عابدہ فرحین
معاشرے کی حقیقی ترقی عورت کی ترقی وخوش حالی کے بغیرممکن نہیںمگر اس حقیقت کے باوجودمقام افسوس ہے کہ دنیا بھر میں عورت آج بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے فی الوقت کوئی ملک بھی رول ماڈل نہیں۔
حالانکہ دنیا کے سامنے آنے والے تمام چارٹرز میں سے یہ فضیلت اسلام کو ہی حاصل ہے کہ اس نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، وہ آج تک کوئی نظام نہیں دے سکا ہے، مگریہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود ہماری عورت آج بھی نہ صرف حقوق سے محروم ،بلکہ بے تحاشہ مسائل میں گھری ہوئی ہے ۔مسائل کی دلدل سے اس کو باہر نکالنایقیناً ایک قومی ذمے داری ہے، مگرعورت کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جن کا تعلق خود عورت سے ہی ہے،جو اس کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
ان کا تعلق معاشرے اور مردوں سے نہیں، بلکہ خود خواتین سے ہے،لہٰذا اس کی اصلاح خودان کو ہی کرنی ہو گی۔ کہاجاتا ہے کہ عورت، عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی حقیقت ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو اس کے عوامل اور نقصانات کیا ہیں اور اس کا کیاحل ہے؟
عورت سے عورت کی پر خاش کا یہ مسئلہ ہمیں صرف اداروں، تنظیموںمیں ہی نہیں، بلکہ گھروں اور خاندانوں میںبھی کثرت سے نظر آتا ہے۔عورت معاشرے کی عمارت کا کلیدی پتھر ہے اور ہر حیثیت میں خواہ ماں بہن، بیوی، بیٹی، آجر، دوست، ساتھی، ہر حیثیت میں اس کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، مگرجہاں اس معاشرے میں اس کے مؤثر کردار کی ادائیگی میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں، وہاں اس کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے نے بھی اس کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اکثر خواتین اداروں ، خاندانوں ، مختلف بزنس، سوشل اور پیشہ وارانہ کلبوں میں اپنا بیشتر وقت باہمی رقابت ، رسہ کشی اور کھینچا تانی میں ضائع کر دیتی ہیں۔یوں تعمیری کاموں کی بجائے تخریبی، سرگرمیوں میں لگا دیتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق 95فیصد خواتین، نوجوان خواتین کارکنان سے عدم تحفظ محسوس کرتی ہیں۔پروفیسر ہیری کوپر نے اس حوالے سے کہا ہےکہ اس کی وجہ سے وہ اپنے جونئیرز کی سرپرستی نہیں کر سکتیں۔
ایک تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ جو عورتیںمردانہ برتری (man domination ) کے ماحول میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ترقی کرتی ہیں، وہ اپنی ماتحت نوجوان خواتین کے لئے نسبتاً زیادہ Queen Bee Syndrome کا شکار ہوتی ہیں اور اپنی جونئیرز کے لیے ان کے اندر ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب ہم اتنی مشکلیں اٹھا کر کام کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتیں۔
دراصل وہ اپنے ماضی کے حالات کا بدلہ اپنی جونئیرز سے لیتی ہیں اور بسا اوقات یہ صورتحال بالکل اسی طرح ساس بہو یا دیوارنی اور جیٹھانی کے کیس میں بھی نظر آتی ہے۔
معروف مضمون نگار اور ادیبہ، کیلی ویلن،نے امریکہ کی ایک The twisted sister hood نامی ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے، جس میں وہ تین ہزارسے زائد عورتوں سے کئے گئے، ایک سروے میں بتاتی ہیں کہ 90 فیصد سے زائد خواتین میں دوسری خواتین کے بارے میں منفی جذبات (meanness) پائے گئے ہیں۔
کیلی ویلن مزید بھی بتاتی ہے کہ 50 سوالات پر مشتمل ایک سروے میں85فیصد عورتوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسری عورتوں کے ہاتھو ںبہت مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔
اکثر سینئر خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ غیر اہم ہو جائیں گی، شاید یہی خوف ان کے منفی رویے کی وجہ ہوتا ہے۔اگرچہ اس نوع کے مسائل مردوں کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہ خواتین کے گروہ میں بہت زیادہ موجود ہیں۔
کچھ نہ کچھ منفی جذبات انسانی نفسیات کا حصہ ہیںاور انسانی سرشت میں پائے جاتے ہیںبعض جذبات و خصوصیات صنفی بنیاد پہ بھی کم یا ذیادہ ہوسکتےہیں، مگر ان کو تراش خراش کر درست سمت دینے اور شر کو خیر کے رخ پہ موڑنے کا کام گھر،مذہب ، معاشرتی اقدار اور نظام تعلیم و تربیت کرتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں جیسے جیسے مادیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے اخلاقی بلندی اور اعلی ظرفی کا دامن بھی ہاتھوں سے چھوٹاجارہا ہے۔ افراد اور معاشرے سے وہ اخلاقی صفات عنقا ہوتی جارہی ہیںجو کبھی ہماری سوسائتی کا طرئہ امتیاز ہوا کرتی تھیں۔
اس اخلاقی زوال کی بنیادی وجہ تو ہمارے نظام تعلیم سے تربیت کے عنصر کا مفقود ہونا ہے جس کا مطمع نظر اب سیرت سازی کے بجائے صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے اور اس نے معاشرے کے ہر طبقے کو ہی متاثر کیا ہے۔ مرد و عورت سب ہی اس کا شکار ہیں، لیکن کیوں کہ بد قسمتی سے عورت کے لئے نہ صرف آگے بڑھنے کے مواقعے نسبتاً کم ہوتے ہیں، بلکہ اس کے کام کو مطلوبہ پزیرائی بھی نہیں ملتی، شاید ان میں اس لیے عدم تحفظ کا احساس زیادہ نظر ٓاتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عموما گھروں کے اندر پائی جانے والی کشیدگی گھر کی عورتوں کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ گھریلو سیاست میں قیادت کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،اسی طرح اداروں اور تنظیموں میں پیشہ ورانہ سیاست تو مردوں کے درمیان بھی بہت ہوتی ہے لیکن عموماً خواتین کے درمیان یہ چپقلش اورپیشہ ورانہ رقابت اتنی ذیادہ پائی جاتی ہے کہ بسااوقات وہاں کا نظام ہی چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ا خلاقی بہتری کے لئیے تربیت کا جو کام ہمارے نظام تعلیم کوکرناچاہئے تھا وہ اس نے تو نہیں کیا مگر ہماری مساجدبھی وہ کردار ادانہ کر سکیں، جو کبھی ہمارا ورثہ تھا، حتی کہ گھروں سے بھی اخلاقی بلندی کا ورثہ اس طرح منتقل نہیں ہو سکا، جس طرح ہونا چاہئے تھا، جبکہ اس اخلاقی بلندی کا درس ہمیں صرف اسلام ہی نہیں دیگر مذاہب بھی دیتے ہیں۔
اسلامی اخلاقیات تو خیر سے انسانی رویوں کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے تو ہمیں ان الہامی تعلیمات پر یقین ہونا ہی چاہئے، جو اس بارے میں ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔
مثلًا اگر کسی کو اس بات کا یقین ہو کہ روزی دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے اور اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم اگر مجھ پہ ایسا توکل کرو، جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو میں تم کو ایسے روزی دوں گا، جیسے ہر پرندے کو دیتا ہوں تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی سے عدم تحفظ کا شکار ہوسکیں۔ نیز اللہ تعالی نے کہا تمہاری قسمت میں جو رزق لکھا جا چکا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور تمہاری عزت اور ذلت بھی میرے ہاتھ میں ہے تو کیوں کسی سے خوف کھایا جائے، کیوں کسی کو دبا کر رکھنے میں اپنی شان اور عزت کی ضمانت سمجھا جائے؟ اگر کسی کو یہ پتہ ہو کہ حسد نہ صرف دنیا میں ہی انسان کی جڑیں کاٹتا ہے، بلکہ آخرت میں بھی آدمی کو کنگلا کر دے گا تو وہ اس جذبے کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔
اگر ہم نے کبھی اپنے بڑوں سے اور اپنے سینئرز سے یا اپنے باسز سے کوئی مشکل وقت اٹھایا ہے تو اس میں ہمارے جونیئرز کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم ان کا بدلہ اپنے جونیئرز سے لیں یا اگر کسی نے اپنی ساس یا شوہر کی زیادتی برداشت کی ہے تو اس میں ان کی بہو کا توکوئی قصور نہیں رہا کہ اس تلخی کا حساب اس سے کیا جائے اور ایسا کرنے سے سوائے ماحول خراب ہونے اور کشیدگی میں اضافہ کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، جبکہ اس کے برعکس اچھا رویہ اختیار کرکے ہم نہ صرف اپنے ساتھیوں سے عزت و احترام پائیں گے خود ذہنی طور پہ آسودہ ہوں گے اور ہمارے گھروں اور دفاترکا ماحول بھی خوش گوار ہو گا ۔
در اصل ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے افراد ہی معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں،کیونکہ کسی بھی طرح کا انتشار خواہ فکری ہو یا عملی، ہمیشہ اداروں، تنظیموں، خاندانوں، حتی کہ افراد کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور ترقی میں سد راہ تو بن سکتا ہے مگر ان کو کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتا، جبکہ اتحاد و اتفاق کی برکتوں کو سمجھنے کے لیے لکڑیوں کے گٹھے کی سادہ سی مثال بہت اہم ہے کہ ہر لکڑی کو توڑنا کتنا آسان اور سات لکڑیوں کے گٹھے کو توڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ جو گروہ اندر سے کمزور ہو، وہ بیرونی طاقت سے کیوں کر مقابلہ کر سکتا ہے۔
عموماََ دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر لوگ کسی سے عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں تو اسکی خامیوں اور کمزوریوں کودوسروں کے سامنے نمایاں کرکے اس کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ الہامی ہدایت تو یہ کہتی ہے کہــــ" جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے پڑیں گے تو اللہ ان کے عیب کے پیچھے پڑ جائے گا اور جس شخص کے پیچھے اللہ پڑ جائیگا اسے رسوا کر ڈالے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھرکے اندر ہو۔ (ترمذی۔ ابن عمرؓ)ِِ"اگر اس بات کا علم کسی کو ہو تو وہ کیسے دوسروں کی عیب جوئی کرسکتا ہے ؟؟
ہم اگر کسی کو کچھ سکھا دیں گے یا بتا دیں گے ،یعنی اپنا علم اور اپنا ہنر منتقل کر دیں گے تو ہمارا علم ہرگز کم نہیں ہو گا،بلکہ اس میں اضافہ ہوگا،اس سے سکھانے والے کے علم ، رتبے اور حیثیت میں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے، اگر ہم کسی کے لئے آسانی پیدا کریںگے تو ہماری ہی عزت میں اضافہ ہوگا اور اس سے معاشرے میں خیرپھیلے گا اور ایسے رویوں کو اختیار کرنے اور رواج دینے سے ہی queen bee syndromeکا خاتمہ ہوسکے سگا۔
ایک اور اہم بات جو ہم بھول جاتے ہیںکہ اپنے سے زیادہ عمر رتبے اور علم والوں کو عزت دینے سے ہم چھوٹے نہیں ہو جاتے بلکہ ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی سے کچھ سیکھتے ہیں یا سیکھ سکتے ہیں تو اس کو تسلیم(Acknowledge)کرنے سے ہماری بڑائی میں اضافہ ہوتا ہے اس سے گھروں اور اداروں کا ماحول بھی بہتر ہوتا ہے جو کہ نہ صرف مجموعی طور پرگھر اداروں اور معاشرے کے لئے بہتر ہوتاہے، بلکہ خود عورت کے اپنے لیے بھی بہت اچھا ہوتاہے اور اس کا وقت اس غیر تعمیری اندرونی سیاست میں ضائع ہونے کی بجائے تعمیری کاموں میں صرف ہوتا ہے، تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔
گھروںاور دفاتر میں پرسکون ماحول و ذہنی آسودگی میسرہوتی ہے۔اگر ہم کسی کی تعریف یا حوصلہ افزائی کر دیں گے تو اس سے ہمارا کوئی نقصان ہوئے بغیر دوسرے کا فائدہ ہو جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس خیر سے ہمیں خودبھی کوئی فائدہ ہو جائے۔
متذکرہ بالا اخلاقی خوبیوںکے علاوہ بھی بہت سے محاسن اخلاق ہمیں مذہبی تعلیمات اور تاریخی حوالوں میں ملتے ہیں، جو اگرچہ مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ لیکن متذکرہ بالا موضوع کہ عورت عورت کی دشمنی سے کیسے رکے؟ تو اسکا طریقہ یہی ہے کہ ان اخلاقیات کو اپنانے کی کوشش کی جائے اور اپنے اس یقین کو بڑھایا جائے کہ سب کچھ دینے والا اللہ ہے اور اس چھوٹی سی زندگی میں ہم جو بوئیں گے وہ نہ صرف ہم آخرت میں کاٹیں گے، بلکہ دنیا میں بھی ہم اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اس فصل کو کاٹیں گی، کیوں کہ عورت ہی وہ کردار ہے جو اس معاشرے اور نسلوں کو بنانے سنوارنے کا کام کرتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ مردانہ برتری کے اس معاشرے میں دراصل مرد سے عدم تحفظ کے باعث عورت کے بہت سے رویئے جنم لیتے ہیںمگرمعاشریے کا ہرمرد بھی کسی عورت کی گود ہی سے تربیت پاکر جوان ہوا ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ نپولین نے بھی کہا تھا کہ ـ" تم مجھے اچھی مائیں دو تو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا" اگر عورت ہی اخلاقی میعار سے گر جائے تو نہ صرف معاشرہ انتشار اور زوال کا شکار ہو گا، بلکہ اعلی اخلاقی صفات سے عاری نسلیں جنم لیں گی۔
عورت اپنے اس مقام کا ادراک کرتے ہوئے کم از کم اپنی اپنی اکائی میں جہاں وہ موجود ہے اس عورت سے عورت کی دشمنی کو مٹانے اور ختم کرنے کا تہیہ کرے تو ہم دیکھیں گے کہ طبقۂ نسواں کے بیشترمسائل خود بخود حل ہو جائیں گے،اگر خواتین اپنے اندر یہ ظرف پیدا کرلیں کہ ایک دوسرے کو اپنے مدمقابل کے طور پردیکھنے کے بجائے اپنے مددگار کے طور پر دیکھیں۔
ایک دوسرے کے بارے میں شک میں پڑنے کے بجائے ایک دوسرے کو سہارا دیںتو وہ ایک ایسی ناقابل شکست اکائی ہوں گی کہ کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکے گا اگر آج کی مائیںیہ عزم کرلیںاور یہ طے کرلیں کہ اپنی گود میں پرورش پانے والے ہربچے کو اپنی استعداد بھر بنیادی اخلاقیات سکھانے میں سر دھڑکی بازی لگادیں گی نیز ہر لڑکے کو عورت کی عزت اور اس کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دیں گی، اگر ماں اپنے بیٹے کو بیوی کے حقوق کی ادائیگی کا درس دے اور بیوی ماں کے حقوق کی یادہانی کرائے، اسی طرح اگر اداروں میں بھی اپنی ذات سے اوپر ہوکر اپنی ساتھی کے لئے اخلاقی سہارا بنے تو ہمارے گھر بھی امن و سکون کا گہوارہ ہوں گے اور دفاترمیں بھی، ذہنی تھکاوٹ کے بجائے خوشی اور سکون میسر ہو گا۔
مزید یہ کہ عورت کی گود میں پرورش پانے والا ہر بچہ آنے والی کل میں وہ فرد ثابت ہو گا، جسے اپنے فرائض اور دو سروں کے حقوق کا بخوبی ادراک ہوگا اور ہر مرد عورت کو دبانے میں اپنی برتری سمجھنے کے بجائے اس کو عزت و احترام دینے ،سہولت اورتحفظ دینے، اس کے معاشی اور اخلاقی حقوق کی ادائیگی کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھے گا۔