• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مختصر پُر اثر

ایمان کی نشانی

رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہیں نیکی کرکے خوشی محسوس ہو اور گناہ سرزدہوجانے پر ندامت ہو تو یہ تمہارے مومن ہونے کی نشانی ہے‘‘۔

(مسند احمد)

خواتین کا مقام اور ان کے حقوق کا تحفظ

ارشادِ ربانی ہے: ’’اے لوگو، ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا،پھر مختلف گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کردیا، تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘۔ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں کی نسل سے مَردوں، عورتوں کی ایک بڑی تعداد دنیا میں پھیلا دی‘‘۔(سورۃ النساء)

احترام انسانیت اور انسانی حقوق کے مثالی چارٹر خطبۂ حجۃ الوداع میں محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔‘‘اسلام سے قبل، جاہلی معاشرے میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اس لیے کہ لڑکے حالتِ جنگ میں قبیلے کی طرف سے جنگ کا ہراول دستہ ثابت ہوتے اور مدافعت کرتے تھے، جب کہ لڑکیاں اپنی مدافعت کے لیے بھی بھائیوں کی محتاج تھیں،چہ جائیکہ وہ قبیلے کی مدافعت اور حالتِ جنگ میں مدد گار ثابت ہوتیں۔چناںچہ عہدِ جاہلیت میں لڑکیاں مرد کے لیے جنگی نقطۂ نظر سے ایک بہت بڑا بوجھ سمجھی جاتی تھیں۔ جب کہ مالی میراث کے بارے میں عرب اہل جاہلیت کا یہ نظریہ تھا کہ جائیداد کا وارث اور حق دار صرف اور صرف مرد ہے۔ اس لیے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوتا، اسلحہ اٹھاتا اور جنگ کرتا ہے ،جب کہ عورتیں ان صفات سے محروم ہیں، لہٰذا وہ وارث بننے یا ورثہ کی حقدار نہیں ہوسکتیں۔پھر اسلام کا عظیم الشان دور آیا،جو سسکتی انسانیت کے لئے مسیحا ثابت ہوا، مرد و زن کو اس مثالی دین نے وہ احکام اور تعلیمات دیں جو دونوں کی جسمانی اورحیاتیاتی سانچوں کے عین مطابق ہیں۔

عورت کو آدھی دنیا کہاگیا، اور کہاجاتا ہے، اس لئے اسے کسی بھی سماج کے لیے نظر انداز کرنا آسان نہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت انسانی حیات کی گاڑی کا لازمی پہیہ ہے، لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ آدھی دنیا ہونے کے باوجود اسے وہ اہمیت و حیثیت نہیں دی گئی، جس کی واقعتاً وہ مستحق تھی، جس طرح قدیم تہذیب و تمدن (یعنی اسلام کی آمد سے قبل) نے عورت کے وقار کو تباہ کیا،اسی طرح جدید تہذیب نے بھی اسے شو پیس بنایا، اشتہاری مہم میں استعمال تو کیا ،لیکن اسے عزت نہیں بخشی ۔آج یورپ حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا علم بردار بنا ہوا ہے، حقیقت میں انہوں نے عورت کو معاشرے میں اُس کا جائز مقام دلوانے کے بجائے اُسے انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا ،جب کہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپﷺ کی آمد سے پہلے عورت معاشرے کا ایک انتہائی پسماندہ اور محکوم طبقہ سمجھی جاتی تھی، اُسے معاشرے میں کوئی عزت اور مقام حاصل نہیں تھا، لیکن اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ عورت کو معاشرے میں نہ صرف جینے کا حق دیا، بلکہ اُسے اُس کا جائز مقام دلوایا اور مردوں پر عورتوں کے متعدد حقوق عائد کیے ۔چناںچہ اسلام نے ماں کے روپ میں عورت کا درجہ اس طور پر بلند کیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت قرار دی ،اس کے ساتھ ساتھ باپ کے مقابلے میں ماں کا درجہ تین درجے بلند کیا۔ماں کے حق کے حوالے سے تفسیرابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے ہوئے طواف کررہا تھا، اس نے حضور اقدس ﷺسے عرض کیا کہ کیا میں نے اس طرح خدمت کرتے ہوئے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ایک سانس کا حق بھی ادا نہیں ہوا۔اسی طرح اسلام نے عورت کو بیوی کا درجہ دے کر اس قدر اُس کی شان بڑھائی کہ اللہ رب العزت نے اپنی کتاب مبین میں عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’اور عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر ویسا ہی حق ہے جیسے مردوں کا عورتوں پر حق ہے اور مردوں کو اُن پر ایک منزلت حاصل ہے اور یہ منزلت اللہ رب العزت نے مردوں کو عورتوں پر اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ عورتوں کی نگرانی،اُن کی نگہبانی اور اُن کے نان نفقے کی ذمے داری بہتر طور پر انجام دیں۔‘‘(سورۃ البقرہ)جب کہ اللہ کے رسول ﷺنے عورتوں کے ساتھ متعدد موقعوں پر اچھے برتاؤ کی تلقین کی ہے ۔جامع ترمذی میں آپﷺ کا ارشاد ہے:’’ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ معاملات میں اچھے ہیں‘‘ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺنے عورت کو ،ماں،بہن ،بیوی اور بیٹی کے روپ میں اعلیٰ مقام دیا،بیٹی کی پرورش کرنے اور بلوغت کے بعد اُن کی رخصتی کردینے کی صورت میں جنت میں ساتھ رہنے کی ضمانت عطا فرمائی ،چناںچہ بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس نے دو یا تین بیٹیوں کی یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی اور وہ اُن کی ذمے داریوں کو نبھاتا رہا، یہاں تک کہ وہ اُس سے شادی کردینے کی صورت میں یا فوت ہوجانے کی صورت میں جداہوئیں تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح میری یہ دو انگلیاں،آپ ﷺنے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں نبی کریم ﷺ کے حوالے سے ایک روایت اس طور پر نقل کی گئی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کی ذمے داریوں کے ذریعے آزمایا گیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہوا تو یہ لڑکیاں اُس کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین