• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1968یعنی 50سال پہلےمیرا جاپان جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔کاروباری سلسلے کے ساتھ سیر وتفریح کا بھی پروگرام تھا ہمارے ایک دوست ٹوکیو میں رہتے تھے ۔اُن کے گھر والوں سے پتہ لیا اور اُن کو فون کرکے معلوم کرلیا کہ وہ جاپان میں ہیں تو پروگرام ترتیب دیا جائے ۔ اُن کے گھر کے قریب ہی ہوٹل بُک کروایا ۔اُن دنوں ٹوکیو ائیر پورٹ HANNEDAشہر سے زیادہ دور نہیں ہوتا تھا ۔اور پاکستانیوںکے لئے 90دن کا ویزہ ائیر پورٹ پر ہی مل جاتا تھا ۔پاکستان سے ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے کراچی سے ڈائریکٹ براستہ بنکاک جاتی تھی ۔اُن دنوں غیر ملکی سفر کے لئے ہر شخص کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے اجازت نامہ (NOC)لینا پڑتا تھا جو 2سال کی پابندی کے ساتھ ملتا تھا ۔اگر آپ غیر ملکی ائیر لائن سے سفر کرینگے تو 2 سال تک آپ کو اجازت نہیں ملتی تھی۔ البتہ اگر پی آئی اے سے سفر کرنا ہو تو اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی مگر زرمبادلہ یعنی فارن کرنسی 500ڈالر 2سال بعد ہی ملتے تھے ۔جاپان کا پہلا سفر تھا تو 500ڈالر بھی مل گئے۔ اُن دنوں ہماری کرنسی بہت مضبوط کرنسیوں میں شمارہوتی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم کسی بھی غیر ملکی اداروں کے مقروض نہیں تھے ایک ڈالر 4روپے 75پیسے میں ملتا تھا ۔25ڈالر میں اچھا ہوٹل مل جاتا تھا ۔لہذا 500ڈالر یعنی صرف 2400روپے کافی تھے ۔ٹکٹ بھی صرف 4ہزار کا آنے جانے کا ہوتا تھا ۔ٹوکیو آرام سے پہنچ گئے دوست لینے آئے ۔بہت بڑا ائیر پورٹ نہیں تھا مگر صاف ستھرا تھا ۔آدھے گھنٹے میں ویزہ اور امیگریشن سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ہوٹل جانے کے لئے سرکاری بسوں کا انتظام ہے ۔تقریباً2ڈالر کے برابر جاپانی کرنسی میں ٹکٹ خریدا اور ہوٹل پہنچ گئے، جو ٹوکیو کے دل میں واقع گنزا (Ginza)کا علاقہ تھا ۔ہوٹل بھی بڑا تھا 3اُس میں بیسمنٹ تھیں ۔جس میں مکمل خریداری کے لئے مال(Mall) تھا۔ٹوکیو میں ٹریفک بہت تھا مگر کسی گاڑی والے کو آگے نکلتے نہیں دیکھا ۔سگنل پر اپنی اپنی لائن میں گاڑیاں ،بسیں ،ٹیکسیاں کھڑی ہوجاتی تھیں۔ کوئی پولیس والا ٹریفک کنٹرو ل کرنے کیلئے نہیں ہوتا تھا۔ ایک ڈالر میں لگ بھگ 300جاپانی کرنسی ین ملتے تھے۔ ٹیکسیاں 100ین فی میل کرایہ وصول کرتی تھیں۔دوست کے گھر گئے تو اُن کی جاپانی بیوی نے بڑی خوش دلی سے استقبال کیا ۔دو کمروں کا بہت صاف ستھرا اپارٹمنٹ تھا ۔
