• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک تحقیق کے مطابق ’’وفاق المدارس سے 18600 مدارس کا الحاق ہے، تنظیم المدارس کے ساتھ رجسٹر شدہ مدارس 9020 کے قریب ہے۔ رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے زیر اہتمام 1018مدارس چل رہے ہیں،وفاق المدارس السلافیہ کے 1400مدارس فعال ہیں، اہل تشیع کے پاکستان میں کل 460 مدارس ہیں۔ اس فہرست میں منہاج القران اور دارالعلوم بھیرہ شریف کے مدارس نہیںشامل کئے گئے ۔یعنی اکتیس بتیس ہزار کے قریب پاکستان میں رجسٹر ڈمدارس موجود ہیں۔سوچتا ہوں کہ اگرایک مدرسہ میں اوسطاً ایک سو بچے بھی پڑھتے ہوں توان بچوں کی تعداد کسی طرح بھی اکتیس بتیس لاکھ سے کم نہیں بنتی ۔ان مدارس سے ہر سال تقریباًپانچ لاکھ بچے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ۔جنہیں کسی ادارے میں ملازمت نہیں مل سکتی ۔وہ کسی یونیورسٹی کسی کالج کسی اسکول کے طلبا میں اپنا علم تقسیم نہیں کر سکتے ۔وہ سی ایس ایس کر کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہو سکتے ۔کہیں کلرک نہیں لگ سکتے ، وکیل نہیں بن سکتے ، پولیس میں بھرتی نہیں ہو سکتے ۔فوج میں کمیشن نہیں لے سکتے ۔یہ نوجوان ہنر مند بھی نہیں ہوتے کہ کوئی کام کر سکیں ۔غریب والدین کی اولاد ہوتے ہیں ان کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں ہوتا کہ اپنا کوئی کاروبار کر سکیں ۔انہیں صرف مساجد میں امامت کی ملازمت مل سکتی ہے وہ صرف کسی مدرسے میں جا کر پڑھا سکتے ہیں ۔ کسی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دے سکتے ہیں ۔ مفتی بن کر فتوی جاری کر سکتے ہیں ۔مساجد میں امامت کرتے ہوئے بھی اُنہیں کچھ زیادہ رقم نہیں ملتی ۔وہی جو نمازی دیتے ہیں انہیں اُسی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے ۔ خیر اس مسئلے کے حل کےلئے خیبر پختون خواکی حکومت نے ہر امام کو دس ہزار روپے وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حکومت پنجاب کو بھی چاہئے کہ وہ خیبر پختون خوا کی حکومت کے نقش ِ قدم پر چلے ۔بے شک آنکھوں والے ضرور روشنی کے نقشِ کف ِ پا پر چلتے ہیں ۔
اہم ترین سوال یہی ہےکہ مدارس کے طلبا کو کیسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔ مدارس کے پھولوں کو کیسے اِس قابل کیا جائے کہ ان کی تر و تازہ مہکارسے پوری قوم سر شار ہو۔پہلی بار یہ سوال عمران خان نے اٹھایااورکہا ۔’’وقت آگیا ہے کہ تعلیمی نظام میں مدارس کے بچوں کو شامل کیا جائے۔مدارس کی قومی دھارے میں شمولیت انتہائی ضروری ہے ۔‘‘عمران خان نے صرف اعلان نہیں کیا ۔مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے کام کا آغاز بھی کردیا ۔خیبر پختو خوا حکومت نے ا س مدرسے کو ستائیس کروڑ روپے مالی معاونت اشیاء کی شکل میں فراہم کردی ۔اہل مدرسہ نے بھی حکومت کے مشورے سے نصاب میں تبدیلی کی اور اُس میں انگریزی ، کمپیوٹر سائنس،ریاضی اور سوشل سائنسز کے مضامین شامل کر لئے ۔اب اکوڑہ خٹک کے مدرسہ سے صرف مولوی ، مفتی خطیب نہیں نکلیں گے ۔ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین بھی بر آمد ہونگے ۔انگریزی بولنے والے بھی ۔ بیورو کریٹس بھی ۔ڈاکٹر زاور انجینئرز بھی ۔ وہ طالب علم پہلے جن کے پاس صرف مذہبی تعلیم ہوتی تھی اب وہ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ ہو کر میدانِ عمل میں اتریں گے ۔اگر پنجاب اور سندھ کی حکومتیں بھی اکوڑہ خٹک کی طرح ہر مدرسہ میں جدید تعلیم فراہم کردیں تو یقین کیجئے کہ دہشت گردی تو کجا تنگ نظری اور تعصب کے جراثیم سےبھی رفتہ رفتہ تمام مدارس پاک ہو جائیں گے۔ خیبرپختون خوا حکومت سےیہ گزارش بھی ہے کہ وہ اکوڑہ خٹک کی طرح باقی مدارس پر بھی توجہ دے۔ خاص طور پر سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری کے خیبر پختون خوا میں پچاس سے زائد مدارس ہیں اور نور الحق قادری چاہتے ہیں کہ اُن مدارس کو بھی جدید تعلیم سےآراستہ کیا جائے اس سلسلے میں انہوں نے ابتدائی کام شروع کر رکھا ہے ۔
خیبرپختون خواحکومت کے اِ س اچھے عمل کے کے کئی برےمفہوم نکالے گئے حتیٰ کہ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہاں تک کہہ دیا کہ اِس مدرسہ کو اس لئے نوازا گیا کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا تعلق اسی مدرسہ سے تھا ۔حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اپنے دورِ اقتدار میں بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنے کی ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔پرویز رشید کے برعکس نون لیگ سے تعلق رکھنے والےگورنر خیبر پختونخوااقبال ظفر جھگڑا نےاکوڑہ خٹک کے مدرسہ کو فنڈز فراہم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’فنڈز پر تنقید کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کس مد میں دیئے گئے ہیں؟ یہ فنڈز تودہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے دیئے گئے ہیں ‘‘۔اس سلسلےمیں پیپلز پارٹی کے تحفظات بھی سامنے آئے۔ تسلیم کہ کچھ دہشت گردوں کا تعلق مدارس سے رہا ہے مگر کیا ہم اِس جرم میں تمام مدارس بند کر دیں ۔کیا ایک شخص کے جرم کی سزا پورے ادارے کو دی جا سکتی ہے ۔پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں موجود ہزاروں مدارس پر توجہ کیوں نہیں دے رہی ۔کیا وہاں کوئی اور نصاب ِ تعلیم رائج ہے ؟
حال ہی میں لاہور کے ایک مدرسے میں افسوسناک واقعہ پیش آیا شریف خاندان خود اس مدرسے کو مالی معاونت فراہم کرتا رہا ہے ۔مولانا فضل الرحمن خود انہی مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں اور ایسے بے شمار مدارس کے سر پرست ہیں جہاں سے دہشت گرد گرفتار ہو چکے ہیں۔ انہیںتو کبھی دہشت گردوں کا سرپرست نہیں کہا گیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین