• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگلے روز کینسر (سرطان) میں مبتلا ایک مریض کا فون آیا۔ اس نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے جگر کا سرطان ہے، ادویات کے ذریعے علاج کرتے کرتے میں برباد ہوگیا ہوں اب سوائے جگر کی پیوندکاری کے کوئی چارہ نہیں اور بچے بھی چھوٹے ہیں۔ اس قسم کے سچے واقعات آپ کو ہر سرکاری اسپتال اور خصوصاً کینسر کی علاج گاہوں میں روزانہ سننے کو ملیں گے جس طرح کینسر کا مریض موت کی وادی میں آہستہ آہستہ بے بسی کے عالم میں اترنا ہے۔ اس کا اندازہ اس مریض کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ۔ دردمند دل رکھنے والے ڈاکٹرز ضرور ایسے مریضوں کو دیکھ کر دل میں تڑپتے ہیں مگر وہ بھی بے بس ہوتے ہیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق روزانہ دو سو سے زائد کینسر کے مریض مر جاتے ہیں اور ہر سال تین لاکھ 40 ہزار نئے مریض کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں جس میں صرف پچاس ہزار صحت یاب ہوتے ہیں باقی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ایک طرف سرطان سے مریض مر رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت نے لاہور میں 200 بستروں کا کینسر اسپتال بنانے کا منصوبہ ختم کر دیا ہے اور اسے رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی شامل نہیں کیا گیا حالانکہ کینسر کا مرض گردوں، جگراور دل کے امراض کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے بلکہ آج پاکستان میں اموات کی دوسری بڑی وجہ کینسر ہے۔ اگر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کینسر کے مرض پر قابو پانے اور شعور دلانے میں کام نہ کیا تو یقین کریں صرف چند برسوں میں پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی اور پہلی وجہ کینسر ہوگا۔
حکومت اگر پی کے ایل آئی پر 20ارب روپے خرچ کرنے کی بجائے تمام ٹیچنگ اسپتالوں کے شعبہ امراض گردہ، جگر کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ کینسر کا ایک بڑا اسپتال بنا دیتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اس وقت پنجاب کے صرف 5سرکاری اسپتالوں میں صرف 208 بستر کینسر کے مریضوں کے لئے مخصوص ہیں۔ ماہرین کے نزدیک پنجاب میں پندرہ کے قریب اور پورے ملک میں 50 کے قریب کینسر کے اسپتالوں کی اشد ضرورت ہے۔ صرف پنجاب میں تین سو سے زائد کینسر کے ماہرین کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت صرف چند ماہرین موجود ہیں۔
عزیز قارئین! یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے انتہائی تربیت یافتہ نرسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پنجاب میں تین سو ماہرین کی ضرورت ہے تو پھر پورے ملک میں کتنے ماہرین کی ضرورت ہوگی، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صرف پنجاب میں 36سو تربیت یافتہ نرسوں اور 5ہزار بستروں کی ضرورت ہے۔پورے ملک میں اس وقت کینسر کے مریض شدید اذیت کا شکار ہیں۔ ٹیسٹ انتہائی مہنگے، ادویات اس سے بھی زیادہ مہنگی ہیں۔ یہ تو بھلا ہو نواٹس فارما کا جنہوں نے پنجاب حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر کے کینسر کے مریض کو سو فیصد مفت ادویات کی فراہمی کے لئے سرکاری اسپتالوں میں آئوٹ ڈور قائم کئے ہیں لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اسپتال کینسر کے مریضوں کا صرف بیس فیصد بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ 80 فیصد کینسر کے مریضوں کا بوجھ اٹامک انرجی کمیشن کے 18 کینسر کی علاج گاہیں اٹھا رہی ہیں۔ اب حال ہی میں گلگت میں 19ویں کینسر کی علاج گاہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے کام شروع کر دیا ہے۔سوچیں ستر برس تک گلگت میں کینسر کی کوئی علاج گاہ نہیں تھی۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ اٹامک انرجی کمیشن کی کینسر کی علاج گاہیں جدید ترین مشینوں سے مزین ہیں اور بہترین علاج کی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔
لاہور میں انمول میں روزانہ ایک ہزار کینسر کے مریض آئوٹ ڈور میں آتے ہیں اور ان میں سیریس مریضوں کو داخل کر لیا جاتا ہے۔ انمول اپنے محدود وسائل کے باوجود ڈاکٹر ابوبکر شاہد ڈائریکٹر کی نگرانی میں کینسر کے ان مریضوں کو تمام سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ جنہیں لاہور کے تمام سرکاری اسپتالوں کی علاج گاہیں اور ایک بڑا پرائیویٹ کینسر کا اسپتال (جو دعوے بہت کرتا ہے مگر ا سٹیج 2 اور ا سٹیج3 کے مریضوں کا علاج بھی نہیں کرتا) کینسر کے مریضوں کو بھگا دیتا ہے۔ انمول ا سٹیج کے مریضوں کو داخل کر لیتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں بستروں کی تعداد120سے بڑھا کر کم از کم پانچ سو بستروں کی کردی جائے۔ ہم یہاں پر وزیراعظم پاکستان خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ریڈی ایشن کی مشینوں کی شدید کمی ہے۔ ریڈیوتھراپی کے لئے اس وقت صرف لاہور میں کم از کم تیس کے قریب مشینوں کی ضرورت ہے اور پورے ملک میں 600 ریڈیوتھراپی کی مشینوں کی ضرورت ہے۔ اس وقت پورے ملک میں 25اور لاہور میں صرف 7ریڈیو تھراپی کی مشینیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ریڈی ایشن کے لئے مریضوں کو لمبی لمبی تاریخیں دی جاتی ہیں۔ ریڈی ایشن کی یہ مشین دس کروڑ سے تیس کروڑ روپے کے درمیان ہے۔ لاہور کے بعد کراچی تک میں کوئی ریڈی ایشن کی مشین نہیں۔ اس طرح PET اسکین کی مشینیں بھی پورے ملک میں صرف تین ہیں۔ ایک لاہور اور دو کراچی میں ہیں۔
PET اسکین کا ایک ٹیسٹ تیس ہزار روپے میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور ٹیسٹ ہیں جو کئی ہزاروں کے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں کینسر کےمرض میں غریب اور متوسط طبقے کی اکثریت مبتلا ہو رہی ہے۔چھوٹے میاں صاحب آپ اشرافیہ میں سے ہیں، آپ نے اپنا علاج تو یو کے میں کرا لیا، آ پ کو اس مرض کی تکلیف کا احساس بھی ہے اور آپ درد دل بھی رکھتے ہیں، حکومت کو فوری طور پر کینسر کے مریضوں کے لئے ایک بہت بڑا اسپتال بنانا چاہئے جو کم از کم ایک ہزار بستروں کا ہو۔پورے ملک میں صرف سو کینسر کے ماہرین ہیں جبکہ سینئر سرجن صرف چار/پانچ ہیں۔ ان حالات میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کینسر کے مریضوں کو کن مشکلات اور اذیت کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری فرماتے ہیں کہ لاہور کے وارث آ گئے ہیں کوئی ان سے کہے لاہورکبھی بھی لاوارث نہیں رہا۔ یہ اولیاء کرام کی دھرتی ہے اس پر ہمیشہ سے کرم اور رحم رہا،باقی لاہور کے وارثو! یہ بتائو کہ بھٹوسینٹر سے لے کر اب تک پی پی نے لاہور کی ترقی اور لوگوں کے مسائل کے لئے کیا کیا ہے؟
لاہور کے وارث یہ تو بتا دیں کہ انہوں نے کتنے نئے اسپتال بنائے! کتنے نئے کلینک بنائے؟لاہور کے وارثو! پہلے اپنا لاڑکانہ تو درست کر لو، لاڑکانہ میں جو صحت کے مسائل ہیں ان کو ٹھیک کر لو، کیا تم نے لاڑکانہ کو پیرس بنا دیا، کیا سندھ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟کراچی اور تھر میں صحت کے لاتعداد مسائل ہیں، تھر میں آج بھی روزانہ کئی بچے بھوک اور غذائی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ارے یارو تھر اور سندھ کے پسماندہ علاقوں کے پہلے وارث بنو، پھر لاہور کی بات کرنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس کو بتایا جائے کہ کینسر کی علامات کیا ہیں؟ اور اس سے بچائو کیسے ہے؟ جس ملک میں ماحول کی آلودگی ، سگریٹ نوشی، منشیات کا استعمال، انتہائی ناقص غذا ہو گی وہاں سرطان نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت کو پتہ نہیں کہ میمو گرام کیا ہے؟ اور اسے کس عمر میں کرانا چاہئے۔
عزیز قارئین ہر عورت کو چالیس سال کے بعد سال میں ا یک مرتبہ میمو گرام اور مرد کو پچاس سال کے بعد سال میں ایک مرتبہ پراسٹیٹ کا ٹیسٹ ضرور کرانا چاہئے۔

تازہ ترین