ایک خاص بات جاپانی اپنے جوتے گھر میں داخل ہوتے ہی اتاردیتے ہیں تاکہ گندگی اور مٹی کمروں میں نہ جائے ۔گنزا میں ہفتے اور اتوار ایک علاقے جس میں خریداری کے لئے مال سپر مارکیٹس ،ریسٹورنٹس تھے ۔گاڑیوں کا داخلہ بند تھا گاڑیا ں پارکنگ بلڈنگ یا پھر گلیوں میں پارک کی جاتی تھیں ۔ہر علاقے میں کھلے کھلے باغات تھے ،رات کو لائٹیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں ۔10دن رہے کسی کو جھگڑتے نہ دیکھا ،بہت ملنسار قوم ہے ہر ایک سے جھک کر ملتی ہے ۔اگر آپ ایک دفعہ جھکیں گے تو وہ لازماً 2مرتبہ جھک کر خوش آمدید کہیں گے۔ الغرض وقت گزرتا گیا ہم بھی جاپان آتے جاتے رہے۔ پھر مہنگائی کا سیلاب سب سے زیادہ جاپان میں آیا ۔ ہمارا روپیہ 112کے بدلے ایک ڈالر ہوگیا اور جاپانی 110ین فی ڈالر ہوگیا۔گزشتہ ہفتے ایک نمائش میں 20سال بعد پھر جاپان جانے کا اتفاق ہوا تو ٹیکسی کا کرایہ 100ین فی میل کے بجائے 700ین فی میل ہوگیا تھا۔ آج ہوٹل 25ڈالر سے 300ڈالر فی کمرہ ۔ائیر پورٹ شہر سے باہر ایک گھنٹے کی مسافت پر بنایا گیا ہے۔اس کی تعمیرپر مقامی باشندوں نے بہت مزاحمت کی کہ اُن کی زندگی سے سکون ختم ہوجائے گا، سال بھر تک مظاہرے ہوئے ۔آخر طے پایا کہ رات 12بجے ائیر پورٹ بند ہوجائے گا اور صبح 6بجے کھلے گا ۔اتنا بڑا ائیرپورٹ اگر آپ ایک گھنٹہ اندر گھومیں تب جاکر آپ مکمل طور سے دیکھ سکیں گے ۔گاڑیاں آپ کھلی چھوڑدیں کوئی چوری چکاری کا خطرہ تک نہیں ،کبھی آپ کا سامان کہیں رہ جائے تووہ آپ کو نزدیکی پولیس اسٹیشن میں مل جائے گا ۔اس قوم کی عظمت کا ایک واقعہ آج سے کئی سال پہلے بنکاک میں پیش آیا ۔ہم نے پورے دن کے لئے ٹیکسی لی تھی۔ رات واپسی میں اُترتے ہوئے میری بیٹی کاپرس سیٹ سے نیچے گرگیا ۔ہم ہوٹل آگئے اورٹیکسی والے کو دوسرے دن بھی آنے کا کہا۔کمرے میں پہنچ کر صاحبزادی کو یاد آیا کہ پر س تو ٹیکسی میں رہ گیا ۔نیچے آکر دیکھا تو ٹیکسی والا جاچکا تھا ،پرس میں زیورات، کریڈٹ کارڈ اور ڈالربھی تھے ۔اب ملنے کی کوئی امید بھی نہ تھی نہ ٹیکسی کا نمبر لیا تھا ۔دوسرے دن وہ ٹیکسی والا نہیں آیا تو شک یقین میں بدل گیا ہم سب کی تفریخ کا موڈ ختم گیا ۔دراصل ہم محرم کی چھٹیوں میں گئے تھے۔ تیسرے دن ہمارے پاکستان والے گھر سے فون آیا کہ ہمارا گمشدہ پرس بنکاک میں پاکستانی ایمبسی میں کوئی پہنچا گیا ہے جاکر لے لیں ۔اتفاق سے ہمارا ہوٹل بھی پاکستانی ایمبیسی کے بالکل برابر تھا ہم آتے جاتے اپنے جھنڈے کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ فوراً ایمبیسی پہنچے، استقبالیہ پر بٹھایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد قونصلر صاحب ہاتھ میں پر س لئے آئے تو ہم سب کھِل اُٹھے ،ساما ن جوں کا توں موجود تھا ۔