بندی ہو رہی ہے اور امریکہ مخالف اتحاد بن رہا ہے ، اس میں پاکستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ چین ، روس ، ایران ، قطر اور مشرق وسطی کی ابھرتی ہوئی معیشتیں امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف نہ صرف صف آراہو رہی ہیں بلکہ اپنا اکنامک ورلڈ آرڈر نافذ کرنا چاہتی ہیں ۔ یہ صف بندی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ۔ پاکستان اگر اس صف بندی میں شامل نہیں ہوتا تو کئی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کا بلاک نہیں بن سکتا ۔ پاکستان عالمی کھلاڑی بن گیا ہے ۔ پاکستان کو کسی مہم جو یا نہ ردعمل سے گریز کرنا چاہئے ، جیسا کہ چین ، روس ، ایران ، قطر وغیرہ کر رہے ہیں ۔ امریکہ پاکستان میں مزید افراتفری پھیلا کر اس اتحاد کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ، جس کی طرف گلبدین حکمت یار نے اشارہ کیا ہے ۔ پاکستان کو نہ صرف تدبر سے کام لینا ہو گا بلکہ ملک میں داخلی سطح پر سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے مابین تضادات کے تاثر کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کے بیانات سے لگتا ہے کہ امریکہ یہاں پہلے سے بڑی مہم جوئی کرنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کو پہلے سے زیادہ محتاط اور سفارتی رویہ اختیار کرنا ہو گا ۔ چیلنج بہت بڑا ہے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کو انتہائی نازک موڑ پر لے آئی ہیں ۔

تازہ ترین