• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفی اور سائنس دان...ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ

سائنس کا ایک نہایت دلچسپ اصول ہے جسے Uncertainty Principle( بے یقینی کا کلیہ) کہا جاتا ہے، یہ کلیہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ کسی بھی عمل کے بارے میں بیک وقت درست اورمختلف النوع معلومات فراہم کرنا ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر کسی ذرے کی رفتار کا صحیح حساب لگانا اور اسی لمحے اس کے مقام کا درست تعین کرنا ممکن نہیں ۔اگر اس بات کو مزید سائنسی گھمبیرتا کے بغیر سمجھانا مقصود ہو تو یوں کہیں گے کہ جتنا ٹھیک ٹھیک ہم کسی ذرے کی رفتار کا تعین کریں گے اتنی ہی کم precisionکے ساتھ اس کے مقام کا تعین ہو سکے گا۔کوانٹم فزکس کے مطابق ہم چاہے جتنی بھی معلومات حاصل کر لیں یا کسی عمل کو جانچنے کی ہماری صلاحیت کتنی ہی بڑھ جائے ،ہم اس عمل کے نتیجے کی سو فیصد درست پیش گوئی نہیں کر پائیں گے کیونکہ ہم اس طبعی عمل کا درست طور پر تعین ہی نہیں کر سکتے ۔دیسی انداز میں اس بات کا مطلب یہ ہے کہ قدر ت سادہ ترین حالات میں بھی کسی عمل یا تجربے کے نتیجے کو dictateنہیں کرتی بلکہ قدرت ایسے مختلف امکانات کے ظہور پذیر ہونے کی اجازت دیتی ہے جن میں سے کسی بھی ایک امکان کے حقیقت میں تبدیل ہونے کے برابر مواقع ہوتے ہیں ۔
بظاہریوں لگتا ہے جیسے کوانٹم فزکس اس قانون میں یقین نہیں رکھتی کہ قدرت کا نظام چند مخصوص قوانین کے تابع ہے۔گو کہ یہ بات ہضم کرنا بے حد مشکل ہے لیکن در حقیقت کوانٹم فزکس ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ قدرت کے قوانین ماضی یا مستقبل کے صرف امکانات کا” تعین“ کر سکتے ہیں ، کسی بھی عمل یا تجربے کا یقینی نتیجہ نہیں ”فکس“ کرسکتے،یہی ”غیر یقینی کلیہ ہے“۔کوانٹم تھیوری میں probabilities مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں ،وہ قدرت میں بنیادی ”بے ترتیبی“ کی عکاسی کرتی ہیں ۔قدرت کے قوانین کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایکشن کا ہر مرتبہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہو گا،در حقیقت اس نتیجے کے لا تعداد امکانات ہو سکتے ہیں جن کاہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ممکن ہے بہت سے لوگ یہ بات ماننے کو تیار نہ ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ نظام قدرت میں کسی بھی ذرے کے کسی بھی مقام پر پائے جانے کے لاتعداد امکانات ہیں اور انہی لاتعداد امکانات کی وجہ سے ہم uncertainty کا شکار ہیں ۔قطع نظر اس بات سے کہ ہم کائنات کی موجودہ حالت کا کس قدر باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کے قابل ہیں ،کائنات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اس سے ایک نہایت عجیب و غریب نتیجہ یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ کوانٹم تھیوری کے مطابق اس کائنات کا کوئی ایک ماضی یا تاریخ نہیں ہو سکتی اور یہ دعوی میرا نہیں، دور حاضر کے سب سے جینئیس سائنس دان سٹیفن ہاکنگز کا ہے جس نے اپنی کتاب میں یہ ساری بحث نہایت دلچسپ انداز میں کی ہے۔اس قدر دقیق اور طویل تمہید کا مقصد آپ کو بور کرنے اور اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ کائنات کے ماضی یا مستقبل کے غیر یقینی ہونے کی بات اپنی جگہ ،ہماری روز مرہ زندگیوں میں بھی یہ uncertainty principle پوری شدت کے ساتھ لاگو ہے لیکن ہم نے اسے اپنی سہولت کے مطابق مختلف نام دے رکھے ہیں ۔روز انہ ایک ہی طرح کا سورج طلوع ہوتاہے ،ویسے ہی ہم بیدار ہوتے ہیں ،کام پر جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہردن ایک نیا تجربہ ہوتا ہے ۔کسی روز کوئی ایک فون کال آپ کا موڈ ہشاش بشاش کر دیتی ہے اور کسی روز وہی فون کال آپ کے موڈ کا ستیاناس کر دیتی ہے ۔