• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر محب وطن پاکستانی کے لئےیہ امر باعث تشویش ہونا چاہئے کہ موجودہ مالی سال میں (i) معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بجٹ خسارے، مجموعی سرمایہ کاری اور برآمدات کے اہداف ایک مرتبہ پھر حاصل نہ ہوسکیں گے۔ (ii) برآمدات ہدف سے تقریباً 11 ارب ڈالر کم رہیں گی۔ (iii) تجارتی خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رہے گا۔ (iv) جی ڈی پی کے تناسب سے جاری حسابات کا خسارہ گزشتہ 8برسوں میں سب سے زیادہ رہے گا۔ (v) 2017 میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں ہونے والا اضافہ آزادی کے بعد کسی بھی سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ تھا جبکہ اگلے تین ماہ سے بھی کم عرصے میں حکومت کو بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے حاصل کرنا پڑیں گے۔ (vi) 31 اکتوبر 2016ء کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 18.9ارب ڈالر تھا جو 23 فروری 2018ء کو کم ہوکر 12.3؍ارب ڈالر رہ گئے یعنی 6.6؍ارب ڈالر کی کمی۔
پاکستان کا بیرونی شعبہ خصوصی طور پر 2016-17ء سے بحران کا شکار ہے۔ مالی سال 2015-16ء میں جاری حسابات کا خسارہ 4.9ارب ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 1.7فیصد تھا۔ مالی سال 2017-18ء میں یہ خسارہ 16؍ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا یعنی جی ڈی پی کا تقریباً 5فیصد۔ اس خسارے میں زبردست اضافے کی اہم ترین وجہ برآمدات کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ معیشت کی پریشان کن کارکردگی بشمول برآمدات کے گرتے رہنے کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور اس میں استعماری طاقتوں کے ناجائز مفادات کے تحت آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ چند حقائق نذر قارئین ہیں:۔
1۔ موجودہ حکومت نے ستمبر 2013میں امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف سے جو قرضہ حاصل کیا تھا اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ تین برسوں تک بجلی و گیس کے نرخ بڑھائے جائیں گے۔ اس شرط کو چاروں صوبوں کی مکمل عملی حمایت حاصل تھی کیونکہ نہ صرف وفاق بلکہ چاروں صوبے بھی ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے انتخابی منشور میں خصوصی طور پر وعدہ کیا گیا تھا کہ غیر منقولہ جائیداد کے ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لائے جائیں گے لیکن اس عزم سے انحراف کیا جارہا ہے۔ وطن عزیز میں جائیداد کی خریداری کو لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بنادیا گیا ہے جس سے قومی خزانے کو کئی سو ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوہا ہے۔
2۔ برآمدات کو گرنے دینے اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق iii(4) کی مدد سے ترسیلات میں اضافہ کرنے کی پالیسی تباہ کن ہے۔ یہ شق اینٹی منی لانڈرنگ کی کوششوں کو غیر موثر کررہی ہے۔ مالی سال 2011ء اور 2017ء کے درمیان پاکستان آنے والی ترسیلات میں 8.1ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ اسی مدت میں پاکستانی برآمدات میں 4.7ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ برآمدات میں کمی کی وجوہات میں وفاق اور چاروں صوبوں کی جانب سے ٹیکسوں کی کم وصولی کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بجلی و گیس بشمول پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ کرتے چلے جانا شامل ہیں جبکہ ترسیلات کا ایک حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق IIIC4کی مدد سے حاصل ہورہا ہے جس سے قومی خزانے کو کئی ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔
3۔ آئی ایم ایف نے استعماری مفادات کے تحفظ اور پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئےمشورہ دیا تھا کہ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وفاق سے جو رقوم ملتی ہیں وہ ان رقوم کو پوری طرح خرچ نہ کریں تاکہ بجٹ خسارے کو کنٹرول کیا جاسکے۔ طاقتور طبقوں سے ایمانداری سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے چاروں صوبوں نے یہ تجویز باخوشی منظور کرلی چنانچہ مالی سال 2011ء سے مالی سال 2017ء تک صوبوں نے مجموعی طور پر 624؍ ارب روپے فاضل دکھلائے۔
4۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کے دائرہ اختیار میں آگئے ہیں۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء سے مکمل انحراف کرتے ہوئے چاروں صوبوں نے 2015ء سے اب تک تعلیم کی مد میں تقریباً چار ہزار ارب روپے کم مختص کئےہیں۔ آج کل آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا بڑا چرچا ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ وطن عزیز میں 2050ء تک بھی تعلیم کے ضمن میں آئین کےشق 25(الف) پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ کچھ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب یہ ازحد ضروری ہے کہ حکومتی شعبے کی یونیورسٹیوں کے چانسلر سربراہ مملکت یا صوبوں کے سربراہ نہ ہوں بلکہ چانسلر صاحبان کو ماہرین تعلیم میں سے منتخب کیا جائے اور ان اداروں کے سنڈیکیٹ کے ممبران کی نامزدگیاں میرٹ پر کی جائیں۔
پاکستانی معیشت کے شعبے میں جو خرابیاں ہیں ان میں سے کچھ اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے حالیہ اجلاس میں جس امریکی قرار داد کی منظوری دی ہے اس کے تحت پاکستان خواہ کتنی ہی اصلاحات کرے مگر وہ جون 2018ء میں بلیک لسٹ میں تو نہیں مگر گرے لسٹ میں یقیناً آجائے گا۔ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ضمن میں پاکستان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں سے کچھ بحرحال افواج پاکستان کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ہم ان ہی کالموں میں تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کو عالمی سطح پر یہ بات دہراتے رہنا چاہئے کہ اول پاکستان میں 27لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں سے کچھ بہرحال دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں اور دوم طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی مگر افغانستان پر امریکی قبضے کے کچھ عرصے بعد سے پوست کی کاشت بڑے پیمانے پر دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور اس سے حاصل شدہ رقوم ناصرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی دہشت گردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہورہی ہیں کیونکہ امریکہ نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں دلچسپی نہیں لی۔ ہم یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ہمارا نیشنل ایکشن پلان نامکمل ہے چنانچہ اس میں اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کے اقدامات بھی شامل کئے جائیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اگست 2017ء کے پاکستان مخالف بیان کے بعد ہمارے سیاست دانوں اور ریاست کے کچھ اداروں نے بھی اپنے بیانات اور اقدامات سے ملک کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس خطرے کا ادراک کرنا ہوگا کہ استعماری طاقتیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی وغیرہ کے الزامات لگا کر آنے والے برسوں میں پاکستان کے خلاف مزید اقدامات اٹھا سکتی ہیں اور ہماری معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاکستان سے لوٹ کر جو دولت ملک سے باہر منتقل کی گئی ہے اگر اس کو قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تو وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی نظر میں قابل گرفت ہوسکتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ان خطرات سے محفوظ رہنے، دہشت گردی کی جنگ جیتنے اور سی پیک کو گیم چینجر بنانے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کو آل پارٹیز کانفرنس کی منظوری سے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین