• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت نے حال ہی میں خواتین کو empower کرنے کے نام پر عورتوں کو رعائتی قیمت پر موٹر سائیکل دینے کی اسکیم کا اعلان کیا۔ گزشتہ ہفتہ ایک ٹی وی اینکر نے اپنے شو کے دوران (ن) لیگ کی ایک خاتون رہنما سے اس اسکیم کے حوالہ سے پوچھا کہ کیا خواتین کا موٹر سائیکل چلانا ہماری ثقافت سے ہم آہنگ ہے ؟ اینکر نے ن لیگی خاتون رہنما سے یہ بھی سوال کیا کہ اگر معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو کیا وہ خاتون رہنما مریم نواز صاحبہ کے ساتھ موٹر سائیکل چلائیں گی۔ اس سوال پر ن لیگی خاتون رہنما جذباتی ہو گئیں اور طیش میںبہت کچھ بول گئیں۔کہنے لگیں ہاں ہم ضرور موٹر سائیکل چلائیں گی۔ چڑ کر کہنے لگیں کہ عورتوں کو آپ لوگ ڈبے میں بند کر کے رکھنا چاہتے ہیںاور پھر چھوٹی عمر میں شادیوں کے معاملہ کو بھی اُٹھالیا۔ ن لیگی خاتون رہنما اپنے خیالات سے روشن خیال ظاہر ہو رہی تھیں لیکن اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ کب وہ موٹر سائیکل چلانا شروع کرتی ہیں اور کب مریم نواز صاحبہ کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کر کے لاہور یا پاکستان کے دوسرے شہروں میں گھومتی ہیں۔ میرا اس اسکیم کے بارے میں کیا خیال ہے، اُس کے بارے میں بات کیے بغیر میں سمجھتا ہوں کہ اگر women empowerment کے نام پر اس اسکیم کو پنجاب یا پاکستان میں کامیاب بنانا ہے تو پھر اصولاً ن لیگی قیادت کو اپنے گھر کی خواتین کو موٹر سائیکل خرید کر دینے چاہیے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ باہر خود موٹر سائیکل چلا کرجائیں گھومیں پھریں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنی تصویر کے ساتھ اس اسکیم کے اشتہارات اخباروں میں شائع کروائے اور اس پر بڑے فخر کا اظہار بھی کیا۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی گھر کی خواتین کو بھی وہ آزادی اور empowerment کا حق ملے گا جس کا اطلاق صوبے کی خواتین اور بیٹیوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بلکہ ن لیگ کو تو چاہیے کہ اس اسکیم کی کامیابی کے لیے اپنی خواتین ممبران اسمبلی کو بھی ایک ایک موٹر سائیکل لے کر دیں۔ جب رہنمائوں کی بیویاں، بیٹیاں، بہنیں اور بہوئیں موٹر سائیکل لے کر باہر نکلیں گی تو اُن کی تقلید میں دوسری عورتوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے عمومی طور پر اپنے لیے اصول اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہیں۔ وہ آزادی جو وہ دوسروں کی عورتوں کو دینا چاہتے ہیں اُسے اپنی خواتین کے لیے پسند نہیں کرتے۔ عورت کی ترقی کے نام پر عموماً ہمارے ہاں جو ہوتا ہے وہ محض سیاست ہوتی ہے جس کا مقصد اپنے آپ کو لبرل اور روشن خیال ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر عورتوں اور اُن کے حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر خواتین کو وراثت میں حصہ کیوں نہیں دیتے۔ اگر عورت کے احترام اور اُس کی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی لاکھوں خواتین کو وہ ماحول کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا جہاںاُن کا کوئی مرد کسی قسم کا استحصال نہ کر سکے۔ اگر عورت کے لیے کچھ کرنا ہی ہے تو معاشرہ کی تربیت ایسی کیوں نہیں کی جا رہی کہ گھر سے نکلنے والی عورت اپنے آپ کو غیروں کی بُری نظر اور اُن کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے۔ خواتین سے اتنی ہمدردی ہے تو جہیز کو قانوناً جرم تصور کیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو قید یا جرمانہ کی سزائیں دی جائیں۔ اگر عورت سے اتنی ہمدردی ہے تو یہ یقینی بنایا جائے کہ ہر عورت کو شادی پر اُس کا مہر ادا کیا جائے نہ کہ اس کو محض ایک رواج کے طور پر خانہ پوری کے لیے رکھا جائے۔ اگر خواتین سے ہمدردی ہے اور اس معاشرہ کو واقعی سنوارنا چاہتے ہیں تو شرم و حیا کی تعلیم اور تربیت دی جائے تاکہ کوئی فرد یا ادارہ عورت کو اپنا پیسہ کمانے اور کاروبار بڑھانے کے لیے شو پیس کے طور پر استعمال نہ کرے۔ ایسا کرنے والے سزا کے مستحق ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ جو کوئی اپنے مال اور کاروبار کے لیے عورت کا استحصال کرے اُس کا کاروبار ہی بند کر دینا چاہیے۔میں کتنے والدین کو جانتا ہوں جو مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اپنی بچیوں کو ایک حد سے آگے ایسے اداروں میں پڑھنے نہیں دیتے۔ اگر عورتوں کو واقعی empower کرنا ہے تو پھر اُن کے لیے الگ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ عورت کے حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر گھر کے اندر عورت کو بدسلوکی سے بچانے کے لیے معاشرہ کی تربیت کے لیے حکومت نے کون سا پروگرام دیا۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہماری حکومتیں مغرب کی تقلید میں عورت کی empowerment کے نام پر اُن کی مزید استحصالی کا سبب تو نہیں بن رہے؟

تازہ ترین