ایک ہی کام کو ایک ہی انداز میں کرنے کا نتیجہ نکلنے کے امکانات یقینا زیادہ ہوتے ہیں مگر سو فیصد کبھی نہیں ہو سکتے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام تر پلاننگ اور مستقبل کی پیش بندی کے باوجود ہماری anxietyختم ہونے میں ہی نہیں آتی ۔جوں جوں انسان امیر ،طاقتور یا با اثر ہوتا چلا جاتا ہے توں توں وہ ”کہیں ایسا نہ ہو جائے ،کہیں ویسا نہ ہو جائے “ کی تصویر بنتا چلا جاتاہے ۔اسے یہ وہم ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ بنک ہی نہ ڈوب جائے جہاں اس کے پیسے جمع ہیں،اس پلاٹ پر ہی قبضہ نہ ہو جائے جو اس نے مستقبل کو ”محفوظ“ بنانے کی غرض سے خریدا تھا ،کہیں راہ چلتے وہ کسی اَن دیکھی گولی کا شکار نہ ہو جائے ،کہیں اس کا نیا کاروبار فلاپ نہ ہو جائے …غرض غیر یقینی امکانات کے اندیشے ہی جان نہیں چھوڑتے ۔
ہم میں سے اکا دکا لوگوں نے ہی کوانٹم فزکس پڑھی ہو گی اور جنہوں نے پڑھی بھی ہے ،بقول مشہور امریکی سائنس دان Feynman، ان میں سے کسی کو بھی اس کی سمجھ نہیں۔ اور شاید اسی لئے anxietyکا توڑ ڈھونڈنے کیلئے ہم کسی کوانٹم فزکس کے ماہر سے رجوع نہیں کرتے بلکہ نجومیوں، پامسٹوں یاستارہ شناسوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر ان اندیشوں سے بے نیاز کر دیں ۔ ہم میں سے وہ لوگ جن کا معیار ذرا اونچا ہو جاتا ہے ،اپنے لئے کسی صوفی کو تلاش کر لیتے ہیں اور پھر اس کی مجلس میں دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس صوفی کی نیک صحبت انہیں دنیاوی خطروں سے ماورا کر دے گی۔اس پریکٹس میں کوئی حرج بھی نہیں، اگر کسی شخص کو نیک لوگوں کی محفل میں سکون ملتا ہے تو سو بسم اللہ لیکن جن اندیشہ ہائے دور دراز سے چھٹکارا پانے کی غرض سے وہ یہ کام کرتا ہے، وہ بہر حال ممکن نہیں ۔سکون و طمانیت کی تمنا فطری بھی ہے اور آج کل کی دنیا میں شدید بھی،اور یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان آسودگی کی خاطر کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہے۔ تاہم میرے پاس (اور کسی کے پاس بھی ) آسودگی حاصل کرنے کا یا مستقبل کے اندیشوں سے بے نیاز ہونے کا کوئی فارمولا نہیں اور ایسا ممکن بھی نہیں کیونکہ یہ بات قانون قدرت کے ہی خلاف ہے۔قدرت کے نظام عمل میں جو کلیہ کار فرما ہے ،اس کی رو سے مستقبل کے کسی نتیجے کا حتمی تعین ممکن نہیں ،سب امکانات کی قوس قزح ہے۔ جب خود قدرت نے یہ کلیہ طے کر دیا تو کوئی بھی صوفی یا سائنس دان اس میں دخل اندازی کیسے کر سکتا ہے ؟خدا کے برگزیدہ بندوں کی بات البتہ دوسری ہے ،وہ یقینا ان اسرار و رموز سے واقف ہوتے ہیں جن سے سائنس تا حال نا آشنا ہے اور عقلی بنیادوں پر اس گتھی کو سلجھانا بھی فی الحال نا ممکن ہے ۔
ہمیں چونکہ اپنے بچوں سے ،گھر والوں سے اور خود سے محبت ہوتی ہے اور ہم اپنے پیاروں کو ہر حال میں خوش و خرم دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے لئے ہر قسم کی ”محفوظ سرمایہ کاری “ کر کے مطمئن ہو نا چاہتے ہیں (جو کہ یقینا دانشمندانہ بات ہے ) مگر ہو نہیں پاتے کیونکہ غیر حتمی نتائج کی تلوار ہمارے سر پر لٹکی ہے ۔بظاہر طمانیت سے بھرے ہر چہرے کے پیچھے ایک پریشانی ہوتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی،ہم سمجھتے ہیں کہ شائد اس دنیا میں صرف ہم ہی بے سکونی کا شکار ہیں باقی لوگوں نے تو غالباً مریخ پرزمین بک کروا رکھی ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ہمیں ادراک ہی نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کی anxietyدوسرے سے کس قدر مختلف اور کتنی شدید ہو سکتی ہے ۔سائنس دان ہمیں تجربات کے ذریعے آفاقی اصولوں سے آگاہ کرتا ہے جبکہ صوفی وظیفے بتا کر مستقبل سے بے نیاز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب یہ ہمار ی چوائس ہے کہ ہم کس کے پاس جاتے ہیں؟ مجھے تو دونوں کے پاس ہی سکون ملتا ہے بشرطیکہ دونوں ”اصلی“ ہوں!!!
تازہ ترین