• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
جنگ نیوز

ڈاکٹرابن یوسف

مسلم معاشرے کے نظام حیات کو کتاب و سنت کے چشمہ ٔصافی سے ہی سیراب کیا جا سکتا ہے۔ سرور کائنات ﷺکے بعد اصحاب رسولؐ کی جماعت تکمیل انسانیت اور اخلاق و اعمال حسنہ کا اکمل نمونہ ہے۔ یہی وہ نفوس قدسیہ تھے، جن کے سامنے وحی الٰہی نازل ہوتی رہی جو رسول پاکﷺ کی زبان مبارک سے قرآن و پیمبرانہ تشریح سنتے رہے اور انہی دو چیزوں(کتاب و سنت) کو انہوں نے اپنے اقوال و اعمال کا محور بنائے رکھا اور اسے امانت سمجھ کر کمال دیانت سے انہوں نے اپنے شاگردوں(تابعین) تک پہنچایا۔آج مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان اسی دین حنیف کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے ‘جو ملکی وعالمی سطح پر اہل حدیثوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے جس کی فکر قرآن و حدیث کے قصر رفیع پر استوار ہے جسے وہ اپنی روح کی غذا اور اپنے قلب و ضمیر کی صدا سمجھتی ہے ۔

 زمانہ لاکھوں کروٹیں لے چکا ہے ، ہر صبح بے شمار تغیرات کے جلو میں طلوع ہوتی ہے اور ہر شام نئے نئے انقلابات کو اپنے دامنِ پررونق میں لپیٹ کر لباس شب زیب تن کرتی ہے‘ لیکن مسلک اہل حدیث کے اصول‘ احکام اور اہداف اٹل ہیں اور ان کے رنگ و روپ میں وہی سج دھج کار فرما ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل اسلام کا طرۂ امتیاز تھی۔ کارخانۂ کائنات جس نہج پر چل رہا ہےاور یہ عالم رنگ و بو کے ارتقاء کی جن منازل کی طرف گامزن ہے، اس کی روشنی میں اگر غورکیاجائے تو وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا قرآن و سنت ہی کو اپنا مرکز اطاعت قرار دینے لگے گی۔

اس منزل تک پہنچنے کی جستجو و سعی کے تحت مرکزی جمعیت اہل حدیث 8 اور 9 مارچ کو کالا شاہ کاکو میں 24ویں ’’آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس‘‘ نہائت تزک و احتشام سے منعقد کر رہی ہے۔ جس کا آج دوسرا روز ہے۔ کانفرنس کی صدارت مرکزی امیر پروفیسر ساجد میر کر رہے ہیں، جبکہ نظامت حافظ عبدالکریم کر رہے ہیں۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی امام کعبہ الشیخ صالح آل طالب حفظہ اللہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں ملک و بیرون ملک سے جید علماء‘ دانشور اوردینی جماعتوں کے زعماء کی کثیر تعداد شریک ہو رہی ہے۔

 اس بار یہ کانفرنس ملکی سلامتی‘ خودمختاری ، تحفظ ختم نبوت اور دفاع حرمین کے عنوانات کے تحت منعقد ہو رہی ہے جس میں مقررین وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کی نشاندہی کر کے قوم میں ان کا مقابلہ کرنے کا عزم پیدا کریں گے، جس سے نہ صرف تحفظ ختم نبوت کی تحریک کو جلا ملے گی، بلکہ کانفرنس میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیاجائے گا۔ قائد جمعیت پروفیسر ساجد میر نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کو اپنے بانیان مولانا سید دائود غزنویؒ ‘ مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ اور مولانا میر ابراہیم سیالکوٹیؒ کی فراہم کردہ شاہراہ پر چلا کرثابت کیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں مسلک اہل حدیث کے ترجمان ہیں۔ صالح اور باکردار قیادت جن تحریکوںکو نصیب ہو جائے، ان کے اثرات کومٹایا نہیں جا سکتا۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان وطن عزیز کو اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے اور اس کی اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جدوجہد بھی اسی مقصد کے پیش نظر ہے۔ یہ اپنے اہداف میں جہاں قرآن و سنت کے نفاذ کو اولین ترجیح دیتی ہے ،وہیں اس ملک میں ویلفیئر کا جامع پروگرام بھی رکھتی ہے۔

