محمود میاں نجمی
حصّہ اوّل
امام الانبیاء، سرکارِ دوعالم، شہنشاہِ کون و مکاں، سیّد المرسلین، خاتم النّبیین، رحمتِ دوعالم، حضور نبی کریمﷺ ایک سفر سے تشریف لارہے ہیں۔ آپؐ کے ساتھ ازواجِ مطہراتؓ بھی اونٹوں پر سوار ہیں۔ سہ پہر کی ساعتیں اپنے اختتام پر ہیں اور ابھی طویل سفر باقی ہے۔ دن بھر سخت ترین کرنوں سے تپتی دھوپ بکھیرنے کے بعد سورج مغرب کی جانب گام زن ہے۔ شام کے سائے صحرا کے خاموش ماحول کے حسن کو دوبالا کررہے ہیں۔
صحرائی پرندے بھی اپنے مسکن کی جانب محوِپرواز ہیں۔ ابھی مدینہ دور ہے۔ طویل سفر اور آنے والی تاریک رات کے پیشِ نظر حدی خوانوں نے اونٹوں کی رفتار بڑھادی ہے۔ حضور اکرمﷺ کو جب اونٹوں کی تیز رفتاری کا علم ہوا، تو آپؐ نے حدی خوانوں سے فرمایا ’’اونٹوں کو آرام سے چلائو، ان پر آئینے و آبگینے ہیں۔‘‘ اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کے یہ زرّیں القاب کرئہ ارض کی تمام پاکیزہ بیویوں کے ماتھے کا خوب صورت جھومر بن کر جہاں حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہوگئے، وہیں رہتی دنیا تک کے لیے تمام شوہروں کو بیویوں کی عفّت و عِصمت اور نزاکت و حفاظت کا لافانی پیغام بھی دے گئے۔
صرف یہی نہیں، نبی مکرمؐ نے نیک سیرت بیویوں کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے بڑا خزانہ قرار دیتے ہوئے میاں، بیوی کے رشتے کو دنیا کا سب سے حسین ترین رشتہ بھی قرار دیا۔ بلاشبہ، انسانی رشتوں میں جو رشتہ سب سے پہلے وجود میں آیا، وہ شوہر اور بیوی ہی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی، تو ان کی رفاقت کے لیے امّاں حوّا کو پیدا کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور ان سے ان کی بیوی کو بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کرکے روئے زمین پر پھیلا دیئے۔‘‘ (سورۃالنساء)’’ سورۃ الحجرات‘‘ میں اللہ تعالیٰ، عورتوں اور مَردوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت سے زیادہ طاقت و قوّت عطا فرمائی، تو عورت کو پھول کی طرح نازک، ریشم کی طرح نرم، رنگوں کی طرح خوش نما، حسّاس دل کے ساتھ لطیف و حسین جذبات سے لب ریز، دکھ سکھ کی ساتھی، شریکِ سفر اور پیار و محبت کا خزینہ بنایا۔ ایثار و قربانی، عفوودرگزر، صبر و شکر، مہرووفا، خدمت و اطاعت، فہم و فراست اور نزاکت و نفاست کی دولت سے مالا مال کیا۔ شرم و حیا کو اس کا زیور قرار دیا۔
تعظیم و تکریم، عفّت وحرمت کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ بیوی کو شوہر کے گھر کی ملکہ، اس کی عزّت کا نگہبان بنایا، تو شوہر کو اس کا محافظ و سرپرست مقرر کیا۔ سورۃ البقرہ میں اللہ نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو نہایت خوب صورت الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ ’’عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم عورتوں کا لباس ہو۔‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے بہترین وہ ہیں، جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں۔ ان کے رہن سہن، کھانے پینے، صحت و آرام اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ عفوودرگزر، پیار و محبت اور عزّت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔‘‘حضور اکرمﷺ کی ازواج مطہراتؓ میں عرب کے نام وَر رئیسوں، سرداروں اور مشہور باعزت گھرانوں کی نورِنظر اور لختِ جگر شامل تھیں۔
