اعلان کے مطابق امریکی حکومت اور نیٹو کی افواج، 2014ء میں افغانستان سے نکل آئیں گی جس کا دارومدار اور انحصار قیام امن کیلئے ہونے والے مذاکرات کی پیشرفت پر ہوگا تاہم اب تک کوئی سنجیدہ قدم ایسا نہیں اٹھایا گیا جو افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ 2 نومبر2011ء کو استنبول میں ہونے والی کانفرنس اپنے کلیدی مسائل کی جانب سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش ہے کہ علاقائی ممالک افغانستان میں استحکام کے قیام میں کس حد تک ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کانفرنس کے دو اسپانسر یعنی ترکی اور افغانستان، امریکہ کی پشت پناہی کی مدد سے جن راستوں پر چلنا چاہتے ہیں اس پر کاربند رہیں تو یہ سربراہی کانفرنس اس خطے کے بارے میں تمام مسائل پر غور کرتے ہوئے افغانستان کے موضوع پر بھی لازمی گفت و شنید کرے۔بہرحال یہ کانفرنس اس ترتیب کے بالکل برعکس منعقد کی گئی ہے جو افغانستان میں امن اور سلامتی کے قیام کیلئے بے حد ضروری ہے۔ باغیوں اور شورش پسندوں کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت کو علاقائی ممالک کی حمایت اور تعاون سے لازمی طور پر مشروط ہونا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس استنبول کانفرنس میں افغانستان سے بھی آگے بڑھ کر زیادہ وسیع خطے کی حمایت و تعاون کا حصول ایک اہم موضوع رہا۔ چنانچہ استنبول کانفرنس کے دوران چودہ ان ممالک کی بھی حمایت اور تعاون حاصل کیا گیا جنہیں ”ایشیاء کے قلب“ کا نام دیا گیا ہے۔ افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک سے قطع نظر ان ممالک میں بھارت، روس، چین، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اور وسط ایشیاء کی جمہوریتیں شامل ہوں گی۔
پہلی تین کانفرنسیں، استنبول میں منعقد ہوں گی جن کا مقصد بین الاقوامی تائید و حمایت اور تعاون کا ایسا فریم ورک متعارف کرانا ہے جو 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے دوران اور اس کے بعد افغانستان میں استحکام کے قیام کی ضمانت دے سکے۔ استنبول کانفرنس اس سلسلے میں پہل کرے گی کہ ایشیاء کے قلب میں علاقائی سلامتی اور تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ افغانستان میں ایک محفوظ اور مستحکم ماحول جنم لے سکے۔ بقیہ دو کانفرنسیں بالترتیب بون اور شکاگو میں دسمبر2011ء اور مئی2012ء میں منعقد ہوں گی۔ بہرصورت اگر استنبول کانفرنس صرف اور فقط علاقائی ممالک کی جانب سے حاصل کردہ تائید و حمایت اور تعاون پر انحصار کرتے ہوئے2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلاء اور افغانستان میں مفاہمتی عمل پر نظر رکھتی اور وسیع تر اصولوں پر عمل درآمد کرتی جو تعاون کیلئے ضروری ہیں جن میں باہمی طور پر عدم مداخلت کے بارے میں باہمی معاہدے بھی شامل ہیں تو ایک مضبوط علاقائی اتفاق رائے کو پیدا کرنا آسان ہوجاتا اور اس کے بڑے کامیاب نتائج برآمد ہوتے۔ لیکن اس کانفرنس کی پشت پناہی کرنے والے اور اس کے اسپانسرز کے مطالبات اور توقعات کچھ زیادہ ہی تھیں۔ وہ ایک نیا سلامتی کا ڈھانچہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جس میں مکمل انسٹی ٹیوشنل میکانزم اور رابطہ گروپ موجود ہو جو اعتماد کی بحالی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بناسکے۔ ان تمام باتوں کا ذکر اس مسودے میں موجود ہے جو اس کانفرنس کے حوالے سے تیار کیا گیا ہے۔ اس صورت حال نے اتفاق رائے کے بجائے تنازع اور تصادم کو جنم دیا ہے۔اس کانفرنس سے قبل جو دو ابتدائی اجلاس اوسلو اور کابل میں بالترتیب30 ستمبر اور 22/اکتوبر کو ہوئے ان میں اس موضوع پر اختلاف رائے موجود تھا کہ اس علاقے میں سلامتی کا ایک علاقائی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔ روس، پاکستان، چین اور ایران نے دیگر ممالک کے علاوہ سلامتی کے ڈھانچے یا ایک نئی علاقائی تنظیم کے قیام پر سخت اعتراضات کئے جیسا کہ کابل کے اجلاس میں مندوبین نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی دیگر تنظیم کے قیام کا مقصد محض یہ ہوگا کہ دس دیگر تنظیموں کے کام کی نقل کی جائے۔ دیگر مندوبین نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ کئی میکانزم یا فورمز موجود ہیں جنہیں مضبوط کرنے کے بعد استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دریں اثناء روس نے بھی اپنے مسودے کا متن پیش کرتے ہوئے علاقائی تعاون کے اصولوں پر زور دیا جس میں متعدد سیاسی، اقتصادی اور دیگر اقدامات شامل تھے جو اعتماد کی تعمیر اور تعاون کو فروغ دینے کیلئے بے حد ضروری ہیں۔ وسط ایشیاء کی تمام تر جمہوریتوں نے روسی مسودے کی حمایت کی اور اس طرح پاکستان کے موٴقف سے قریب تر آگئے۔ چنانچہ کابل اجلاس کے موقع پر کسی معاہدے کا نہ ہونا اس بات کا عندیہ ہے کہ ان متنازع امور کو جو کانفرنس میں شریک ممالک کے مابین موجود ہیں متعلقہ ممالک کو واپس بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ ان پر مزید غور و خوض کرسکیں۔ اس کے بعد سے پس منظر میں واشنگٹن کے ساتھ مشورے جاری ہیں جو ان اختلافات کو مفاہمت کے ذریعے طے کرنے کی غرض سے کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔
حالانکہ اسلام آباد نے کھلم کھلا اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا لیکن اس کے یہ تحفظات اس کے سفارت کاروں نے بڑے اور زور شور کے ساتھ اوسلو اور کابل میں ہونے والے اجلاسوں کے دوران پیش کردیئے ہیں چنانچہ اب وہ صرف نظرثانی شدہ ترکش افغان مسودے کی ان شقوں کے بارے ہی میں، اعتمادی اظہار کررہے ہیں جن کا تعلق علاقائی سلامتی کے طریقہ کار سے ہے۔ جہاں تک ان شقوں کا تعلق ہے جن کا مقصد علاقائی تعاون کے ڈھانچے کی سطح سے ہے تو اسلام آباد اور دیگر معترض ممالک کے نزدیک یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد برائے نام ہی علاقائی سلامتی کے نظام سے ہے۔ اگر یہ شقیں منسوخ نہ کی گئیں یا ان میں ضروری ترمیم نہ کی گئی تاکہ ماسکو، اسلام آباد اور بیجنگ اور دیگر ممالک کے نقطہ نظر کو قبول کرلیا جائے تو ایسی صورت میں بون اور شکاگو میں ہونے والی کانفرنسوں کے دوران انہیں ٹھوس شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے۔مغربی ممالک کے بعض سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ہیلسنکی کی طرف پر ایک پروسیس شروع کیا جائے جس کے نتیجے میں علاقائی تعاون کو مزید فروغ دیا جاسکے۔ مثال کے طور پر سلامتی سے متعلق ایک کانفرنس کا انعقاد جو افغانستان میں استحکام کیلئے ایک مستقل علاقائی ڈھانچے کی تشکیل کرسکے۔ ہیلسنکی پروسیس درحقیقت اس کثیر مقاصد فورم کی طرف ایک اشارہ ہے جو 1970ء کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا تاکہ مغربی ممالک اور مشرقی یورپ کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے جو آخرکار سرد جنگ کے خاتمے کے بعد… آرگنائزیشن فارسکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ (OSCE) میں تبدیل ہوگئی۔بہرنوع اگر اس خطے پر ہیلسنکی کی مثال کو آزمایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بنیادی اختلافی تناظر… مسائل اور حقائق کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ہیلسنکی طریقہ عمل دراصل ایک ایسا انتظام تھا جو دو حریف بلاکوں کے مابین سرد جنگ کے زمانے میں قائم ہوا تھا۔ اس کا اصل مقصد گزشتہ چار عشروں سے موجود علاقائی اور سرحدی صورت حال کو جوں کا توں قائم رکھنا تھا۔ یہاں اس طریقہ کار دہرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک ایسے ملک میں جو بغاوت اور شورش کے جال میں پھنسا ہوا ہے جسے غیر ملکی افواج کی موجودگی نے جنم لیا ہے وہاں امن اور استحکام کو بحال کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ان دونوں کے مابین گہرا تضاد موجود ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط نظریہ ہوگا کہ استنبول کانفرنس محض ایک دستاویز کے ذریعے برابر اور بدتر ہونے کی کوشش میں ایک منظر کو قریب لاکر دکھانے کی کوشش کرے اور وہ بھی اس خطے کے بڑے علاقائی ممالک کی مرضی و منشاء کے بغیر ہی…!
اب جب کہ یہ کانفرنس سر پر آن کھڑی ہے، مسودے کی دستاویز میں بعض ترامیم ضروری ہیں تاکہ تمام علاقائی ممالک کے نظریات اور مناجات کو جگہ دی جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ استنبول کانفرنس کے موقع پر جو اعلان کیا جارہا ہے وہ اتفاق رائے کا نتیجہ ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ زمینی حقائق کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ افغانستان کو امن اور استحکام سے روشناس کرانے کا کوئی اچھا آغاز نہیں ہوگا۔
چنانچہ استنبول کانفرنس کے موقع پر پیشرفت اور پیش قدمی کی غرض سے بہتر یہی ہوگا کہ ایک متفقہ دستاویز پیش کی جائے جس میں تمام عملی اصول شامل ہوں جو افغانستان میں استحکام کے فروغ کو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق یقینی بنائیں اور معاشی تعاون کیلئے ایک مشترکہ وژن کی حمایت کریں۔ 2002ء کی کابل کانفرنس کے موقع پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کو یقینی بنانے کیلئے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور افغانستان کی علاقائی سالمیت کے احترام کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ استنبول کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ یہ ضرور سمجھ لیں کہ افغانستان میں استحکام کا قیام… بنیادی طور پر ان اقدامات پر ہی منحصر ہوگا جو اس ملک کے اندر کئے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تلاش کو برابر جاری رکھنا ہوگا جو کسی سیاسی سمجھوتے کیلئے ضروری ہے اور اس تنازع کو ختم کرنا ہوگا جو افغانستان کیلئے اور اس کے عوام کیلئے سوائے درد و غم کے اور کچھ بھی نہیں لایا۔