• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب بڑی دعائیں بھی قبول ہونگی...تحریر: ذوالفقار احمد چیمہ

اس بارعید الفطر پر قدرت کی طرف سے متمول طبقے کے ساتھ اچھا خاصاہاتھ ہوگیا، شدید گرمی میں روزے کے ساتھ سارا دن مزدوری کرنے کے بعدسہ پہر کے وقت صادق نہانے کے لیے نلکے کے نیچے بیٹھاتواس کے منہ سے دعا نکلی" یا ربّاٹھنڈیاں ہواواں گھل کے ٹھنڈ پادے "، اور بھی کئی صادقوں نے ایسی دعائیں مانگی ہونگی بزرگ کہتے ہیں رزقِ حلال کما کر کھانے والے کی دعا رد نہیں ہوتی۔ سمندروں،پانیوں اور موسموں پر اختیار رکھنے والے مالک ِ کائنات نے اپنے کمزور اور بے وسائل بندو ں کی التجائیں سنتے ہی متعلقہ فرشتوں کو ہدایات دے دیں بادلوں اور ہواؤں کے لیے حکمنامے جاری ہوگئے اورپھر کروڑوں پاکستانیوں نے دیکھا کہ عید سے ایک دن پہلے ہی فضاء میں سیاہ بادلوں کی چادر تن گئی جس نے عید کے ایام کو انتہائی خوشگوار اور دلفریب بنا دیا۔
عید کا دن اپنے جوانوں کے ساتھ گذارنے کے بعد دوسرے روز میں وزیر آباد کے قریب اپنے گاؤں کٹھور پہنچا تو موسم کا حسن اپنے جوبن پرتھا معمول کے مطابق گھر جانے سے پہلے والدین کی آخری آرام گاہوں پر جا کر دعاکی (ہم تینوں بھائی آج جو بھی ہیں انہی کی تربیّت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے)، واپس مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اوپرسیاہ چادر ہے اور زمین پر تا حدِ نظر سبز قالین بچھا ہے۔ دھان کی ایک سائز کی گہرے سبز رنگ کی فصل دیکھنے والوں کومسحور کر رہی تھی ۔ پگڈنڈی پر لگے دو رویہ سفیدے کے درختوں نے قالین پر حاشیہ سابنا رکھا تھا مہمان خانے میں سفید اور گلابی رنگ کے پھولوں سے لدی ہوئی بوگن ویلا کی بیلوں نے بوَٹل پام کے درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھاسبزہ زار کے کنارے پر مور کے پروں کی طرح کٹے ہوئے واشنگٹونیا پام کے پتے اور پائن کی لٹکی ہوئی دیدہ زیب شاخیں موسم کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں بے پناہ اضافہ کر رہی تھیں۔ مہمان خانے کا برآمدہ لوگوں سے بھرا ہوا تھاکوئی بھی شخص موسم کے دلفریب حسن کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکا بجلی کا اگرچہ وہی چلن تھا کبھی آتی اورزیادہ جاتی تھی مگرقدرت کا فضل وکرم اسقدر وافرتھا کہ کسی نے بجلی کو یاد تک نہ کیا کچھ نوجوان جو محنت مزدوری کے لئے فرانس رہ کر آئے تھے اپنے گاؤں کو پیرس کے مضافات سے تشبیہ دے رہے تھے مگر مجھے تیرہ سال پرانا واقعہ یاد آنے لگا ۔1999 کی بات ہے پی آئی اے (اس وقت یہ ادارہ جوان، توانا اور منافع آور تھا) کی سیکورٹی ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے ایک انٹر نیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے میرا پہلی بار سوئیٹزرلینڈ جانا ہوا زیورچ ائیر پو رٹ پر پی آئی اے کے مینجر نے مجھے رسیو کیا ائرپورٹ سے نکلے تو میز بان نے پوچھا کہ آپ پہلے لنچ کریں گے یا شہر کا ایک چکر لگالیں۔ میں نے چونکہ بچپن سے سن رکھا تھا کہ دنیامیں اگر جنت دیکھنی ہے توسوئیٹزرلینڈدیکھ لیں لہذا میں نے پہلے شہر کے مضافات کا راؤنڈ لگا نے کی خواہش ظاہر کی۔ راؤنڈ لگاتے ہوئے میں چاروں طرف نظریں دوڑاتا رہا مگر مجھے کہیں "جنت" کی جھلک نظر نہ آئی ہر طرف مکئی کی کٹی ہوئی فصل تھی اور وہ بھی اس طرح کہ مکئی کی چھلیاں توڑ لی گئیں تھیں اور خشک تنے زمین پر کھڑے تھے ”جنت ِارضی “کاپہلا تاثر بڑا مایوس کن تھا کار سے اترتے ہوئے جب میز بان نے پوچھا کہ کیسا لگا ہے؟ تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا "کدی آتینوں اپنا پنڈ وکھاواں"پوچھنے لگا کہ آپ نے کیا کہا ہے تو میں نے تکلفاًکہہ دیا ’بہت اچھا ہے مگر کبھی موقع ملا تو آپ کو اپنا گاؤں دکھائیں گے۔ وہ بھی کم خوبصورت نہیں ہے۔
اس بار قادرِ مطلق نے ہم پاکستانیوں کو اپنے خصوصی فضل و کر م سے نوازا اور کچھ پر خلوص اور نیک نیّت روزے داروں کی دعاؤں نے فضاؤں کو گھٹاؤں او ر ہواؤں سے بھر دیاجس کے بعد محمود ایاز کی عید ایک جیسی ہو گئی ہر شخص نے عید کے جشن میں بھرپور حصہ لیا اور سب اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوئے بلکہ جس موسم کے مزے لینے کے لئے امراء لاکھوں روپے خرچ کر کے پہاڑی مقامات پر اور کچھ یورپ چلے گئے اس سے بہتر موسم اور نظارے قدرت نے عام لوگوں کو عید کے تحفے کے طور پر دے دئیے۔دن تو گاؤں کے لوگوں اور مہمانوں کے ساتھ گپ شپ میں گذرگیامگر غروبِ آفتاب کے بعد تشویش ہوئی کہ برقی ہواکے بغیر رات کیسے کٹے گی۔بھائی صاحب کہنے لگے فکر نہ کرو اورمجھے پکڑ کر چھت پر لے گئے وہاں ایک اور ہی نظارہ تھا چارپائیاں بچھی تھیں، ٹھنڈی ، میٹھی اورمعطر ّہوا چل رہی تھی ، آسمان تاروں سے بھراہوا تھا۔ماحول نے ایسا سحر طاری کیا کہ میں مبہوت ہوکررہ گیا وہاں نہ اے سی کی ضرورت تھی اور نہ پنکھے کی ۔میں کئی سالوں بعد اس چھت پر سونے کے لئے آیا تھاچارپائی پر لیٹتے ہی بچپن کی حسین یادوں میں کھو گیاجب گرمیوں میں ہم سب بہن بھائی امّی جان کے اردگرد بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے جب ہم رات کو کھیلتے ہوئے ہمسایوں کی چھتوں پر بھی چلے جایا کرتے تھے جب ابا جان اسلامی تاریخ کے عظیم جرنیلوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔۔۔۔ چند منٹوں میں نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا اتنی گہری اور میٹھی نیند کئی برسوں بعد نصیب ہوئی صبح سورج نکلنے سے پہلے آنکھ کھل گئی مسجد میں نمازکی ادائیگی سے جو سکون اورآسودگی حاصل ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ وہاں سے نکل کر میں گاؤں کے پاس ہی بہنے والی ندی پر سیر کے لئے نکل گیا ہر چیز صاف اجلی اور خالص تھی ہوا ، فضا، پانی اور لوگ۔ صبح خالص مکھن سے تیار کردہ پراٹھوں،خالص دہی ، خالص انڈوں اورخالص لسّی کا رج کے ناشتہ کیا جس نے یورپ کے بڑے بڑے ہوٹلوں کے بد مزہ کھانوں کی تلخ یادیں بھلادیں ۔عید بھی کیا چیز ہے کہ جس کا اعلان ہوتے ہی بڑے بڑے شہروں میں آرام دہ گھروں کوچھوڑ کرلوگ اپنے آبائی گاؤں کے کچے مکانوں میں آنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ ایک ایسا زبردست تہوار ہے جس میں ہر گھر اور ہر فرد شریک ہوتا ہے میں نے خود دیکھا کہ غریبوں کے بچوں نے بھی سستے سہی مگر نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ بھی دکانوں سے کھلونے خرید رہے تھے وہ بھی خوش تھے شائدامراء کے بچوں سے زیادہ۔ اس روز گلیاں بازار اور پارک ہنستے کھیلتے بچوں اور بڑوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جشنِ عیدکے کتنے ہی پہلو ہیں جنہیں Highlight کرنے اور باہر کی دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے انتہائی قابلِ احترام اور صاحبِ طرز کالم نگاراور دانشور نے پچھلے دنوں مسلمانوں کی ہر چیز کو مطعون کرنے والوں کی توجہ ایک حیران کن امر کی جانب دلائی تھی کہ دنیابھر کے اربوں مسلمان نماز کی ادائیگی کے لئے جس طرح وقت کی پابندی کرتے ہیں دنیاکے کسی اور ادارے میں Punctualityکا ایسا مظاہر ہ دیکھنے کو نہیں ملتا مسلمانوں کے تہواروں یعنی جشن ِرمضان اور جشنِ عید پر جسFestivity گہما گہمی، خلوص،محبت ،اجتماعیت ، شان اورجمال کے جو مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بھی کہیں اورنظر نہیں آتے ۔مہمان خانے میں بیٹھے ہوئے مختلف دیہاتوں کے کئی دانش مند بزرگ بیٹھے تھے بات چلی تو وہ کہنے لگے کہ عید کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلوں نے چاند کے جھگڑے اور اختلافات ہی کو موضوع بنا لیا ہے اس دن کی خوبصورتیاں کیوں نہیں دکھائی جاتیں۔ گلیوں اور بازاروں میں کٹی ہوئی لاشیں تو ہرروز دکھاتے ہیں، یہ رونقیں یہ جشن یہ زندگی کے میلے بھی دکھانے چاہئیں۔خواجہ صاحب نے لقمہ دیا، لگتا ہے ٹی وی والوں کو کہیں سے ہدایات ملتی ہیں کہ پاکستان کی ہر بری اور منفی چیز کو ڈھونڈ کر لاؤاور دنیا کو دکھاؤ اگر کسی رپورٹر کا اپنا بھائی یا بیٹا کسی جرم میں پکڑا جائے یا خاندان میں کوئی اغواء کا کیس ہوجائے تو کیا وہ اس خبر کو ہائی لائٹ کریں گے یا چھپائیں گے؟ پاس بیٹھے ایک مقامی صحافی نے جواب دیا بالکل چھپائیں گے، اس پر کئی صاحبان بول پڑے کہ اپنے ایک رپورٹر کے خاندان کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے مگر اپنے ملک کی عزت کا خیال کیوں نہیں رکھاجاتا ۔وہ چیز جس سے ملک کا امیج خراب ہونے کا خدشہ ہواسے اس قدر جوش و جذبے سے اچھالناصرف ہمارا ہی وطیرہ ہے ،کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔خامیاں ،برائیاں اورکوتاہیاں کہاں نہیں ہوتیں مگر گھر کی Dirty leninبھرے بازار میں دھونے کی بجائے یہ پیش ِنظر رکھنا چاہیے کہ ' یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے'۔وہیں بیٹھے ہوئے ایک یا زیادہ عیدوں کے بارے میں بحث چھڑ گئی سب لوگ متفق تھے کہ پورے ملک میں عید ایک ہی دن منانی چاہیے! تواس کا حل کیا ہے؟اس پر بھی سب نے اتفاق کیا کہ مکہ اور مدینہ ہمارے مرکز ہیں ہمارے اور ان کے وقت میں پورے دن کا نہیں ، دو تین گھنٹوں کا فرق ہے لہذا اگر ہمارے پٹھان بھائی سعودی عرب کے ساتھ عیدمناتے ہیں تو اس پر قائم رہیں باقی صوبے اس سے اتفاق کرلیں اورپورا ملک متحدہوکررمضان اورعید سعودی عرب کے ساتھ منایا کرے ۔اللہ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرکے اس بار عیدکوپرامن بھی رکھا اورخوشگواربھی ۔بزرگ متفق ہیں کہ قبولیت کے دروازے کھل رہے ہیں ۔انشاء اللہ اب اہلِ وطن کی بڑی دعائیں بھی جلدقبول ہونگی۔
تازہ ترین