قونصلر صاحب اتفاق سے میرے ہم نام تھے انہوں نے بتایا، ایمبیسی 3دن کے لئے محرم کی وجہ سے بند تھی جب کھلی تو ایک جاپانی باشندہ استقبالیہ پر آکر یہ سامان جمع کراگیا ۔اُ س میں میری بیٹی کا جم خانے کا کارڈ تھا جس میں ہمارا پتہ اور فون نمبر تھا۔ ایمبیسی والوں نے کراچی فو ن کرکے ہمارے گھر والوں کواطلاع دی ۔ سب سے انوکھی بات جو قونصلر صاحب نے بتائی کہ اُس جاپانی نے جب ٹیکسی کرایے پر لی تو اُس نے دیکھا کہ یہ پرس نیچے پڑاہوا ہے ۔اُس نے اُٹھایا اور کھولنے پر ہمارا پاکستانی پتے والا کارڈ ملا تو ہماری ایمبسی لے کر آیا ۔معلوم ہوا کہ ایمبسی 3دن کے لئے بند ہوگئی ہے تو و ہ ہمدرد 3دن اضافی طور پر اپنے ہوٹل میں رکا رہا ،کیونکہ پرس میں قیمتی جیولری ،کریڈٹ کارڈ اورنقد رقم تھی اوروہ چوکیدار کو نہیں دینا چاہتا تھا ۔ایمبسی کھلنے پر 3دن بعد قونصلر کے حوالے کر گیا ۔اُس کاکارڈ بھی تھا ہم نے ہوٹل آکر اُس کو فون ملایا ،شکریہ اداکیا اور پوچھا کہ اُ س کا اضافی خرچہ کتنا ہوا ہے ۔ہم اُ س کو ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُس نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ کی چیز آپ تک پہنچ گئی یہ ہماری ثقافت ہے۔ اس کا ہم کوئی معاوضہ نہیں لیتے ۔اگر آپ جاپان کی ترقی کے پیچھے راز جاننا چاہتے ہیں تو وہاںسب سے پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔7سال سے کم عمر بچے کو اسکول میں داخل نہیں کیا جاتا ،ماں باپ اُس کی تربیت کرتے ہیںکہ کیسے زندگی گزارنی ہے ۔پھر تعلیم کے دوران استاد باقی اخلاقیات کا در س دیتے ہیں۔انہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم دیکھی ہیں ۔دوسری جنگ عظیم میں وہ فتح کے قریب تھے کہ امریکہ نے دو شہروں میں بم برسا کر اُن کی آنکھیں کھول دیں ۔انہوں نے جنگ ہار کر سبق سیکھا اُن کا بھی کوئی وزیراعظم اپنی اسمبلی کی مدت پوری نہیں کرسکا ۔23وزراء اعظم آئے اور چلے گئے، کرپشن میں کئی نکال بھی دیئے گئے، کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں کیوں نکالا ۔آج ٹوکیو کی ٹریفک کا یہ حال ہے کہ اُوپر تلے تین 3ہائی ویز چل رہی ہیں ۔عوام صبح شام تین منزلہ ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں ۔وہاں اگر آپ کے پاس کارپارک کرنے کی جگہ نہ ہو تو آپ گاڑی نہیں خرید سکتے ۔بلڈنگوں کے باہر تین منزلہ ہائیڈڈرا لک پارکنگ ہوتی ہیں اگر آپ کو جانا ہے تو آپ کی کار کو ہائیڈ ڈرالک سے اُتارا اور چڑھایاجاتا ہے ۔ہم بھی دو جنگیں ہار چکے ہیں مگر ہم نے اُس سے کوئی سبق تو کیا حاصل کیا تعلیم سے دور ،تربیت سے ناآشنا ہم قوم سے بچھڑ کر ہجوم میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ہجوم کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔

تازہ ترین