دنیا بھرمیں مسلمان 10 ذوالحجہ کے دن روایتی جوش و خروش کے ساتھ عیدالاضحی کا تہوار منا رہے ہیں، یہ عید ہر سال حج کی عظیم اجتماعی اور عالمگیر عبادت کے مکمل ہونے کے بعد منائی جاتی ہے۔ اس کی خاص بات بڑے پیمانے پر جانوروں کی قربانی ہے جس کے ذریعے حضرت ابراہیم کی قربانی کی سنت تازہ کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ قدیم زمانوں سے طرح طرح کے تہوار مناتے آرہے ہیں۔ دنیا کے تمام تہواروں کی مشترک بات ان کے ذریعے خوشی اور مسرت کا اظہار ہے۔ اسلام نے بھی انسانی فطرت کے اس پہلو کو سامنے رکھ کر ملت اسلامیہ کو عیدین کے خصوصی تہوار عطا کئے ہیں۔دنیا کے عام تہواروں میں مسرت و انبساط کے حصول، کھیل کود اور موج مستی کو اولیت دی جاتی ہے لیکن عیدین کے اسلامی تہوار محض موج مستی کا نام نہیں ہیں بلکہ انہیں خوبصورتی کے ساتھ انسانی زندگی کے بنیادی مقصد سے جوڑ دیا گیا ہے تاکہ انہیں مناتے ہوئے ہم اس حقیقی مسرت و شادمانی سے ہمکنار ہوں جو بندوں کو اللہ کی مرضی کے آگے سر جھکانے سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے مسلمان عید ین کے تہواروں کی ابتدا خاص طور پر دوگانہ نماز سے کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ جلیل القدر پیغمبر ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسلسل امتحانوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد لوگوں کا امام بنانے کی خوش خبری سنائی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے الہامی مذاہب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان بھی خود کو ملت ابراہیمی کہلانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔حضرت ابراہیم کو پے درپے امتحانوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد جن میں ایک بڑا امتحان ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو ایک مینڈھے کی قربانی سے بدل کرذبح عظیم کے طور پر قبول کرلیا۔ حج کے بعد عیدالاضحی کا تہوار اس عظیم امتحان میں حضرت ابراہیم کی کامیابی کی یاد میں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دراصل اللہ تعالیٰ سے اس عہد کی تجدید کرنا ہے کہ ہم بھی اپنی تمام خواہشات کو قربان کر کے اللہ کے فرمان بردار بندے بنیں گے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اللہ تعالیٰ سے مسلم یعنی اس کے فرماں بردار بندے بننے کا عہد کیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں آنے والے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اپنی نعمتیں مکمل کرتے ہوئے اہل ایمان کو مسلم کا خصوصی لقب عطا فرمایا۔ مسلمان ہر سال حج اور اس کے بعد قربانی کی سنت کو تازہ کر کے حضرت ابراہیم کے حقیقی وارث ہونے کے اعلان اور عہد کو تازہ کرتے ہیں اس لئے عیدالاضحی کے تہوار کو مناتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہئے۔ جن میں اولیت تزکیہ نفس کو حاصل ہے۔ آج جب دنیا بھر کے مسلمان نت نئی آزمائشوں اور ابتلا کے کا سامنا کر رہے ہیں، ہمیں اس بات کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ ملت اسلامیہ ایک عالمگیر امت ہے اور ہمیں ہر مسلمان خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو ،کے دکھ اور درد کو پوری طرح محسوس کرنا چاہئے۔اس حوالے سے دنیا کے تمام اسلامی ملکوں کے حکمرانوں اور سربراہوں پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ہمیں اس موقع پر فلسطین ،کشمیر،عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے جن جن ملکوں میں مسلمان دہشت گردی کے انسداد کے لئے شروع کی جانے والی جنگ کے نام پر بدترین مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں انہیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ عام مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو پوری طرح محسوس کریں اور ان کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائیں۔ اسی طرح مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات اور آزادی دلانے کیلئے یک آواز ہوں اور مل کر قدم اٹھائیں اور اسلام دشمن طاقتوں سے مرعوب ہونے کے بجائے حق گوئی اور حق کوشی کا وہی راستہ اختیار کریں جو نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم نے اختیار کیا تھا تاکہ وہ دنیا میں ملت اسلامیہ کے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔ مسلمانوں کے لئے عیدالاضحی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو خواہشوں کی بندگی سے نکال کر اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بنانے کا عہد کریں۔ حضور اکرم کی بعثت کے طفیل امت مسلمہ بتوں کو پوجنے کی گمراہی سے تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات پا چکی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم بحیثیت مسلمان اگر آج دنیا میں کمزور اور پچھڑے ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نفس کی خواہشوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اسی جانب توجہ دلائی ہے کہ
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
اسی طرح عیدکی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں نمود و نمائش کے مظاہروں سے گریز کرنا چاہئے اور محروم اور مستحق مسلمان بھائیوں کی امداد و اعانت کو اپنا شعار بنانا چاہئے ۔ہمیں یاد کھنا چاہئے کہ بے جانمود و نمائش کا جذبہ قربانی کے حقیقی اجر کو ضائع کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں۔ اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر توجہ دینی چاہئے۔ آج مہنگائی کے دور میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو گوشت خریدنے اور کھانے کی بالکل استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر ہم قربانی کے جذبے اور روح کو سمجھ کر اسے اپنی زندگیوں میں برقرار رکھنا سیکھ لیں تو مسلمان ملکوں، معاشروں اور خاص طور پر پاکستان کے بہت سے مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ مسلمان عیدالاضحی مناتے ہوئے اسلام کے اس تہوار کی اصل روح کو اپنی عملی زندگیوں میں سمو لیں اور زندگی کی ہر آزمائش میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ہماری دنیوی اور اخروی نجات کا واحد راستہ یہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باطل کے خلاف عقیدہ توحید پر مبنی عزیمت اور استقلال کا جو نمونہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلواة و السلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا اس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ اب امت محمدی اور ملت ابراہیمی کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم الشان اسوہ کو زندہ رکھنے کا اہتمام کریں۔ عید الاضحی ٰ کا حقیقی فلسفہ اور پیغام یہی ہے۔
پاکستانی حجاج کو شدید مشکلات کا سامنا
ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستانی عازمین حج کو جن سنگین مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ ہزاروں حجاج کرام نہ صرف خیموں سے محروم رہ گئے بلکہ ایک ایک خیمے میں گنجائش سے کہیں زیادہ عازمین کو رہائش اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جن عازمین کو خیمے فراہم نہیں کئے گئے وہ سڑکوں، شاہراہوں، فٹ پاتھوں اور پلوں کے نیچے پڑے ہیں۔ رہائشی خیموں میں عورتوں اور مردوں کو ایک ساتھ ٹھہرا کر اسلامی ضابطہ حیات کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ شکایت چند دن پہلے ہی منظر عام پر آ گئی تھی کہ ایجنٹوں نے عازمین حج سے کرایہ وصول کرنے کے باوجود انہیں خیمے فراہم نہیں کئے بلکہ ان کے خیمے اپنے چہیتوں کو فراہم کر دیئے ہیں۔ ابھی اس مقدس مذہبی فریضہ کا آغاز ہے اس کے بعد بھی کئی روز تک عازمین کو مکہ معظمہ اور پھر مدینہ منورہ میں قیام کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا یہ کہنا حکومت کی نااہلی پر دلالت کرتا ہے کہ عازمین حج کو خیمے فراہم نہ کرنا کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ حکومت کی ناکامی پر بھی ایک مہر تصدیق کے مترادف ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عازمین حج کو دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح کرایوں میں کمی اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے پاکستانی عازمین حج کے اخراجات میں ہر سال اضافہ کرنے کے باوجود ان کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیوں کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داری محض ٹریولنگ ایجنٹوں پر ڈالنا کافی نہیں بلکہ یہ بنیادی طو رپر حکومت کی ذمہ داری ہے جسے ادا کرنے میں وہ ناکام رہی ہے اور ہر سال پاکستانی حجاج اسی نوع کی سنگین مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ حاجیوں کی پریشانی اور مشکلات پر مشتمل خبریں سننے کے بعد وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ بھی منیٰ پہنچ گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستانی حجاج کی مشکلات کا کس حد تک ازالہ کرتے ہیں اور ذمہ داروں کو کب قانون کے کٹہرے میں لا کر انہیں نشان عبرت بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کے مرتکب افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