• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی مدبر جان ایڈمز جنہیں امریکہ کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،ان کے مطابق سیاست میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں ایسے سیاست گرپوں کی کوئی کمی نہیں جو اخلاقی کشمکش کے بدترین دور میں بھی کوئی واضح پوزیشن لینے سے گریز کرتے ہیں اور اپنی غیر جانبداریت برقرار رکھتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ کے لئے موزوں اور قابل قبول امیدواروں کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا تو نہ جانے کیوں مجھے 21اکتوبر کا دن یاد آگیا۔جنرل (ر)پرویز مشرف کو جمہوریت پر شب خون مارے کئی دن بیت چکے تھے ۔مسلم لیگ (ن) کے بچے کھچے رہنما جنہیںبے ضررسمجھ کر گرفتار کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ،راجہ ظفر الحق کے گھر جمع ہوئے اور اجلاس کے بعداسلام آبادمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہم فوج سے محاذ آرائی نہیں چاہتے ‘‘ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے الفاظ بدل بدل کر متعدد مرتبہ یہ کوشش کی کہ راجہ ظفر الحق 12اکتوبر کے فوجی اقدام کی مذمت کر دیں تاکہ ان کے اس بیان کو شہہ سرخی بنایا جا سکے لیکن یہ ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور سابق وزیر برائے مذہبی امور راجہ ظفر الحق نے مذمت کا لفظ بروئے کار لانے کے بجائے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ صورتحال قابل افسوس ہے اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں کو نوازشریف سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔راجہ ظفر الحق طبعاً نرم خو ،صلح جو ،مثلِ حریر اور امن کے سفیر واقع ہوئے ہیں ۔شرافت ،لحاظ اور دھیمامزاج ان کی شخصیت کے بنیادی ا وصاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات کے جبرسے اچانک قائد انقلاب بن جانے والے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اپنے اہل اور قابل قبول بھائی شہباز شریف کے مشورے پر مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اپنانے کی خاطرمیڈیا میں زیر بحث ناموں کے برعکس چیئرمین سینیٹ کا ہُماراجہ ظفر الحق کے سر سجانے پر غور کر رہے ہیں۔وہ جو اس لڑائی کو جمہوریت کی بقا کی جنگ سمجھ رہے تھے ،ان کا خیال تھا کہ میاں صاحب ابتلا و آزمائش کے اس دور میں پرویز رشید یا مشاہد اللہ خان جیسے مردِمجاہد کو علم بردار بنائیں گے یہی وجہ ہے کہ جب یہ دونوں نام سامنے آئے تو ڈھنڈورچیوں نے پرویز رشید کا نام پیٹنا شروع کر دیا ۔لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میاں نوازشریف گہری چال چلنے کے ماہر ہیں اور اپنے پتے آخری وقت تک سینے سے لگا کر رکھنے کے قائل ہیں۔ویسے تکلف برطرف اگر مشکل حالات سے گھبرا کراورامن کا سفید جھنڈا لہرا کر جنگ بندی کا اعلان کرنا ہی مقصود ہے تاکہ ہر ذلت گوارہ کرکے جیسے تیسے عام انتخابات کے فائنل رائونڈ تک پہنچا جا سکے تو پھر راجہ ظفر الحق ہی کیوں ،آپ کے دامن میں ایک اور گوہر نایاب بھی ہے جو آبپارہ سے کوئٹہ اور راولپنڈی سے لندن تک سب کا متفقہ امیدوار ہو سکتا ہے۔نوازشریف کے سابقہ وزیر اطلاعات ونشریات مشاہد حسین سید ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں روسی سیاستدان اناستاس میکیان (Aanastas Mikoyan)سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔میکیان کا شمار لینن،اسٹالن ،خروشیف اور برزنیف کے ہم عصر سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔روس میںعمومی روایت تو یہ تھی کہ جب ایک حکمراں رخصت ہوتا تو اکھاڑ پچھاڑ کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔پرانے عہدیداروں کو ملک دشمن کہہ کر قید کر دیا جاتا یا پھرکھڈے لائن لگا دیا جاتا لیکن میکیان کا وصف یہ تھا کہ وہ ہر نئے حکمراں کی ضرورت بن جاتے اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھاتے ۔