• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُستاد بسم اللہ خان

گوگل نے ہماری زندگیوں میں جہاں اور بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں ،وہیں ڈوڈل کے نام سے یاددہانی کا ایک ایسا بٹن بھی تخلیق کیا ہے جسے دباتے ہی ہم کبھی نصرت فتح علی خاں کے سُروں سے جا ملتے ہیں، کبھی مارکیزکی داستانوں میں کھو جاتے ہیں اور کبھی غالب کی شاعرانہ خلائوں میں آباد نئی نئی کائناتوں کی سیر کرنے لگتے ہیں۔آج کہیں دُور سے شہنائی کی آواز سنائی دی ہے تو ساتھ ہی ڈوڈل کی شکل میں اُستادبسم اللہ خان کی تصویربھی اُبھر آئی ہے۔

بسم اللہ خان آج سے 102سال پہلے دومراون ،بنارس میں پیدا ہوئےتھے۔اُن کے والدپیغمبربخش خان اور والدہ مٹھاں نے اُن کانام امیرالدین خان رکھا تھا لیکن دادا نے امیرخان کو بسم اللہ میں بدل دیا اور ہاتھ میں شہنائی تھما دی۔پھر کیا تھا بسم اللہ خان سراپاشہنائی بن گئے اور شہنائی ’رانجھارانجھا کردی نی میں آپے رانجھاہوئی ‘ کے مصداق بسم اللہ خان ہوکر رہ گئی۔بھارت میں وہ روی شنکر اور سبو لکشمی کے بعد تیسرے بڑے موسیقار شمار کیے جاتے تھے۔


بسم اللہ خان کے آباؤ اجداد بھوج پور ضلع بہار کے شاہی دربار میں نقار خانہ میں ملازم بھی تھے۔ان کے والد پیغمبر بخش خان مہاراجہ جودھ پور کے دربار میں شہنائی نواز تھے۔اس سے پہلے ان کےپردادا استاد سالار حسین خان اور دادا رسول بخش خان بھی دومراون کے شاہی دربار میں گوئیے رہ چکے تھے۔بسم اللہ خان نے وہیں سے شہنائی بجانا سیکھی اور اس میں اتنی مہارت حاصل کی کہ آج تک برصغیر میں ان کے پائے کا کوئی شہنائی نواز نہیں گزرا۔

استاد بسم اللہ خان کو گنگا جمنی تہذیب کا ایک اہم ستون تصور کیا جاتا تھا۔جہاں شہنائی روایتی طور پر شادی بیاہ اور مندروں میں عبادت کے وقت بجائی جاتی تھی وہیں استاد بسم اللہ خان نے اسے کلاسیکی موسیقی کی ایک ہیئت کی شکل میں اسے دنیا بھر میں ایک شناخت دلائی۔ انہیں ہندوستان کے سب سے بڑے اعزاز ’بھارت رتن‘سے بھی نوازا گیا تھا۔اتنی شہرت کے باوجود انہوں نے وارانسی میں اپنے چھوٹے سےگھر میں انتہائی سادگی کے ساتھ زندگی گزاری۔

اُستادبسم اللہ خان ہندوستان میں شہنائی کی تعلیم اور اِس کے فروغ کے لیے فردِ واحد کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اُنہوں نے شہنائی کو تھیٹر میں پردے کے پیچھے سے اٹھا کر منظر عام پر لانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ شہنائی کو ہندوستان سے باہر یورپ تک پہنچانے کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ صرف اور صرف بسم اللہ خان ہیں۔ بیوی کے انتقال کے بعد وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ شہنائی ہی اُن کی بیوی ہے ۔وہ ہندومسلم بھائی چارے کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اُستاد بسم اللہ خان فضائی سفر سے ڈرتے تھے۔1966ء میں جب انہوں نے ایڈن برگ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی حامی بھری تو ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ وہ ایڈن برگ جانے سے پہلے مکہ اور مدینہ جائیں گے۔بسم اللہ خان کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ انہوں نے 1947ءمیں بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر شہنائی بجائی تھی۔مشہورہندی فلم ’’گونج اُٹھی شہنائی‘‘میں گونجنے والی شہنائی بھی بسم اللہ خان ہی کی تھی۔ ان کی زندگی اور فن کے حوالے سے ’’سنگِ میل سے ملاقات‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بھی بن چکی ہے۔

اُستادکی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کھانے میں صرف دال چاول پسند کرتے تھے۔زیادہ تر پیدل چلتے،کہیں دُور جانا ہو تو سائیکل رکشہ استعمال کرتےتھے۔انہوں نے نوے سال کی طویل عمر پائی۔2006ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی شہنائی بھی فاطمین قبرستان میںنیم کے درخت کے زیرِ سایہ اُن کے ساتھ دفن کی گئی۔ان کی زندگی پر کئی ایک کتابیں لکھی گئیں جن میں ’’بسم اللہ خان اور بنارس‘‘ بہت مشہور ہوئی۔

تازہ ترین