• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Karachis Problems And Thier Solution

پاکستان کے سب سےبڑے شہر کراچی میں امن وامان کی صورتحال پہلے کی نسبت اب کافی بہتر ہوچکی ہے، اس کی بڑی وجہ ’کراچی آپریشن‘ ہے اور اب دنیا اسے محفوظ شہروں میں شمار کرتی ہے۔

کراچی میں ٍتین بڑے مسائل ہیں، جرائم یا دہشتگردی، سیاسی ناانصافی اور معاشی حب ہونے کے باوجود اسے کبھی اس کا لازمی حصہ نہیں دیاگیا۔ اگرہم کراچی میں امن وامان کی فضا کوبرقراررکھنا چاہتے ہیں تو یہ بہت اہم ہے کہ امن وامان کے علاوہ شہر کے بڑے مسائل کو بھی حل کیاجائے اور ہم تاحال اس سے بہت دور ہیں، جس کی وجہ سے 2کروڑ کا یہ شہر بےلگام ہےاور کوئی بھی ’ذمہ داری‘ لینے کیلئے تیار نہیں لیکن ہرکوئی اپنا ’حصہ‘ لینا چاہتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم کراچی کی جانب نسلی تعصب کے بغیردیکھیں یا اسے کسی ایک پارٹی یا گروہ کے شہرکے طور پر دیکھنا بند کریں۔ سیاسی لیڈرشپ یا حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ شہر صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کراچی لاہور یا اسلام آباد جیسا کیوں نہیں بن سکتا؟ کراچی جیسے شہرکا نظام اس طرح سے نہیں چل سکتا جس طرح سے گزشتہ 70 سال سے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ اب یہ تاریخ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد شفٹ کرنا کراچی اور سندھ کے لوگوں کاسب سے بڑا نقصان تھا۔ دیگر شہروں سے لوگوں کی آمد اس بات کی علامت ہے کہ شہر مناسب منصوبہ بندی کے تحت آباد ہے۔ کراچی کی ذمہ داری لینا سب سے بڑی مشکل رہی ہےجس کی وجہ سے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اپنے معاشی حب میں کوئی دلچسپی نہیں لی، اس شہر سے بد ترین حالات میں بھی 70فیصد آمدنی آتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے بطور قوم اس شہر کے ساتھ اچھا نہیں کیا، یہ شہر ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے، اس کے باعث سیاست اور حکومت میں منفی رجحانات پیدا ہوئے۔ آج یہ شہر بےقابو ہوچکا ہےاور اگر ہم نے مسائل حل نہ کیے توجلد ہی یہ حکومت کے قابل بھی نہیں رہےگا۔ لہذا مسئلے کا حل کیا ہے اور حکومتیں کیوں ناکام ہوئیں، اس کےنتیجے میں ایم کیوایم جیسی پارٹیاں بنیں۔ چاہے پارٹی قائم رہے یا ختم ہوجائے لیکن اگریہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس سے مزید افراتفری پھیلےگی جسے قابوکرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

کراچی کےمسئلےکا حل تمام سیاسی اور نسلی مفادات سے بالاتر ہوکر نکالنا ہوگا۔ 2017 کی مردم شماری میں سنجیدہ نوعیت کے شکوک وشبہات پیدا کیےگئےہیں اور حتٰی کہ آزاد مبصرین نے بھی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کی آبادی کی درست تصویر پیش نہ کرنا بھی معاشی حب کی لیے ایک تعصبانہ سوچ ہے۔

مبصرین کامانناہے کہ شہر کی آبادی 2کروڑ سے زائد ہے۔ لہذا، اگر ہم کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔

(1) کراچی کی صحیح آبادی کا تعین کیاجائےاور اس کے مطابق ایک ایسا ’ماسٹر پلان‘ تیار کیاجائے اس کےبغیر آپ شہر کی ترقی کیلئے اسےاس کا صحیح حصہ نہیں دے سکتے۔

(2) کراچی کو میٹروپولیٹن شہر کا درجہ دیاجائے بالکل اسی طرح جس طرح دنیا بھر میں تمام میٹرو پولیس یا بڑے شہروں کو دیا جاتا ہے۔

(3) خواہ براہ راست انتخابات سے یا موجودہ بلدیاتی نظام کے ذریعے، منتخب میئر پورے شہر کا ’فادر‘ ہونا چاہیئے نہ کہ صرف 34فیصد کا۔

(4) تمام سیاسی اور نسلی تعصبات سے بالاتر اور بغیر کسی سیاسی مداخلت کےکراچی کا اپنا پولیس کمشنر اور مقامی پولیس سسٹم ہونا چاہئے۔

(5) نوکریوں اور تعلیم میں میرٹ کےنظام کوفروغ دینا چاہئیے۔

(6) کراچی کو ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایاجائے اور آرٹسل کونسل آف کراچی اور نیپا جیسے اداروں کو بڑھ چڑھ کرکام کرناچاہئیے۔ شہر کوایسی ’فوڈ سٹریٹ‘ کی ضرورت نہیں ہے جو بغیرمنصوبہ بندی کے بنائی جائیں۔

(7) اب وقت ہے کہ کراچی میں کھیل کے میدان اور پارکس کو بحال کیاجائے۔ تقریباً 80 فیصد گرائونڈ اور پارکس کو ’فروخت‘ کردیاگیاہے۔

