• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن کے ردعمل میں کمی کیلئے چین کا اصلاحات کا وعدہ

واشنگٹن کے ردعمل میں کمی کیلئے چین کا اصلاحات کا وعدہ

واشنگٹن : ژان ڈونین

بیجنگ: ٹام مچل

امریکی زرعی اور کاروباری برادری میں سے کچھ کے درمیان خوف پایا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے چین میں کام کرنے والی کمپنیوں یا زرعی مصنوعات جیسے امریکی سویا بین کی درآمدات جس کی گزشتہ سال 14 بلین ڈالر قیمت تھی،کے خلاف بیجنگ کو انتقامی کارروائی پر مجبور نہ کردیں۔

چین کے صدر شی جنگ پنگ کے اعلیٰ معاشی مشیروں میں سے ایک امریکا کے ساتھ ممکنہ تجارتی جنگ کی پیش بندی کیلئے اقتصادی اصلاحات کو تیز کرنے کے وعدوں کے ساتھ منگل کو واشنگٹن آرہے ہیں ۔

تاہم پولٹ بیورو کے رکن لیو ہی جن کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ وہ آئندہ ماہ اقتصادی معاملات کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے تیار ہیں ،کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سردمہری سے استقبال کا امکان ہے،جو چین پر تجارتی کریک ڈاؤن کی تیاریاں کررہی ہے اور بیجنگ کے ساتھ اقتصادی مذاکرات کی اہمیت کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔

مسٹر لیو نے رواں سال کے آغاز میں ڈیوس میں اقتصادی عالمی فورم کو اسی طرح کی اصلاحات کا پیغام دیا تھا جس میں انہوں نے اصلاحات اور اوپنگ سرپرائز کے ایک سلسلے کا وعدہ کیا جو بین الاقوامی توقعات سے بڑھ کر ہوں گی۔

اقدامات کے ساتھ چینی حکام بینکوں کو آزاد بنانے کے عمل، خدمات اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور غیر ملکی شراکت داری کی حد میں نمایاں آزادی کی خاموشی سے تشہیر کررہے ہیں۔

پیر کو چینی حکام نے تصدیق کی کہ مسٹر لیو تجارتی اور اقتصادی تعلقات پر بات چیت کیلئے امریکا میں ہفتہ تک رہیں گے۔

صورتحال سے آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ مسٹر لیو کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات متوقع تھی اور چیف اقتصادی مشیر گیری کوہن، تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹیزر اور وزیر خزانہ اسٹیون منچن سمیت سینئر امریکی حکام سے ملاقاتیں طے شدہ تھیں۔ مسٹر لیو گول میز تقریب میں امریکا کے اعلیٰ کاروباری افراد کے ایک گروپ سے بھی ملاقات کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں لیکن وہ امریکی تجارتی خسارے کو چین کے ساتھ بہتر تعلقات میں رکاوٹ کے طور پردیکھتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو رپورٹر کو بتایا کہ ہم نے چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم کئے ،حقیقت یہ ہے کہ وہ گزشتہ طویل عرصے سے تجارت کے حوالے سے ہمیں ختم کررہا ہے، تجارت پر وہ امریکا کو بالکل ختم کررہا ہے۔جتنا مجھ سےممکن ہے میں صدر شی جنگ پنگ کا احترام کرتا ہوں،ہمیں تجارتی عدم توازن کو درست کرنا ہوگا۔

ان کی انتظامیہ جس میں طویل عرصہ سے چین کے شکاری جیسے مسٹر لائتھزائر شامل ہیں، کے آئندہ مہینوں میں اقدامات کا سلسلہ متعارف کرانے کی توقع ہے، جس سے کچھ لوگوں کو چین کے ساتھ تجارتی جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے۔ ان میں اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر پیش کردہ ٹیرف شامل ہیں اور چین کے دانشورانہ ملکیت کے طریقوں پر تحقیقات شامل ہیں،جن میں بڑے پیمانے پر ٹیرف اور سرمایہ کاری کے اقدامات کی جانب لے جائیں گے۔

امریکی زرعی اور کاروباری برادری میں سے کچھ کے درمیان خوف پایا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے چین میں کام کرنے والی کمپنیوں یا زرعی مصنوعات جیسے امریکی سویا بین کی درآمدات جس کی گزشتہ سال 14 بلین ڈالر قیمت تھی،کے خلاف بیجنگ کو انتقامی کارروائی پر مجبور نہ کردیں۔

مسٹر لیو کو چین کا سب سے قابل اور اہم اقتصادی سفارتی نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔

آئندہ ہونے والی قیادت کی تبدیلیوں سے واقف دو افراد کے مطابق چین کی پارلیمان کے سالانہ اجلاس میں جو پانچ مارچ کو شروع ہوگا،مالیاتی اور اقتصادی معاملات کیلئے ذمہ داری کے ساتھ مسٹر لیو نائب صدر کے طور پر ما کائی کی جگہ لیں گے۔ مسٹر ما کائی جنہوں نے کنزرویٹو کے خفیہ کارندے کی حیثیت سے پورا کیریئر چین میں گزارا، کے برعکس مسٹر لیو نے 1990 میں سیٹن ہال یونیورسٹی اور ہارورڈ ہونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور وہ روانی سے انگریزی بولنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

چینی پالیسی سازوں کے حلقے کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے مالیاتی اور اقتصادی پورٹ فولیو کے علاوہ مسٹر لیو چین اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کریں گے، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک اور اقتصادی مذاکرات اجلاسوں کے لئے چین کی ٹیم کے سربراہ وانگ یانگ کی جگہ لینے کا بھی امکان ہے۔

مسٹر لیو کی اصلاحات اور صدر شی جنگ پنگ کے سب سے قابل اعتماد معاشی مشیر دونوں حیثیت کے باوجود دو افراد نے چند جرأت مندانہ اقتصادی اور مالیاتی اصلاحاتی اقدامات پیش کئے جن کی پانچ سال قبل بیجنگ نے نشاندہی کی۔

مسٹر لیو ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کے ساتھ مسٹر لائتھزائر کی طرح ملاقات کریں گے جو بیجنگ کے ساتھ مذاکرات میں کافی شک کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں اوران کی سفارتکاری کی ماضی کی کوششیں نامعقول رہیں۔

انتظامیہ نے گزشتہ سال خاموشی سے چین کے ساتھ جامع اقتصادی مذاکرات کیے تھے۔

گزشتہ ماہ کانگریس کی ایک رپورٹ میں مسٹر لائتھزائر نے اعلان کیا کہ امریکا نے چین کو عالمی تجارتی تنظیم میں شامل ہونے کی اجازت دے کر غلطی کی تھی۔ چین کے عالمی تجارتی تنظیم سے الحاق کے بعد سے امریکا نے بارہا چین کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کی،ان کے عملے نے اپنی رپورٹ میں لکھا۔ یہ دوطرفہ کوششیں زیادہ تر ناکام رہیں،امریکی پالیسی سازوں کی ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کیونکہ چینی پالیسی ساز حقیقی مارکیٹ کی جانب منتقل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

اوبامہ انتظامیہ میں امریکی تجارتی نمائندے کی حیثیت سے چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے نگراں رابرٹ ہولیمین نے کہا کہ مسٹر لیو کو اس ہفتے واشنگٹن کے اپنے دورے پر ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ چین سے باہر اصلاحات کا وعدہ طویل عرصہ سے کیا جارہا ہے اور ہم نے چین کو ان اصلاحات کو کسی بھی معقول راستے میں تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں دیکھا ہے۔مجھے تعجب ہوگا کہ چینی ہمیں کیا دے رہے ہیں، کے بغیر ہی ٹرمپ انتظامیہ یہ قبول کرلے گی۔ 

تازہ ترین