• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اینکرپرسن اورنہال ہاشمی کے جوابات مسترد، معافی نہیں ملے گی، سپریم کورٹ

اینکرپرسن اورنہال ہاشمی کے جوابات مسترد، معافی نہیں ملے گی، سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ/جنگ نیوز) عدالت عظمیٰ نے زینب قتل کیس سے متعلق ٹیلی ویژن چینل کے اینکر پرسن کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کی جانب سے معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کو آگے چلانے اور ٹیلیویژن چینل کے خلاف کارروائی کے لئے اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیٹری اتھارٹی کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔ ادھرسپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن)کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کیخلاف توہین عدالت کے دوسرے مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کوغیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ دونوں مقدمات میں عدالت عظمیٰ نے ملزمان کو کہا ہے انہیں معافی نہیں ملے گی۔ زینب قتل کیس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی ہے،معافی کا وقت گزر گیا ہے اب اینکر پرسن کو قانون کے مطابق سزا ہو گی ،یہ توہین عدالت ہی کے مترادف ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز ضلع قصور (پنجاب ) کے علاقہ میں زینب نامی کم سن بچی کے اغواء کے بعد اس کے ریپ اور قتل کے المناک واقعہ کے حوالے سے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے مقدمہ کے مجرم عمران کا تعلق معصوم بچوں کی عریاں فلمیں بنانے اور اسے انٹر نیٹ پر چڑھانے والے عالمی مافیا سے جوڑنے اور ملزم کے بیسیوں ملکی و غیر ملکی بنک اکائونٹس کی جعلی ،بے بنیاد اور جھوٹی کہانی نشر کرنے اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اس پر از خود نوٹس لینے کی استدعا کرنے کے حوالے سے جے آئی ٹی کی انکوائری رپور ٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی تواینکر پرسن کے وکیل، شاہ خاور نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے اس سے قبل جو تحریری جواب جمع کروایا تھا ،اس میں معذرت اور افسوس والا پیراگراف غلطی سے پرنٹ نہیں ہو سکا تھا ،جس کے بعد ہم نے نیا تحریری جواب جمع کروادیا ہے ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کوئی پیراگراف تھا ہی نہیں، آپ نے بعد میں شامل کیا ہے۔انہوں نے فاضل وکیل کو نئے جواب میں شامل کیے گئے پیراگراف کو پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوں نے متعلقہ حصے کو باآواز بلند پڑھا ʼʼ پروگرام میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ وقتی ابال کا نتیجہ اور اچانک تھالیکن وہ بات نیک نیتی کے ساتھ کی گئی تھی۔ اس معزز عدالت اور لوگوں کو اس سے جو تکلیف پہنچی ہے اس کیلئے معذرت خواہ ہوں اور مجھے بہت ا فسوس ہےʼʼ ایڈیشنل ایڈوو کیٹ جنرل پنجاب، عاصمہ حامد نے کہا کہ ٹی وی پروگر ا م کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں، اس طرح کی گفتگو اور بے بنیاد بات کرکے عدالت میں اس کو صرف افسوس ناک کہہ دینے پر بھی افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس پر اینکر پرسن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ معافی تو انہوں نے اب بھی مانگی ہی نہیں ہے۔ جس پر شاہ خاور نے کہا کہ اینکر پرسن گزشتہ سماعت پر معافی مانگ چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں، معافی کا وقت نکل گیا ہے اور ہم اس جواب کو بھی مسترد کرتے ہیں، پیمرا والے اسٹڈی کر کے آئیں کہ اینکر پرسن کے خلاف کس قانون کے تحت کیا کیاکارروائی کی جا سکتی ہے؟ اور ان پر کتنے عرصہ کے لئے شو کرنے پرپابندی عائد کی جا سکتی ہے اور چینل کوکتنے عرصہ کیلئے بند کیا جا سکتا ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ انہیں قانون کے مطابق ہی سزا دی جائے گی، یہ عدالتی توہین بھی ہے، عدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہ کی جائے، سینئر صحافی ہے جوکہ میڈیا پر سچ بات کرتا ہے، ان سے غلطی ہوگئی ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اینکر پرسن کے الزامات کی وجہ سے زینب قتل کی تحقیقات 48 گھنٹے کے لیے ر ک گئی تھی۔ فاضل وکیل نے عدالت سے معاملہ کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کی جانب نہ لے جانے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے جواب کا جائزہ لیکر قانون کے مطابق کارروائی کر یں گے،ابھی تو اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ان کے چینل کی کیا ذمہ داری بنتی تھی ؟ دوران سماعت چیف جسٹس نے اینکر پرسن کو کہا کہ آپ نے تو اپنے پروگرام میں منتیں کی تھیں کہ از خود نوٹس لیں، آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر معلومات غلط ثابت ہوں تو مجھے پھانسی پر لٹکا دیں، ہم آپ کا پروگرام کمرہ عدالت میں ملٹی میڈیا سسٹم پر دکھائیں گے، آپ نے تو اور بھی بہت کچھ کہا تھا، آج بھی معافی نہیں مانگی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو تو عدالت سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہئے تھی،جس پر شاہ خاور نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس نہیں ہے ،ورنہ غیرمشروط معافی مانگ لیتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کی بات کی جائے ،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کوئی جرم نہ ہوا ہو؟ ہم تو ممکنات کی بات کر رہے ہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اس طرح تو کل کسی بھی صحافی پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی جا سکیں گی۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بنتی ہو تو لگ جائے، ہم نے تو انصاف کرنا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اینکر پرسن کو کسی حد تک تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا موقف بھی سنیں گے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ ایسی صورتحال میں پیمرا کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوام کے جاننے کے حق اور اظہار رائے کی آزادی کو بھی دیکھنا ہے، یہ معاملہ صرف سزا جزا کا ہی نہیں بلکہ قانون کی تشریح کا بھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں اچھا فیصلہ آئے گا۔بعد ازاں فاضل عدالت نے سینیئر وکیل فیصل صدیقی کو امائیکس کیو رائے مقرر کر دیا جبکہ اینکر پرسن کے جواب کی نقول اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی فراہم کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کردی۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے مسلم لیگ (ن)کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کیخلاف توہین عدالت کے دوسرے مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کوغیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ دورا ن سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں تو ایک بار پھر پروجیکٹر پر کلپ کو دیکھ لیتے ہیں ، آپ کے الفاظ کی تشریح کا جائزہ لیں گے ، آپ نے بے غیرت کہا ، آپ اب بھی کسی زعم میں ہیں۔ اپنی حد میں رہیں،مثالی فیصلے دینگے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو نہال ہاشمی بغیر وکیل کے ہی حاضر ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ انہوں نے نوٹس پر اپنا جواب جمع کرادیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں جواب پڑھنے کیلئے کہا، تو انہوں نے جواب پڑھتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا ، شفاف ٹرائل میرا حق ہے، میں نے مظلوم قیدیوں کی آواز اٹھائی تھی ، جیل میں بند قیدی اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں ، انہوں نے سوال کیا کہ کیا مظلوم قیدیوں کی آواز اٹھانا گناہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ عدالت کیلئے جان بھی حاضر ہے، ہر آدمی سے غلطی ہوجاتی ہے،تاہم عدالت نے ان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے آپ کیخلاف جس پر نہال ہاشمی نے کہا کہ انہوں نے عدالت کے بارے میں کسی قسم کے بھی تضحیک آمیز الفاظ نہیں بولے ہیں ،انہوں نے کہا کہ قرآن پاک بھی عدل کرنے کا حکم دیتا ہے، میں کبھی اپنی اولاد کیلئے بھی جیل نہیں گیا لیکن اسی عدالت کے ججوں کی بحالی کیلئے جیل گیا تھا ،کبھی وقت آیا توعدلیہ کیلئے اپنی جان بھی دے دونگا،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کب تک ہم آپ کے اس احسان کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے، آپ نے بے غیرت کا لفظ استعمال کیا ہے ،جس پر انہوں نے کہا کہ میں نے وہ لفظ آپ کیلئے استعمال نہیں کیا تھا، نہال ہاشمی نے کہا کہ کیا مجھے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے؟سینیٹر شپ چلی گئی، اب میرے پاس کیا بچا ہے؟جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی تضحیک کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انشا اللہ مثالی فیصلے ہوں گے۔بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالاحکم جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی،مقدمہ کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ وہ سب قیدیوں کی زبان کی باتیں تھیں، میں نے اپنے طور پرکچھ بھی نہیں کہا ، میری معافی کو قبول کیا جانا چاہیے۔

تازہ ترین