(8) گزشتہ کئی سال سے سازش کے تحت بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں کا ایک بڑا اسکینڈل بن چکاہے،ان کی تعداد اب تقریباً7ہزار ہے۔

(9) دہشتگردی اور امن وامان کی صورتحال مسئلےکا صرف ایک پہلو ہےاور شہر دہائیوں تک ’رینجرز یا پیرا ملٹری‘ یا نامکمل آپریشن کےذریعے نہیں چل سکتا۔ اس کےلیے پائیدار سیاسی حل اور مسائل حل کرنے کی خواہش ہونی چاہئیے۔ لہذا، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کا کردار اہم ہے۔ لیکن انھیں مسئلے کاحل ’نسلی تعصب‘ سےبالاتر ہوکر تلاش کرنا ہوگی۔

(10) کراچی آپریشن کے بعد کراچی کو تیز رفتار ’کراچی ایکشن پلان‘ کی ضرورت ہے۔

کیا آپ کسی ایسے میٹروپولیٹن شہر کا تصور کرسکتےہیں جس کیلئے40 سال تک کوئی ماسٹرپلان تیار نہ کیاگیا ہو اور جو تیار ہوا اس میں ویژن کی کمی تھی۔ جو شہر کبھی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت چلتا تھا، اس اب تقسیم کردیا گیا اور کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارتی کے اچانک سے پھیلائو کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی۔

بہت زیادہ کرپشن کے باعث کراچی کے بڑے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کو مکمل ہونے میں 10سے 40سال لگتے ہیں مثلاً کراچی ماس ٹرانزٹ، کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے اور اس کے نتیجے میں حل ہی مسئلہ بن جاتاہے۔ کراچی میں بالکل ایسا ہی ہورہاہے اور سوائے ایک یا دو کہ اس کے تمام فلائے اوورز، انڈر پاس سے ایسےانجینئرز کی نالائقی جھلکتی ہے جن میں ویژن کی کمی تھی۔ لیکن وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے گئے۔ بدقسمتی سےہرپارٹی اور گروپ حتی کہ حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی تمام نظریات اور وجود کےساتھ ’ایم کیو ایم کےخاتمے‘ کا انتظارکررہی ہیں۔ ایم کیوایم بچ سکتی ہے یا طبعی یا غیرطبعی موت مرسکتی ہے لیکن اگر مسئلہ اربن سندھ میں برقراررہا تو اس سے مستقبل میں ایم کیوایم کی طرح ایک اور پارٹی جنم لے سکتی ہے۔

 

سن 2013 میں ’کوٹہ سسٹم‘ ختم کرنے میں تقریباً چاردہائیاں لگیں۔ میں ہمیشہ یہ مانتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کوٹہ سسٹم کے پیچھے بری سوچ نہیں تھی، اس سے سندھی مڈل کلاس اور معاشرے کےمحروم طبقےکی ترقی مقصود تھی، لیکن اس کا نفاذ بری طرح کی گیا اور اس سے مہاجر سیاست کی بنیاد پڑی۔ وہ صرف 10سال کے لیے کوٹہ سسٹم کا نفاذ چاہتے تھے لیکن بعد میں آنےوالی حکومتوں نےاسے ’سیاسی مقاصد‘ کیلئے استعمال کیا، اس سےمزید فاصلے پیدا ہوئے اور انھوں نے دیہی سندھ میں تعلیم کی ترقی کیلئے کبھی کوشش نہیں کی۔

کراچی کےمسائل مزید بڑھ گئے کیونکہ کسی حکمران نے ’دیہی اور شہری‘ تقسیم ختم کرنےکی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس حکمرانوں نے مسئلے کو سیاسی رنگ دیا اورسیاسی مقاصد کیلئےمزید تقسیم پیدا کی۔ بدقسمتی سے تاحال یہ سوچ تبدیل نہیں ہوئی اور ہم کراچی کے شہریوں اور مہاجروں میں فرق کرنے کے قابل ہی نہیں ہوئے۔ مکمل کراچی کو ایک خاص ذہنیت سے دیکھنا ہی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ اگر جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف نے مہاجروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں شہر میں سٹیک ہولڈرز بن سکتی تھیں، انھوں نے شہر کی ذمہ داری لینے کی بجائے اس کے ساتھ تعصبانہ سلوک کیا۔

اگر پی پی پی مذکورہ بالا تجاویز پرعمل کرے تو وہ شہر کنٹرول کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام کو فروغ نہ دینا رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے، انھیں معاشی اور انتظامی اختیارات دینےکی بجائےصوبائی حکومتیں نظام کو براہِ راست کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔

کراچی سندھ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ لہذا حکومت کو اس کے ساتھ دنیا کیلئے ایک ’چہرے‘ کے طور پر سلوک کرناچاہیئے۔ سندھ خوش قسمت ہے کہ یہ شہرکمرشل ہے اور ملک کا معاشی مرکز ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ اس سے تعصب جھلکتا ہے اور اس میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ کیوں کراچی میں نسلی، فرقہ ورانہ اور سیاسی تشدد ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔

تازہ ترین