اسی طرح تعلیمی میدان میں وفاق المدارس سلفیہ کے تحت سیکڑوں مدارس کا ملک بھر میں جال پھیلاہوا ہے ،جہاں اسلامی اور عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں۔جس کا نصاب فرقہ واریت اور تعصب سے پاک ہے، جہاں قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کیا جاتا ہے۔ یہ مدارس اسلامی روایات کے محافظ اور دینی ثقافت کے امین ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث تزکیۂ نفس کے لئے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ متقی اور پرہیز گار علماء و مشائخ کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے علم و تقویٰ کی خوشہ چینی کی قائل ہے۔ بدعات کے خلاف اصلاحی تحریکیں ہوں یا اعدائے اسلام کے خلاف جہاد‘ اہل حدیث نے دونوں تحریکوں میں اپنا پورا وزن ڈالا ہے۔

آج وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر خطرات منڈلارہے ہیں‘ آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس ملک میں اسلامی انقلاب کی نوید ثابت ہو گی، اور قوم کو کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال کر روشن مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور یہ روحانی بالیدگی کا ذریعہ بھی ہے اور رجوع الیٰ اللہ کی تحریک کو فروغ دے گی۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کاقرآ ن و سنت سے رشتہ مضبوط کیا جائے، اس تناظر میں ’’آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس‘‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جو اتحاد امت کی داعی اور شوکت اسلام کا بہترین مظہر ثابت ہوگی ۔ جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی‘ اتحاد امت کے قیام ‘ ملک کو درپیش امن و امان اور اقتصادی بحرانوں کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا عزم پیدا کریں گے۔طاغوتی طاقتوں کی اسلام اور عالم اسلام کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کریں گے۔ یہ اجتماع قومی یکجہتی ‘ امن و اخوت کی راہ ہموار کرے گا ۔

امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب پاکستان سے محبتیں سمیٹنے یہاں آرہے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں امام کعبہ کواہل پاکستان سے جو محبت اور پیارملا ، جس طرح ان کا فقید المثال اور پرتباک استقبال کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔لاہورکے فرزندان اسلام کی حالت تو اس شعر کے مصداق تھی کہ دل محو انتظار ہے، آنکھیں ہیں فرش راہ، آو کبھی تو چاہنے والوں کے شہر میں۔

مکہ مکرمہ کعبہ مشرفہ ہر کلمہ گو کے لیے تمام تر توجہات و عنایات کا مرکز، ساری عقیدتوں کا محور اور جنون کی حدتک محبتوں کا مرجع ہے، جس کی طرف نگاہیں مرکوزاورگردنیں دراز رہتی ہیں،جس کے لیے مومن کا دل بیتاب رہتا ہے۔سرزمین حرم جہاں مقامات مقدسہ ہیں، مشاعر مشرفہ ہیں،جو مہبط وحی ہے، منبع رسالت ہے،جہاں سے ساری دنیا میں ایمان کا نورجگمگایا،جہاں پر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، رحمتیں اترتی ہیں، لغزشوں سے درگزرکیا جاتاہے،درجات بلند کیے جاتے ہیں، گناہوں کومٹادیا جاتا ہے، اور رب دو جہاں کی سخاوت عام ہوتی ہے۔

اس عالی مرکز کے امام، شیخ العرب و العجم ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد آل طالب حفظہ اللہ کی سرزمین پاکستان میں آمد سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے لیے سنگ میل ثابت ہو گی۔ اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران انہوں نے نمازوں کے اجتماعات اور عوام سے ملاقات اور خطاب میں امت مسلمہ کوقرآن و سنت کی بنیاد پر متحد ہونے کا جوپیغام دیا، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ پھر قوم نے جس طرح ان پراپنی محبتوں کے پھول نچھاور کیے اور حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے کٹ مرنے،مشکل اور بحرانی حالات میں سعودی عرب کو تنہا نہ چھوڑنے کے عزائم ظاہر کیے وہ بھی ناقابل فراموش ہیں ۔

شیخ صالح آل طالب انتہائی معتدل اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔ بر محل اور دھیمے لہجے میں گفتگو ان کا خاصہ ہے۔ ان کی ذہانت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ ’’تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد الحرام کا کردار‘‘ ’’نو مسلموں کے احکام‘‘جیسی شہرہ آفاق کتب کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کے بھی مصنف ہیں ۔ پاکستان آمد پر مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے شائع کردہ ا ن کے 33 خطبات پر مشتمل کتاب جب انہیں پیش کی گئی تو وہ بڑے حیران ہوئے ،ان کی خوشی دیدنی تھی ۔

 امام کعبہ کا دورہ پاکستان ایسے حالات میں ہوا ،جب حرمین شریفین کے تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی عساکر کی صف بندی جاری ہے اور جس عساکر اتحادکی سربراہی کا اعزاز جنرل ( ر) راحیل شریف کی صورت میں پاکستان کو حاصل ہوچکا ہے۔

ایک طرف تو حرمین شریفین کے لئے اپنا تن من دھن لگا نےوالوں کی روشن تاریخ ہے، جبکہ دوسری جانب انہی مقدسات کے امن کو پراگندہ کرنے والوں کے قابل نفرت اقدامات سے بھی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے دہشت گردانہ اقدامات سے حاجیوں، نمازیوں اور عبادت میں مصروف افراد کو ڈرایا دھمکایا اور حتیٰ کہ بعض شقی القلب حملہ آوروں نے اپنے اقدامات سے اللہ کے مہمانوں کو خون میں نہلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان قبیح اعمال کو دنیا کی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا ۔

مکہ کی مسجد حرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کا اسلام میں نہایت بلند مقام ہے ،کیونکہ حج اور عمرہ مکہ میں ادا کیا جاتا ہے،جب کہ ہجرت، اسلامی ریاست کی بنیاد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ مدینہ منورہ میں ہے۔

 اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک حرمین شریفین کی حفاظت، مرمت اور دیکھ بھال تمام مسلمان ملکوں کی اولین ذمہ داری چلی آ رہی ہے۔ یہ ذمہ داری صرف ظاہری دیکھ بھال تک محدود نہیں، بلکہ ان مقدسات کی طرف اٹھنے والی ہر بری آنکھ سے محفوظ رکھنا بھی تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور محبت کا محور حرمین شریفین ہے ،جس سے ہرکلمہ گو کی عقیدت ومحبت لا زوال ہے۔ شاہ فیصل شہید عرب حکمرانوں میں اپنی مثال آپ تھے، آپ کو قرآن و سنت سے والہانہ عقیدت تھی امت کے اتحاد کا درد تھا، اس لئے انہوں نے او آئی سی کی سطح پر مسلمان ممالک کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنے میں نمایاںکردار ادا کیا۔

آج عالم اسلام اور بالخصوص سعودی عرب اور حرمین شریفین کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ حرمین شریفین کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ان مذموم حالات سے نمٹنے کے لئے اسلامی فوجی اتحاد ناگزیر ہوگیا تھا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے شاہ فیصل مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی عساکر کے اتحاد کی تشکیل کرکے احسن اقدا م اٹھایا ہے۔ 

اور پھر39 ممالک کی مشترکہ اسلامی فوج کی سربراہی کے لئے جنرل (ر) راحیل کا چناؤ کرنا بلاشبہ پاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں سمیٹیں اور مسلح افواج بلکہ عوام کے بھی دل جیت لئے۔

یقیناً جو بھی سچا پاکستانی ہوگا وہ پاکستان کے مفادات کی بات کرے گا۔ اس موقع پر ہمیں سعودی عرب کے احسانات نہیں بھولنے چاہییں ۔پاکستانی عوام اور اس کے ادارے ضمیر فروش ہیں اور نہ ابن الوقت کہ افتاد اور مصائب کے موقع پر ہم اپنے محسن ملک کو بھول جائیں۔ امام کعبہ نے بھی اپنے دورے کے دوران مختلف اجتماعات اور فودسے گفتگو میں اسی عزم کا اظہار کیا کہ مقدس مقامات کی حفاظت ودفاع تمام مسلمانوں پر فرض اور واجب ہے۔

ہر معاملے میں درگزر کیا جاسکتا ہے، مگر ہم مقدس مقامات کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔اس لئے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔سعودی عرب اور پاکستان میں دہشت گردی ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔دشمن نہیں چاہتا کہ یہ دونوں ملک ترقی کریں۔اس لئے دہشت گردی کی سر پرستی کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف امت مسلمہ دہشت گردی کا شکار ہے تو دوسری طرف اسے کچلنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر چال چلی جا رہی ہے۔

اسی لئے اسلامی عسکری اتحاد قائم کیا گیا ہے۔یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف یا حفاظت کے لئے نہیں،بلکہ دہشت گردی خلاف قائم کیا گیا ہے۔ہم امن و محبت والی امت ہیں نہ کہ قتل و غارت کو فروغ دینے والوں میں سے۔ہمیںدہشت گردی اور تخریب کاری کے خلاف متحدہو جانا چاہیے۔ 

جن اسلامی ممالک میں شورش برپا ہے اور ظلم ڈھایا جارہاہے، ان کی عوام کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت سے محبت کرتے ہیں ۔علمائے کرام دین کی تعلیمات کے امین ہیں۔تمام مسلمان فرد واحد ہیں۔قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑواور فرقہ واریت میں نہ پڑو۔اسلام امن و محبت کا دین ہے،جس سے خیر کا کام لینا چاہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔جو لوگ دین میں فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ جس میں تقویٰ زیادہ ہے اللہ کے ہاں اس کابلند مقام ہے۔قرآنی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ میں ہی فلاح ہے۔اسلام امن و محبت کا دین ہے۔اس امت کو اللہ نے بہترین امت بنایا ہے۔خدائی وحدانیت پر یقین ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ قیامت کے روز حدیث سے محبت کرنے والوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے ۔

اس وقت عالم اسلام پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور عالم اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے۔ دینی مدارس خیر کا سبب ہیں اور دین کی تعلیم پہنچانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں۔دہشت گردی معاشرے اور ملک کو اقتصادی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔لہٰذا آج تمام مسلمان مل کر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری زندگی کی بنیاد اور ترقی کا دارومدار قرآن و سنت پر ہے اور قرآن و سنت ہمیں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کے ذریعے ملےہیں۔اگر صحابہؓ پر اعتماد ختم ہو گیا تو سارا دین مجروح ہو جائے گا۔

اس لئے ہمارے نبی ﷺ اور صحابہؓ کے درمیان رشتوں کو کاٹنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان رشتوں کو ہم نے مضبوط بنانا ہے۔انہوںنے اس وقت بہت سی دعائیں بھی مانگیں جس میں ایک خواہش یہ بھی تھی کہ یا اللہ وہ وقت جلد لا کہ ہم سب بیت ا لمقدس میں نماز اداکرسکیں۔ انہوں نے فلسطین، کشمیر، عراق ،شام، ارکان ،افغانستان میں مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی دعائیں کیں۔بلاشبہ، امام کعبہ شیخ صالح آل طالب کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اک نئی روح پھونکنے کا باعث بنے گا۔ امام کعبہ کی وسعت نظری ،عالمی حالات سے آگاہی ،مختلف ممالک کی داخلہ و خارجہ پالیسی سے واقفیت اور ان پرمہارت کی وجہ سے انہوں نے بہت سی منفی قوتوں کی طرف مخصوص انداز میں شر کو پھیلانے کی کوشش کو بڑے حکیمانہ انداز و استدلال سے ناکام بنایا۔

امام کعبہ نے جس اسلوب سے حرمین سے عقیدت و محبت کا اظہار اور دفاع حرمین کی خاطر والہانہ انداز میں اپنی جانیں تک قربان کرنے کا عہد کیا ،واقعتاً اس کی نظیر نہیں ملتی۔فرزندان اسلام نے دل کی گہرائیوں سے انہیں اہلاو سہلا ومرحبا کہا ، امام محترم کی آمد سے پاکستانی فضا ء معطرو منور ہے ۔

 وطن کی فضائوں میںاتحاد و یگانگت،امن و سکون کی باد نسیم چل رہی ہے۔ دین سے محبت رکھنے والوں کے چہرے امام محترم کی آمدکے باعث کھل اٹھے ہیں۔ امام حرم کی آمد سے قرآن وسنت کے حاملین کو نئی تقویت اور حوصلہ ملا ہے، مدارس و مکاتب کے طلباء، ائمۂ کرام اورخواص و عوام میں جذبہ عقیدت کو نئی جلا ملی ہے۔ منفی قوتوں کے عزائم اسی وقت خاک میں مل گئے ،جب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے حرمین شریفین کے دفاع اور سعودی عرب کی سالمیت کی خاطر اسلامی عسکری اتحاد میں شامل ہو کر مثالی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام استعماری قوتوں کو یہ پیغام دیا ’’سعودی عرب کی سالمیت پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تصور کیا جائے گا‘‘۔

آج کے تاریخی جمعہ کے اجتماع میں امام صاحب بھی اتحاد امت کا درس دیں گے۔ عالم اسلام کے مسائل اور ان کا حل پیش کریں گے۔ مرکزی ناظم اعلیٰ سینیٹر حافظ عبدالکریم اور ناظم کانفرنس مولانا عبدالرشید حجازی کی سرکردگی میں فقید المثال کانفرنس قوم کے لیے نئی امید پیدا کرے گی۔ فرقہ واریت شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرے گی۔ 

حافظ عبدالکریم کا کہنا تھا کہ ملک جن نازک حالات سے گزر رہا ہے، اس میں تمام پاکستانیوں کو متحد ہونا ہو گا۔ عالم اسلام کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ اس کانفرنس میں شرکا اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔ شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے فرزندان حافظ ابتسام الٰہی ظہیر‘ حافظ معتصم الٰہی ظہیر اور حافظ ہشام الٰہی ظہیر بھی کانفرنس میں شریک ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین