• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ووٹ کو عزت دو‘‘،نعرہ مقبول ضرور، لواحقین منتظمین کو بھگتنا ہو گا۔ عجب زمانہ، جو ضمیر کا سودا کرے، وہ محب وطن اور جو ضمیر کی سرگوشی سنے، وہ غدار وطن۔ بحران اتنا شدید، سپریم کورٹ اپنے روٹین کے کیس چھوڑ کر، سیاسی کیسوں کو اوڑھنا بچھونا بنا چکی ہے۔ اگلے الیکشن میں سیاسی اور غیرسیاسی پارٹیاں تن من دھن سے متحرک، ہر پارٹی اپنا موثر رول ادا کرنے کو تڑپ رہی ہے۔ ہم22 کروڑ عوام الناس جاہل، غیرمہذب، دریدہ دہن، باطنی ظاہری امور سے بے خبر کہ ہم ٹھہرے ’’سویلین‘‘ ۔ اس کی جو بھی تعبیر، تفہیم، تشریح، توجیح، صراحت فرمائیں، من و عن ہمارے پر فٹ بیٹھتی ہے۔ ہماری سیاست، عدالتیں، سویلین ادارے، مرتبے، درجات، روایات، اقدار، سادگی و بزرگی سب کچھ اصطلاح ’’سویلین‘‘ کی زد میں متزلزل، سراسیمہ، وحشت زدہ ہے۔
عرصے سے وطن عزیز کو ڈوبتا دیکھ رہا ہوں۔ امریکہ نامی درندہ ظلم، بربریت، سفاکی، درندگی کے پہاڑ ڈھانے کو۔ امریکہ کا ہمرکاب بھارت، دو اطراف سے ہم پر نظریں گاڑے وطن عزیز میں خانہ جنگی، انارکی، انتشار کے منتظر ہیں۔11 ستمبر2001 کے بعد امریکہ ایک ہی مقصد لے کر افغانستان میں وارد ہوا، پاکستان کو تتربتر کرکے افواج پاکستان کو کمزور کرنا، ایٹمی ہتھیار غیر موثر بنانا، بذریعہ انارکی، افراتفری، انتشار، چین اور روس کے لئے ناقابل استعمال بنانا ہے۔ ہمارے سیکورٹی ادارے بخوبی آگاہ پھر تغافل تساہل کیوں اور کیسا؟ ہمارے بالادست اداروں نے بلوچستان حکومت کو 48گھنٹے میں منہدم کرکے500 ووٹ نقد پر اپنی پارٹی کا اکلوتا منتخب ایم پی اے قدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنا ڈالا، کرتب ہی سمجھیں۔ مزید خیرہ کن، کہیں بڑی جادوگری سینیٹ انتخابات اور چیئرمین کےچنائو میں دیکھنے کو ملی۔ بڑی سیاسی شناخت سے محروم میر صادق سنجرانی ایک آزاد امیدوار کی دہلیز پر دو بڑے متکبر سیاسی مہروں عمران زرداری سے پورا ماتھا رگڑوایا گیا۔ بھائی بھائی گٹھ جوڑ باجماعت توثیق تائید کرنے پر مجبور تھا۔ بالادستوں کا ایک اشارہ ’’ہو جاؤ‘‘ بس ’’ہوگئی‘‘۔ یہ سب کچھ دیدہ دلیری سے دن دہاڑے قوم کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ وطن عزیز عجیب ہنگامی صورت حال سے دوچار ہے، ملک کے اندر شریف خاندان جیسے عفریت، بے ہنگم، عجیب الخلقت کرپٹ نمونوں کی بیخ کنی کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، عام کیا جا رہا ہے،’’ایسوں سے چھٹکارہ حاصل ہوگا تو ریاست کو درپیش خطرات سے بچانا ممکن ہو گا‘‘۔
نواز شریف سیکورٹی رسک، نشاندہی2014میں ہوگئی، تدبیریں کارگر نہیں بیٹھ رہیں۔ 2014میں زرداری اور ایم کیو ایم ساتھ دیتے تو نواز شریف کا تیاپانچا بائیں ہاتھ کا کھیل رہنا تھا۔ دونوں نے دھرنے میں 26اور27 اگست2014 کو بیٹھنے کا وعدہ کیا، مکر گئے۔ کڑی سزا کے حقدار ٹھہرے، آنے والے دنوں میں طاقت نے کراچی ڈیرے ڈال لئے۔ ایم کیو ایم کی وجہ، وجود اور شہرت30سال سے فاشسٹ پارٹی کی۔ سیاست قتل و غارت، بھتہ، لوٹ مار، دھونس دھاندلی کا عوامی سپورٹ سے گٹھ جوڑ، طرہ امتیاز تھا۔ گاہے گاہے اسٹیبلشمنٹ کا لاڈ پیار بھی شامل حال رہا۔ ایک گستاخی پر، آج جان کی اماں نہیں، باجا بج چکا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ’’نابغہ روزگار‘‘ قائد زرداری کاحال بھی MQMسے مختلف نہ رہا۔ زرداری نے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ جرات مندی سے اداروں کو للکار دیا۔ دو فقروں کی گونج آج بھی کانوں میں، ’’آپ لوگ تین سال کے لئے آتے ہو جبکہ ہمارا قیام مستقل ہے‘‘ مزید ’’پنجاب سے آگے بھی پاکستان ہے جہاں ہمارا سکہ چلتا ہے، ہماری اشیرباد کے بغیر رسائی ممکن نہیں ہوگی‘‘۔ زرداری کی ذومعنی تقاریر شیخ مجیب الرحمٰن یا گاہے بگاہے علیحدگی پسندوں کی پاکستان سالمیت بارے ہرزہ سرائی سے کہیں زیادہ سخت تھیں۔ ایسی سخت کہ نواز شریف نے زرداری سے اپنی طے شدہ ملاقات کینسل کردی۔ افتاد، گرفت لازمی تھی۔ ’’ہوجا ‘‘ کا حکم ہوا، رینجرز نے بروقت اقدامات کر ڈالے۔ عدالتوں نے تعاون کیا۔ بلدیہ کراچی، KDA، سندھ حکومتی ادارے، پولیس ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کا ساتھ چھوڑ گئے، سندھ حکومت ہوا میں معلق نظر آئی۔ زرداری صاحب کے دست راست، فرنٹ مین، ہنٹ مین، سب میں سراسیمگی،کچھ پکڑے گئے، کچھ غائب کر دیئے گئے، اکثریت بھاگنے، چھپنے پرمجبور۔ البتہ زرداری نے دیدہ دلیری سے فرنٹ فٹ سے اٹیک کیا۔ صلواتیں سنائیں مگر فراریت میں ہی عافیت جانی۔ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ جیسے ہی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کھڈے لائن لگیں، دوبارہ ساری توجہ میاں نواز شریف پر مبذول ہوگئی۔ پانامہ لیکس ’’ایکٹ آف گاڈ‘‘ سمجھا گیا۔ نواز شریف کو ٹھکانے لگانا، عمران اورقادری، بارود کے بغیر کارتوس ثابت ہوئے۔ چنانچہ مبینہ کرپشن کنگ، گھناؤنے الزامات کی زد میں پل کر جوان ہونے والے زرداری کے کرتوتوں سے آنکھیں موندھنا پڑیں۔ زرداری صاحب کو عزت و احترام سے واپس لانا پڑا۔ ایان علی سے ڈاکٹر عاصم تک سب باعزت بری، گمشدہ ساتھی اچانک نمودار ہوگئے، بھگوڑا بنانے والوں کو تھوکا چاٹنا پڑا۔
نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی سے ڈھیروں امیدیں وابستہ تھیں، دھچکا لگا کہ ’’سویلین‘‘ خاطر میں نہ لائے۔ NA 120کے ضمنی الیکشن میں نامساعد حالات کے باوجود ن لیگ کو کامیابی ملی۔ پارٹی صدارت وجہ نزاع بن کر سامنے آئی۔ چشم تصور میں معزولی کے بعد پارٹی نے تتربتر ہونا تھا۔ عدالتی فیصلے نے پارلیمانی قانون کے پرخچے اڑائے، آرٹیکل17کو آرٹیکل62/63سے جوڑا، کٹھن فیصلہ کر ڈالا۔ نواز شریف کو بہیمانہ طریقے سے پارٹی صدارت سے حساس موقع اور مخصوص طریقے سے الگ کر دیا گیا۔ پارٹی ٹکٹ جو عدلیہ کے معمولی نوٹ سے واگزار رہنے تھے۔ سینیٹ امیدوار پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیئے گئے کہ مطمح نظر یہی تھا۔ آزاد امیدواروں کو مادر پدر آزادی کا سبق ہی تو ازبر کرانا تھا۔ سینیٹ الیکشن میں تو پھر مخصوص بہتر سوچ سمجھ والے لوگ ووٹ دے رہے تھے ان کو اپنی مرضی کے سینیٹ امیدوار ڈھونڈنے میں دشواری نہ رہی۔ اصل افتاد سرگودھا PP30کے ایم پی اے طاہر سندھو پر پڑی۔ ہفتوں سے ’’شیر‘‘ نشان پر مہم چلائی، پوسٹر، بینرز، ہورڈنگ، اسٹیکرز سب پر’’شیر‘‘ چسپاں۔ جب نشان چھینا گیا تو چند دنوں کے اندر نیا نشان پک اپ(ڈالہ) متعارف کروانا پڑگیا۔ بالادستوں کو یقین کامل تھا، جاہل قوم پڑے لکھے مہذب لوگوں کی دی ترکیب و ترتیب کی بھول بھلیوں میں الجھ جائے گی، ن لیگی امیدوار کو شکست فاش ہوگی۔ برا ہو ’’سویلین‘‘ کا، ’’ڈالہ‘‘ ڈھونڈ نکالا۔ منصوبہ سازوں کو عبرت ناک شکست ملی۔ خاطر جمع، انہی’’سویلین‘‘ نے ہی تو عام انتخابات (اگر ہوئے تو) میں فیصلہ کرنا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی کہ سویلین کو خاطر میں لانا ہوگا وگرنہ تباہی کے گڑھے میں دفن ہو جائو گے۔ سویلین ایک مرتبہ پھر جارحانہ موڈ میں، جسم و جان غصے سے بپھرے، تھرا رہے ہیں۔ سویلین اگر چند دن پہلے دیئے ’’ڈالہ‘‘ نشان کو کروفر سے منتخب کر سکتے ہیں تو نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز کو جیل سے ڈھونڈ نکال، انگوٹھا لگانا، بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بیانیہ کہ نواز شریف اور پاکستان نہیں چل سکتے، سویلین نے یکسر مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ بہت سارے روٹین کام چھوڑ کر اپنے تئیں سیاستدانوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور گوشمالی، توہین عدالت، ترقیاتی فنڈز اور اشتہارات پر گرفت کی ہر قسم کا ہنر آرٹیکل184(3) موجود، خم ٹھونک کر میدان عمل میں ہے۔ انواع و اقسام کے ہزاروں نعرے موجود ایک کا ذکر ضرور، ’’چیف جسٹس بھگوان داس کا ایک دن، سپریم کورٹ کی ساری عمر پر بھاری وحاوی ہے‘‘ سے سبق سیکھنا ہوگا۔ سیاسی بدقسمتی اور ابتری اس سے بدتر کیسے ہوگی۔
رضا ربانی تعلق پیپلزپارٹی سے بطور متفقہ امیدوار سامنے آئے، زرداری کے گناہوں کا بوجھ کہ اپنے امیدوار کی بجائے ایک اشارے پر اپنی پارٹی کا چیئرمین امیدوار کوڑا دان میں ڈال دیا اور ایک آزاد امیدوار کو چیئرمین بنا ڈالا۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر بتایا جائے، متفقہ امیدوار کہاں سے آیا۔ بات سچ مگر رسوائی کی، زرداری بھاری نہیں بھاری کوئی اور ہے اور یہی تو ہے شرمناک، ڈوب مرنے کا مقام ،سن لو، جتنے جتن کر لو، سویلین نے دھتکارنا ہے۔ عمران خان کے بول بچن ملاحظہ، پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنا مشکل، چیئرمین بلوچستان اور ڈپٹی چیئرمین فاٹا سے، کی حمایت کریں گے۔ اپنے ووٹ قدوس بزنجو کے حوالے، ووٹ واپس بھروا لیں مع پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کی حمایت کا اعلان، ہر دن مختلف متضاد بیان۔ اس پر عمران خان کو دوغلا کہنا زیادتی کہ دوغلا ہونے کے لئے اپنی مرضی کا ہونا ضروری ہے۔ اشاروں پر کام کرنے والوں کے پاس دوغلا بننے کی چوائس ہے ہی نہیں۔
منافقت، جھوٹ، ننگ، دغا، سنجرانی کو مبارکباد دے
ڈالی، مانڈوی والا جو تحریک انصاف کے ووٹوں سے منتخب، اس کا نام لبوں سے غائب جیسے نئی نویلی دلہن اپنے سرتاج کا نام لینے سے ہچکچاتی ہے۔ جوڑے آسمان پر بلکہ جنت میں بنتے ہیں۔ عمران زرداری کا جوڑا جنت میں بنا، نکاح کے گواہ خیر سے جید، برگزیدہ فرشتے رہے۔ جب یہ بندوق میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری کے مصداق ریاست اور اس کے ادارے استوار کرنے کا عمل پچھلے 70سال سے جاری ہے۔ لیاقت علی خان سے نواز شریف تک، سب کے سب سویلین، سب کو ٹھکانے لگانا انجام پر پہنچانا فرض منصبی، نبھانا ہے۔ مانا کہ سینیٹ منڈی، سویلین کی دسترس سے بہت دور ،کامیابی ملنا ممکن نہ تھی۔ عام انتخاب اور اس سے پہلے انتخابی مہم۔’’ سویلین‘‘ کی مرغوب من بھاتی فیلڈ ہے۔ آنے والے دنوں میں بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا مگر وطن عزیز متحمل نہیں ہو پائے گا، بات حتمی ہے۔ 1977نہ1999 کہ اس دفعہ امریکہ نئے عزائم، نیو ورلڈ آرڈر کے ساتھ موجود، افواج پاکستان ہی کو تو ملک بچانا ہے کہ ان کا فرض منصبی۔ موجوہ صورت کس طرف لے جا رہی ہے۔ ’’آنے والے کل‘‘ نے حیران رکھنا ہے۔ ساری کامیابیوں اور منصوبہ سازیوں کے مزے کو کرکرا رکھنا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین