• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

القاعدہ کے سعودی رکن ابراہیم الربائش نے انٹرنیٹ پر پیش ایک آڈیو پیغام میں ایک عرب حکمراں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے برادرعرب ملک میں مخلوط تعلیم کی پہلی یونیورسٹی قائم کرکے اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ نئی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، قانون شریعت کے مغائر ہے الربائش نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر کوئی خاتون (مسلم) عیسائی یا یہودی مرد کے ساتھ پڑھتی ہے تو دوسرے لوگ کیا خیال کریں گے؟ اگر کوئی ’’کافر‘‘ اس تعلیمی کورس کی نگرانی کرتا ہے تو لوگ کیا سمجھیں گے، الربائش ماضی میں گوانتانامو میں قید رہا ہے۔سعودی عرب واپس بھیجے جانے کے بعد وہ یمن فرار ہوگیا وہاں سے سعودی عرب کے شاہی خاندان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الربائش کا کہناہے کہ حکمران ملک کو سیکولر ازم کی طرف لے جارہے ہیں۔ سعودی عرب نے جدہ کے شمال میں بحیرہ احمر کے ساحل پر شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی قائم کی ہے، یہ یونیورسٹی ملک کی پہلی درس گاہ ہوگی جس میں منفرد نوعیت کے تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ مخلوط نظام تعلیم کی نہ صرف اجازت ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں خواتین کو بھی ڈرائیونگ کی اجازت ہوگی۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر پر دس ارب ریال لاگت آئی ہے جو تین کروڑ ساٹھ لاکھ میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ حال ہی میں ثقافتی ترقی سے متعلق عرب دنیا کی پہلی رپورٹ منظرعام پر آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا میں 12ہزار شہریوں کیلئے صرف ایک کتاب ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سےجاری ہونے والی اس رپورٹ کی تیاری میں عرب ممالک کے 40سے زائد محققین نے حصہ لیا ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں عرب دنیا میں فی باشندہ کتاب کا تناسب بارہ ہزار افراد کیلئے ایک کتاب ہے وہاں سعودی عرب میں تمباکو نوشی کرنے والے ہر سال 5ارب ریال تمباکو نوشی پر خرچ کرتے ہیں۔ سعودی شہری ہر سال پانچ ارب کا 40ہزارٹن تمباکو پی جاتے ہیںجبکہ یہ رقم سعودی عرب کی طرف سے چاول درآمد کرنے کی رقم کے برابر ہے، دوسری طرف عرب ممالک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ عرب یونیورسٹیوں کے لگ بھگ 70ہزار گریجویٹ سالانہ روزگار کیلئے بیرون ممالک منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے 54فیصد طلبا تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی وطن واپس نہیں آتے جس سے عرب ممالک کو بھاری نقصان ہوتا ہے۔ عرب ممالک تعلیم و تربیت کیلئے بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں، انہیں بیرون ملک چلے جانے والے گریجویٹس سے 2ملین ڈالر کا نفصان ہوتا ہے اور ساتھ ہی بیرون ممالک چلے جانے کے نتیجے میں عرب ممالک تعلیم یافتہ افراد سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ تعلیم یافتہ گریجویٹس میزبان ممالک کے کام آتے ہیں ۔ میزبان ممالک تعلیم پر کوئی رقم خرچ کئے بغیر ہی ان تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ 22رکن عرب لیگ نے اس سلسلے میں ایک سروے کرایا ہے جس سے معلوم ہوا ہےکہ شام ، عراق ، اردن ، مصر ، تیونس اور البحیریا کے دس لاکھ ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنس دان سالانہ دوسرے ممالک میں نقل مکانی کرجاتے ہیں۔ سائنسی امورکی تعلیم حاصل کرنے والے 70فیصد ماہر واپس وطن نہیں آتے، اس طرح 50فیصد ڈاکٹرز، 15فیصد انجینئرز امریکہ کینیڈا اور یورپ میں رہائش اختیار کرلیتےہیں۔
سعودی عرب میں جہاں اب مخلوط تعلیم کا آغاز کیا گیا ہے وہاں ایک خبر کے مطابق سعودی عرب میں واقع خواتین کے واحد جم کو بھی بند کردیا گیا تھا۔ سعودی حکومت نے صرف مردوں کو جم جانے کی اجازت دی تھی۔ سعودی عرب میں مذہبی علما نے خواتین کے اسپورٹس میں حصہ لینے کو ’’شرمناک‘‘ قرادیا تھا۔ سعودی عرب کےاخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے بتایا ہے کہ صرف مردوں کیلئے جم اور اسپورٹس کلب قائم کرنے کی اجازت دی جارہی جبکہ خواتین سے کہا گیا ہےکہ انہیں اپنے گھروں سے باہر جاکر جم کی ضرورت نہیں۔ جدہ اور دمام میں خواتین کے دو جم تھے جو خواتین میں کافی مقبول تھے، تنقید و تبصرہ اور قانون سے بچنے کیلئے ان کا نام ’’بیوٹی سیلون‘‘ رکھا گیا جس پر مفتی اعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین کو صرف گھریلو کام کاج میں مصروف رہنا چاہئے انہیں کھیل کود میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں، انہوں نے کہا کہ اسپورٹس میں حصہ لینے سے خواتین سماج میں کوئی خدمات انجام نہیں دےسکتیں۔
مخلوط یونیورسٹی کے قیام سے سعودی حکومت کو مخالفت اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چند روز قبل سعودی عالم دین شیخ سعد بن ناصربن عبدالعزیز الشتری جو کونسل آف سینئر اسلامک اسکالرزاور مستقل کمیٹی برائے اسلامی ریسرچ کے رکن بھی ہیں، کو ان کے فرائض منصبی سے سبکدوش کردیا گیا ہے وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شیخ سعد نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مخلوط تعلیم پر اعتراض کرتے ہوئے ایک متنازع بیان دیا تھا۔ شیخ سعد کے بیان پر مختلف گوشوں سے تنقید کی گئی۔ سعودی عرب کے کئی صاحبان قلم ، دانشوروں اور علماء نے شیخ سعد کے نقطہ نظر کو غلطی سے تعبیر کیا ہے اور ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ اس مخلوط تعلیم کو غیراخلاقی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بجائے مذہب کو عالمگیر بنانے کے عقل و خرد اور تعلیم کو عالم گیر بنانا چاہئے۔؎
درکا رخ بدلا گیا دیوار سرکائی گئی!
یہ ضرورت تھی کہ تبدیلی کسی ڈر سے ہوئی.

تازہ ترین