مولاناسبحان محمود
انسان جب دنیا کی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ہزار ذمے داریوں کا بوجھ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، گویا زندگی کی تعبیر ذمہ داریاں ہی ہیں، اور وہ بھی اس قدر مختلف بلکہ متضاد کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، قرآن کریم میں مختلف آیتوں کے اندر انسان کی ذمہ دارانہ ہستی کو بیان کیا گیا ہے، سورئہ مومنون میں ارشاد فرمایا:’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوںہی بے کار اور مہمل چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
سورئہ قیامہ میں ارشاد ہے:’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوںہی بے کار اور مہمل چھوڑ دیا جائے گا‘‘ اور سورئہ بلد میں فرمایا’’بےشک، ہم نے انسان کو بڑی محنت اور مشقت میں رہنے والا بنایا ہے‘‘۔ ان تمام آیتوں کا حاصل وہی ہے کہ انسان پر بہت واضح انداز میں ذکر فرمایا’’ہم نے بارِ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے روبرو پیش کیا، مگر انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس ذمہ داری سے ڈرگئے ، مگر انسان نے اسے اٹھالیا‘‘ یہاں امانت سے یہی ذمے داریاں اور فرائض مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان پر عائد ہوتے ہیں۔
ہمارے علم کے مطابق اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی اور کوئی ایسی مخلوق نہیں جو ذمے داریوں کا بار اٹھانے اور ان سے بہ حسن و خوبی سبکدوش ہوجانے میں انسان کی ہمسری کرسکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں وہ صلاحیت و استعداد پیدا فرمائی ہے، جس کی بدولت وہ ان ذمہ داریوں کو نہ صرف برداشت کرسکتا ہے، بلکہ احسن طریقے سے انجام بھی دے سکتا ہے۔
ہر انسان پر مختلف اور متضاد ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انفرادی ، خاندانی، معاشرتی، قومی اور ملکی ۔اُن میں سے بعض وہ ہیں جو کسی کے بتائے بغیر معلوم ہیں اور بعض بتانے سے معلوم ہوتی ہیں، ان ذمے داریوں کا معلوم ہونا، پھر بہ حسن و خوبی انہیں انجام دینے کا احساس پیدا ہونا ،پھر صحیح خطوط پر انہیں عملی طور پر بروئے کار لانا منزل تک پہنچنے اور گوہر مراد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے، اگر ذمہ داری کا علم نہ ہو یا علم تو ہو، لیکن اس کا احساس نہ ہو یا یہ بھی ہو ،لیکن عملی قدم نہ اٹھایا جائے تو کامیابی ممکن ہی نہیں۔ اسی لئے اسلام نے ان تینوں پر زور دیا ہے اور ان کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔
اس وقت زیر بحث ایک خاص قسم کی ذمہ داری کا جو آجر اور محنت کش سے متعلق ہے ، قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینا ہے، سورۃ النساء میں ہے:’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت، امانت والوں کو ادا کردو۔
آیت نے نے اصولی طور پر رہنمائی فرمادی، کیوںکہ آجر اور محنت کش کے درمیان جو معاملہ ہوتا ہے، وہ بھی ایک امانت اور ذمہ داری ہے۔ لہٰذا آجرکی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ انہیں بہ حسن و خوبی پورا کرے اور مزدور اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے ادا کرے، نہ کوئی کسی کا حق مارے، نہ ظلم کرے اور نہ کسی کو نقصان پہنچائے۔
قرآن کریم کی اس اصولی ہدایت کی تفصیلات حضور اکرمﷺ نے بیان فرمائی ہیں، چناںچہ آجر کی ذمہ داریوں کو صرف ایک حدیث میں بیان فرمادیا:’’ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے‘‘ اور اس کی اجرت و مزدوری میں ہر وہ حق اور سہولت داخل ہے جو دونوں کے درمیان طے ہوجائے، اب مطلب یہ ہو گا کہ مزدور، خادم اور ملازم کے تمام حقوق وقت پر ادا کرنا آجر اور مالک کی ذمہ داری ہے کہ اس کے اندر کوتاہی خیانت ِ مجرمانہ ہوگی، جس کا لازمی اثر دنیاوی زندگی میں یہ ہوگا کہ معاملات اور کاروبار میں نہ ترقی ہوگی، نہ برکت، اور طبقاتی نفرت قوم کے اندر ظاہر ہونے لگے گی، جس کی نحوست میں پورا معاشرہ مبتلا ہوجائے گا۔ اسی طرح اس خیانت کا نتیجہ آخرت میں بھی ہول ناک صورت میں سامنے آئے گا، شافع محشر، نبی رحمت ﷺ اس کے خلاف بارگاہ رب العزّت میں استغاثہ دائر فرمائیں گے کہ میرے رب! اس خائن کو پوری پوری سزادے۔
جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن میں ایسے شخص کے خلاف کیس دائرکروں گا جس نے مزدور سے کام تو پورا لیا، لیکن پوری اجرت ادا نہیں کی۔(اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے)
اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے اجیر، ملازم اور خادم کی ذمے داریوں کو ایک جملے میں بیان فرمایاکہ ’’الخادم فی مال سیدہ راع و مسئول عن رعیتہ‘‘(بخاری شریف، کتاب الوصایا) یعنی خادم خواہ محنت کش ہو یا ملازم اپنے آقا کے مال اور اس کی طرف سے سپرد کی ہوئی خدمات میں امین اور نگران ہے اور قیامت میں اس سے دریافت کیا جائے گا کہ کتنا حق ادا کیا اور کتنی حق تلفی کی، اگر حق تلفی کی ہے، مثلاً کام آتا ہی نہیں یا کام تو آتا ہے ،لیکن قصداً مالک کو نقصان پہنچاتا ہے یا وقت میں یا کام میں چوری کرتا ہے۔ تو یہ اللہ کے نزدیک خیانت ہے۔ جس کا دنیا میں بدنامی،بے عزتی اور ناکامی کی صورت نتیجہ سامنے آتا ہے۔
ان تعلیمات کی روشنی میں احساسِ ذمے داری کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے ،ہر شعبۂ زندگی میں فرض شناسی اور احساس ذمے داری کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
ظاہر ہے جس معاشرے میں فرض شناسی کا جذبہ مفقود ہوگا اور احساس ذمے داری نہیں ہو گا، وہ ایک کامیاب اور متوازن معاشرہ نہیں کہلا سکتا ۔ہر شعبہ زندگی میں احساس ذمے داری کو اپنانا ایمان اور بندگی کا تقاضا ہے۔
نمازوں کی فرضیت
حضرت عبادہ ابن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے قرض کی ہیں، جو ان کا وضو اچھی طرح کرے اور انہیں ٹھیک وقت پر ادا کرے اور ان کا رکوع وسجود پورا کرے، اس کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ اسے بخش دے اور جو ایسا نہ کرے تو اس کے لیے اللہ کا وعدہ نہیں اگرچا ہے بخشے اور اگر چاہے، اسے عذاب دے۔(مسند احمد، ابو دائود)
قرآن کی پیروی
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، جس نے قرآن سیکھا، پھر اس کی اتباع کی، اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں گمراہی سے بچائے گا اور قیامت کے دن سخت عذاب سے محفوظ رکھے گا، ایک روایت میں ہے کہ جو قرآن کی پیروی کرے گا، وہ دنیا میں گم راہ اور آخرت میں بدبخت نہ ہوگا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی (ترجمہ) جو میری ہدایت کی اتباع کرے، وہ نہ گم راہ ہو اور نہ بدنصیب۔
دین میں آسانی
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین آسان ہے اور کوئی دین کو سخت نہ بنائے گا ،مگر دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا ٹھیک رہو خوش خبریاں دو اور صبح شام اندھیری رات کی نمازوں سے مدد لو۔ (صحیح بخاری)
نمازیوں کے لیے بشارت
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان لوگوں کو قیامت کے دن پوری روشنی کی خوش خبری سنادو، جو اندھیروں میں مسجدوں کو جاتے ہیں۔‘‘
نیکی کی دعوت دینے والا
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، جو ہدایت کی طرف بلائے، اسےتمام عمل کرنے والوں کی طرح ثواب ملے گا اور اس کے اپنے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو گم راہی کی طرف بلائے گا تو اس پر تمام پیروی کرنے والے گمراہوں کے برابر گناہ ہوگا اور یہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ کرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
ریاکار کی تین علامتیں
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ ریاکارکی تین علامتیں ہیں۔ایک تویہ کہ جب وہ اکیلاہوتاہے تواعمالِ صالحہ میں کوتاہی کرتاہےاورنوافل بیٹھ کر پڑھتاہے ہے۔
دوم یہ کہ لوگوں کے ساتھ ہوتاہے توخوب اعمالِ صالحہ کرتاہے ۔سوم یہ کہ جب لوگ تعریف کریںتوخوب عمل کرتاہے، جب بُراکہیں تواس میں کمی کردیتاہے۔(احوال الصادقین صفحہ 19)