شہزادیوں کی طرح زندگی بسر کرنے والی ان پاک باز خواتین کے قرب و جوار سے بھی کبھی غربت کے اندھیروں کا گزر نہ ہوا تھا۔ یہ مختلف رنگ و نسل اور قوموں سے تعلق رکھتی تھیں، جن کے رسم و رواج، رہن سہن، عادات و اطوار اور مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ کوئی محبت و شفقت سے لبریز، تو کوئی ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار۔ کوئی سراپا عفوودرگزر، تو کوئی نہایت حلیم الطبع۔ کوئی علم و دانش کی پیکر، تو کوئی حاضر جوابی میں یکتا۔ کوئی ناداروں، غریبوں اور مسکینوں کی ملجاء، تو کوئی حکمت و معاملہ فہمی اور متانت و ذہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ حضور اکرمﷺ اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے ہر رنگ سے بہ خوبی واقف تھے۔ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا۔
’’اے عویش! (آپؐ حضرت عائشہؓ کو پیار سے عویش بھی کہا کرتے تھے) جب تم ناراض ہوتی ہو اور جب خوش ہوتی ہو، تو میں پہچان لیتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہؓ بڑی حیران ہوئیں اور فرمایا۔ ’’یارسول اللہؐ آپ کیسے پہچانتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’جب تم خوش ہوتی ہو، تو لاورب محمد ؐ (یعنی محمد ؐ کے رب کی قسم) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو، تو لاورب ابراہیم ؑ (یعنی ابراہیم ؑ کے رب کی قسم) کہہ کر قسم کھاتی ہو۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے مسکراتے ہوئے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! بے شک آپؐ نے صحیح پہچانا۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت 9؍ازواجؓ حیات تھیں۔ آپؐ تمام کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک روا رکھتے تھے۔ سب کے حجرے علیٰحدہ تھے، ازواجؓ کے پاس جانے کے دن مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل کرتے۔ سفر یا غزوات میں جانے کے لیے قرعہ فرماتے اور جن کا نام آتا، انہیں ساتھ لے جاتے۔ تقاضائے بشریٰ کے پیشِ نظر کبھی ان میں آپس میں معمولی ناراضی بھی ہوجاتی، لیکن سرکارِ دوعالمؐ نہایت حکمت، بردباری، عفوودرگزر سے کام لیتے ہوئے ان کی ناراضیوں اور تلخیوں کو محبت و پیار میں تبدیل کردیا کرتے اور یوں آپ کا یہ مدبّرانہ حسنِ سلوک ان کی اطاعت و فرماں برداری اور محبت و پیار میں مزید اضافے کا باعث بنتا۔
آپؐ نے ازواج مطہراتؓ کے درمیان عدل و انصاف کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی، جس کی وجہ سے ان میں کبھی کسی قسم کے احساسِ محرومی کا شائبہ تک نہ ہوا۔ بیویوں کے ساتھ آقائے دوجہاںؐ کا یہ شان دار، منصفانہ طرزِتعلق اور حسنِ سلوک رہتی دنیا تک شوہروں کے لیے درس ِہدایت ہے۔ حالاں کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پوری دنیا اور خاص طور پر عرب معاشرے میں عورت کو گھر کی باندی، لونڈی، بچّوں کی خادمہ اور نوکرانی سمجھا جاتا تھا کہ جس کی نہ کوئی عزت تھی اور نہ احترام۔ایسے میں اسلام نے بیوی کو عزت و احترام کا خاص مقام عطا کرکے ہر لحاظ سے اس کے حقوق مقرر فرما دیئے، تاکہ اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔
چوں کہ عورت پیدائشی طور پر صنف نازک ہے، لہٰذا شریعت اسلامی نے مرد کو پابند کیا کہ عمدہ اخلاق کے ساتھ اس کی دل جوئی کرتے ہوئے اس کے تمام حقوق کی احسن طریقے سے ادائیگی کرے۔ شریعتِ اسلام کے مطابق، بیویوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق، حقِ مہر ہے۔ جو نکاح کے موقعے پر شوہر کی طرف سے حقوقِ زوجیت کی بناء پر مقرر کیا جاتا ہے۔ مہر، نکاح کی لازمی شرائط میں سے ایک ہے۔
حقِ کفالت: بیوی کے حقوق میں دوسرا اہم حق یہ ہے کہ شوہر اس کی کفالت کرے۔ یعنی بیوی کے تمام ضروری اخراجات مثلاً غذا، لباس، رہایش وغیرہ کو اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرنا شوہر کے فرائض میں شامل ہے۔ شریعت میں بیوی کے ان اخراجات کو’’نان نفقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’خوش حال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق ،اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔‘‘
حضرت حکیم بن معاویہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرمؐ سے دریافت کیا کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’جیسا خود کھائے، ویسا اسے کھلائے۔ جیسا خود پہنے، ویسا اسے پہنائے۔ نہ اسے برابھلا کہے اور نہ اس سے جدا ہو۔‘‘ حجۃ الوداع کے موقعے پر حضورؐ نے عورتوں کے بارے میں نصیحتیں فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ’’ تم پر تمہاری بیویوں کا حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلائو اور اچھا پہنائو۔‘‘
ایک حدیثِ مبارکہ میں آپؐ نے فرمایا ’’جو شخص اپنی بیوی کے نفقہ میں فراخی کرتا ہے، یعنی اس کے اخراجات فراخ دلی اور خوشی سے اٹھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روزغنی کردے گا اور بہشت میں وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی رفاقت میں ہوگا۔‘‘حضرت امام غزالی ؒ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں’’بیوی، بچّوں کی فکر کرنا اور ان کے آرام و راحت کے لیے جدوجہد کرنا، راہِ خدا میں جہاد کے برابر ہے۔
حلال رزق کے لیے جدوجہد کرنا اور دین کی طرف سے ان کی رہنمائی کرنا، ہر شوہر پر فرض ہے۔‘‘حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’تم اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اس کا تمہیں ثواب دیا جائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے، اس کا بھی تمہیں ثواب ملے گا۔‘‘حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’ایک دینار وہ ہے، جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے، جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینا روہ ہے، جسے تم مسکین پر خرچ کرتے ہو اور ان سب میں سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا، جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ (صحیح مسلم)۔ شریعت نے عورت کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شوہر کی غیر موجودگی میں بہ قدرِ ضرورت اس کے مال میں سے لے سکتی ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ہند (حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی) رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! ابو سفیان کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ ان کی اجازت کے بغیر ان کے بچّوں پر صَرف کرلوں، تو کیا مجھے گناہ ملے گا؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’تجھے کوئی گناہ نہیں ہوگا بہ شرط یہ کہ تو ان پر معروف طریقے کے مطابق صَرف کرے۔‘‘ (صحیح مسلم)
شریعتِ اسلامی کی رو سے اہل و عیال کے نان نفقہ اور تمام اخراجات کی ذمّے داری مرد کی ہے۔ اب یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ وہ خواتین، جو ملازمت پیشہ ہیں اور گھریلو اخراجات میں اپنے شوہر کی مدد کررہی ہیں، وہ اس بات کی حق دار ہیں کہ شوہر بھی گھریلو معاملات میں ان کی برابر مدد کریں؟ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین، اس تعفّن زدہ معاشرے میں صبرآزما حالات کے درمیان اپنی ملازمت کے بعد جب شام کو تھکی ہاری گھر واپس آتی ہیں، تو کھانا پکانے سے لے کر گھر، بچّوں اور شوہر کی تمام تر ذمّے داریاں ان ہی کے ناتواں کندھوں پر ہوتی ہیں، یہاں تک کہ شوہر کے کپڑے دھونے سے لے کر بوٹ پالش،اور پھر بچّوں کا ناشتا، تیاری، انہیں اسکول بھیجنا بھی ملازمت پیشہ بیوی اپنے فرائضِ منصبی میں شامل سمجھ کر ادا کرتی ہے،جب کہ شوہرِنامدارآفس سے آکر ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے، فیس بک یا ٹیوٹرپر مصروف رہنے یا پھر دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں وقت گزارتے ہیں۔ یقیناًیہ انتہائی زیادتی کا رویّہ ہے۔
اگر بیوی، معاشی طور پر شوہر کی مدد کررہی ہے، تو پھر ایک اچھے اور نیک شوہر کا فرض ہے کہ وہ تمام خانگی اور گھریلو معاملات میں بیوی کی مکمل مدد کرے۔ اس طرح بیوی کے دل میں شوہرکی عزت و احترام میں اضافہ ہوگا، جو آپس میں محبت و پیار میں اضافے کا باعث بنے گااور یوں دونوں کے باہمی تعاون سے گھریلو ماحول پرامن اور پرسکون ہوگا۔
حسنِ سلوک: ایک روز ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے۔ دیکھا کہ باہر چند حبشی نیزہ بازی کا کھیل دکھا رہے ہیں۔ آپؐ نے امّ المومنین سیّدنا عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا۔ ’’عائشہؓ! کیا کھیل دیکھو گی؟‘‘ حضرت عائشہؓ ابھی کم عمر ہی تو تھیں، بڑی چاہت سے فرمایا۔ ’’جی ہاں، یارسول اللہؐ! ضرور دیکھوں گی۔‘‘ اور پھر سرکارِ دوعالم، شہنشاہِ دوجہاں، اللہ کے محبوب نبیؐ، امام الانبیاء اپنی اہلیہ محترمہ کے شوق کی تکمیل کے لیے چادر کا پردہ کرکے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے کاندھے مبارک پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر دیر تک یہ کھیل دیکھتی رہیں۔ یہاں تک کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھک گئے۔ آپؐ نے دریافت کیا۔ ’’عائشہؓ! اور دیکھو گی یا بس…؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ ’’یارسول اللہؐ ابھی اور دیکھوں گی۔‘‘ جب تک حضرت عائشہؓ کھیل دیکھتی رہیں، آپؐ اسی حالت میں کھڑے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ ’’یارسول اللہؐ! آیئے دوڑنے کا مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے تبسّم فرماتے ہوئے آمادگی کا اظہار کردیا۔
حضرت عائشہؓ کم عمر بھی تھیں اور دبلی پتلی بھی، لہٰذا وہ حضورؐ سے آگے نکل گئیں۔ کچھ عرصے بعد حضرت عائشہؓ نے پھر دوڑ کے مقابلے کی فرمائش کی۔ حضورؐ پھر تیار ہوگئے، لیکن اس مرتبہ حضورؐ جیت گئے اور فرمایا۔ ’’یہ تمہاری ا ُس جیت کا جواب ہے۔‘‘ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ بہترین حسنِ سلوک کے بے شمار واقعات احادیث کی کتب میں درج ہیں،جن میں آپؐ ایک ہم درد، مہربان، نہایت شفیق شوہر، مثالی غم گسار، دل جوئی اور محبت کرنے والے رفیقِ حیات کے طور پر نظر آتے ہیں۔
شریعتِ اسلامی نے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک پر بڑا زور دیا ہے۔ رسول اللہؐ نے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے شوہر کو امّت کا بہترین اور صاحبِ ایمان شخص قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’کامل ایمان والے مومن وہ ہیں کہ جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں، جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں۔‘‘(ترمذی)۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو، اور مَیں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔‘‘ (ترمذی)۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر آپؐ نے شوہروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’لوگو! سنو، اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئو اور ان کے حقوق، دیانت داری کے ساتھ ادا کرو۔‘‘(ترمذی) (جاری ہے)