موصوف اسٹالن کے دور میں غیر ملکی تجارت کے وزیر تھے اور اسٹالن ان کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرتے مگر جب اسٹالن کابوریا بستر گول ہونے کے بعد خروشیف برسر اقتدار آئے تو میکیان ڈی اسٹالنائزیشن (De-Stalinization)پروگرام کے روح رواں بن گئے اور انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا گیا ۔1964ء میں خروشیف کا دھڑن تختہ ہو گیا تو برزنیف نے بھی کچھ عرصہ انہیں اہم عہدوں پر برقرار رکھا ۔اس زمانے میں میکیان کی حیثیت ایسے مرغِ بادنما کی تھی جس سے اقتدار کا قبلہ معلوم کیا جا سکتا تھا اس لئے کہاوت عام تھی کہ اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کریملن میں کس کی حکومت ہے تو محض یہ دیکھ لیں کہ میکیان کس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔مشاہد حسین سید بھی پاکستانی سیاست کے میکیان ہیں جو جہاں کھڑے ہو جاتے ہیں ،لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے جب میاں صاحب نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا تب ہی سمجھ جانا چاہئے تھا کہ ہوا کا رُخ کیا ہے ۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی طرف سے امیدوار فائنل ہوجانے کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین سینیٹ لانے کی اجازت دی جاتی ہے یا نہیں ہاں البتہ پرویزرشید اور مشاہد اللہ خان میں سے کسی کا نام فائنل ہوا تو ’’ان‘‘ کی ’’ہٹ‘‘ جائے گی ۔چند روز قبل سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد بادشاہ اور بادشاہ گر کے الفاظ کی گونج سنائی دی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پکے اور سچے ’’بادشاہ گروں ‘‘ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔اصل بادشاہ گر کون ہیں اور یہ تمام تر تدبیروں کے باوجود بعض اوقات کیسے اپنے ارادوں میں ناکام رہتے ہیں ،اس حوالے سے ایک محب وطن جرنیل کی انتہائی معتبر گواہی پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔جنرل(ر) خالد محمود عارف کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار کو دوام بخشنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ۔وہ اپنی کتاب’’ورکنگ ود ضیا ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں کے آخری دو اجلاس الوداعی تھے ۔فضا خوشگوار اور ماحول دوستانہ تھا جنرل ضیا نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمان ،ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ’’بادشاہ گر ‘‘ ہیں تو سب حاضرین حیران رہ گئے مارچ 1987ء میں اختر کو جنرل کے رینک پر ترقی دیکر جنرل رحیم الدین کی جگہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کر دیا گیا جنرل رحیم الدین کی الوداعی دعوت پر جنرل اختر صدر کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے ۔صدر ضیا جانے والے چیئرمین جے سی ایس سی کے بارے میں کلمات خیر کہہ چکے تو نئے چیئرمین جنرل اختر کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے ،جنرل اختر پہلے بادشاہ گر ہوا کرتے تھے اب خود بادشاہ بن گئے ہیں اس پر ساری محفل کشت زعفران بن گئی ۔‘‘اور اب ذکر ان اصلی بادشاہ گروں کی ناکامی کے امکانات کا اور وہ بھی اسی معتبر راوی کے حوالے سے۔ اسی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ غیر جماعتی انتخابات کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے لئے جنرل ضیا الحق کی نگاہ انتخاب خواجہ محمد صفدر (خواجہ آصف کے والد گرامی )پر تھی ۔وزیر اعظم جونیجو متذبذب تھے اور یوں ’’بادشاہ گروں ‘‘ کی جانب سے خواجہ صفدر کا نام تجویز کئے جانے کے باجود سید فخر امام مخالف امیدوار کے طور پر سامنے آگئے ۔جنرل ضیانے بذاتِ خود ٹیلیفون کرکے فخر امام کو دستبردار ہونے کو کہا لیکن فخر امام نہ صرف کھڑے رہے بلکہ کثرت رائے سے قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب بھی ہو گئے ۔گویا حقیقی بادشاہ گروں کی ناکامی کے امکانات بھلے کتنے ہی معدوم اور موہوم کیوں نہ ہوں، بہر حال انہیں خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تازہ ترین