میں نے بہت سے دوست بنائے ،
کچھ بہت خاص ، کچھ بہت پیارے۔
کچھ سے تو مجھے محبت بہت تھی ،
کچھ ملک چھوڑ گئے ، تو کسی نے گھر بدل لیا،
کسی نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کسی کو میں نے ․․․․
کچھ دوستوں سے رابطہ ہے ، کچھ سے نہیں ۔
کوئی اپنی انا کی وجہ سے رابطہ نہیں کرتا ،
کہیں مجھے میری انا روکتی ہے۔۔
وہ اب جیسے بھی ہیں ، جہاں بھی ہیں ،
میں اب بھی انہیں چاہتا ہوں اور یاد کرتا ہوں ۔
میں اپنی فیس بک کے کور ٹائٹل پر جب یہ نظم لگا رہا تھا تو اس وقت میرے ایک ہمدم ساتھی رشید جمال وارد ہوئے اور پوچھا ، خان صاحب کیا ہورہا ہے، ؟ میں نے کہا کہ بھائی ، یہ ایک بہت پیاری نظم ہے ، پڑھ کر بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے ، کسی کو بھول نہ جاؤں اسلئے ٹائٹل پر لگا رہا ہوں ۔ موصوف کہنے لگے کہ کیا لے کر بیٹھ گئے ہو ، چھوڑو ، میرا مشورہ مانو اور امریکہ کیخلاف لکھو ۔ میں ہڑبڑا گیا کہ بات شاعری سے ہوتے ہوتے ، انکل سام کی طرف کہاں جا نکلی ، میں نے کہا کہ بھائی ، بہت بدذوق ہو ، یعنی میں کیا کہہ رہا ہوں اور آپ مجھے امریکہ سے الجھانا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے ۔ دیکھو ، تم امریکہ کیخلاف جتنا بولو گے ، امریکہ پس پردہ تم سے اُتنے ہی رابطے رکھے گا ۔ میں نے کہا کہ ، ہاں یہ بات تو درست ہے ، کہ جو اُس کیخلاف بولتا ہے ، ان کی دعوتوں میں بھی سب سے زیادہ وہی جاتا ہے ، اُن کے بچے بھی وہیں پڑھتے ہیں ۔ لیکن بھائی میں امریکہ کیخلاف کیا لکھوں ،اسکے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے ملک میں آنے والے مہمانوں کے حقیقت میں کپڑے تک ا تار دیتا ہے ،وہ کہتے ہیں ناں کہ حیا سے پاک کر دیتا ہے تو بھائی ایسے ملک سے کیوں پنگا لینا جو اپنے گھر میں کسی کو نہیں بخشتا اور کھڑے کھڑے ننگا کردیتا ہے ، بھلا میرے کچھ کہنے سے کیا ہوگا ۔ موصوف بضد ہوئے کہ نہیں خان صاحب ، وہ ان کی سیکورٹی کا معاملہ ہے ، وہ یہ سب کچھ اُن لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں جن کی آنکھوں کی شرم مَر چکی ہو اور قوم کیلئے غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہ بچی ہو ، میں پھر گویا ہوا ۔ رشید بھائی بھلا یہ کیا بات ہوئی ، امریکہ اپنی سیکورٹی کے نام پر اسکڈ ،کروز میزائل، کلسٹربموں اور ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہوں کو مار سکتا ہے اور کوئی ایسے کچھ کہتا نہیں،اب دیکھ لو کہ صرف میری قوم کے لاکھوں افغانیوں کو کبھی اسلام کے نام پر تو کبھی شدت پسندی کے نام پرشہید کراچکا ہے لیکن ہمارا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ پھر میں نے خود ہی کہا کہ رہنے دو ،جب ہم دو ارب مسلمان ، گستاخانہ فلم میکرتین امریکیوں کیخلاف کچھ نہیں کرسکتے تو پوری نیٹو فوج کیخلاف کیا کر پائیں گے ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے لوگوں کی املاک اور جائیداد کو نقصان پہنچا دیں گے اور بس … موصوف تپ کر بولے … ایک تو تم پٹھانوں کو بات سمجھ میں نہیںآ تی ۔ میں اُن سے زیادہ تپ کر بولا کہ دیکھو رشید بھائی غصہ نہ دلایا کرو ، پہلے بھی آپ نے خود کو اردو دان بننے کا بڑا دعویدار قرار دیکر مجھ سے کہا تھا کہ پٹھان ہوکر اردو دَان بننے کی کوشش نہ کرو ، تو میں نے کیا جواب دیا تھا ، یاد ہے کہ نہیں ، نہیں یا د ،بھول گئے تو دوبارہ سن لیں کہ پٹھان اُن معدودے چند اقوام میں سے ہیں جہاں جاتا ہے ، وہاں کی زبان جلد سیکھ لیتا ہے ، اُن کی بودباش ے مطابقت پیدا کرلیتا ہے ،دیگر زبانیں سیکھنے یا وہاں جذب ہونے کے حوالے سے یہ خداد داد صلاحیت کسی دوسری قوم میں نہیں ہے۔ ثبوت کے طور پر اردو کے بیسیوں بڑے ادیب اور شاعر پٹھان ہیں، مثلا، مومن، شیفتہ، فانی بدایونی، دل شاہجہان پوری، شاد عارفی ،جوش ملیح آبادی ،فیض ،اختر شیرانی،نیاز فتح پوری،قتیل شفائی ،منیر نیازی، حاوی اعظم ، سرفراز ،تان سین کا استاد عادل شاہ پوری اُستاد عمر اور بہت سارے ہیں ۔ اگر میری بات سے اختلاف ہے تو پھر اردو ، سندھی ، بلوچ ، پنجابی یا دیگر قومیتوں میں کوئی ایسا نامور شاعر ادیب بتاؤ جس نے پشتو میں شاعری کی ہو۔موصوف نے تسلیم کرنے کے بجائے کہنے لگے کہ چھوڑو ا ن باتوں کو یہ سب تعلیم کی کمی وجہ سے ہے ، مسلمانوں نے ہندوستان پر سینکڑوں برس حکمرانی کی لیکن تعلیم نہیں دی ۔ اسلئے تو امریکہ دنیا بھر کے سادہ لوح مسلمانوں کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے ، میں چراغ پا ہوگیا کہ ، واہ بھائی یہ بھی بھول گئے ۔ کمال ہے، ارے بھائی ہندوستان کا تو یہ حال تھا کہ وہاں ہندوؤں کو مندروں میں پاٹ شالا کے علاوہ کوئی تعلیم کا انتظام ہی نہیں تھا۔ توران، اصفہان وشیراز اور دوسرے علمی مراکز میں ابو ریحان البیرونی، فردوسی، عنصری، فرخی،مسعود ،سعد سلیمان،اور عسجدی کی خدمات بھول گئے۔ یہ بھی بھول گئے کہ مساجد کیساتھ مدارس کی تعمیر مسلم حکمرانوں کی روایت رہی ہے ۔ محمود غزنوی نے عظیم الشان کتب خانہ تعمیر کرایا ،قطب الدین ایبک نے ”مدرسہ معزی“بنایا جیسے قرامطہ نے رضیہ سلطانہ کے عہد میں یورش کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ فیروز شاہ تغلق نے اس برباد شدہ مدرسے کو ازسر نو بحال کرکے حصول مرکز بنایا ۔ رضیہ سلطانہ نے ”مدرسہ ناصریہ“، ناصر الدین نے طبقات ناصری ،علاؤ الدین کے دور میں درگاہ نظام الدین اولیا ء کی مسجد اور مدرسے کی دانش گاہیں ، محمد تغلق کے نئے شہر دہلی میں ”مدرسہ فیروز شاہی“ فیروز شاہ نے سلطان خلجی کے ” حوض خاص“پر تاریخی مدرسہ،سکندر لودھی نے ہندوستان، توران، خراسان اور بلاد اسلامیہ کے طبیبوں سے فن طب پر مستند کتاب مرتب کی جو طب سکندری کہلائی۔ جون پور میں ”مدرسہ بی بی راجہ بیگم“، سلاطین مشرقی نے اٹالہ مسجد اور مدرسہ”محمد شاہ بہمنی دوم نے ”مدرسہ محمود گاواں“ مغلیہ دور میں اکبر نے بڑے بڑے شہروں میں مدرسے قائم کئے جہاں علوم و فنون کی ترویج درجہ کمال کو پہنچ گئی تھی، تعلیمی درس گاہوں کی تعداد اتنی ہے کہ شمار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ میں مسلسل بولتا گیا کہ بھائی صاحب، برطانیہ نے جب پوری دنیا میں اپنی حکمرانی قائم کی ہوئی تھی تو وہ مسلمانوں کی سینکڑوں سال کی تحقیق پر مشتمل کتب خانے لوٹ کر یورپ لے جا کر اپنی یونی یورسٹیاں بنا رہا تھا ۔ انگریز ہندوستان میں مسلمانوں کے تاریخی کتب خانے لوٹ کر اپنے مدارس آباد اور ہمیں دہرے نظام تعلیم میں الجھا رہا تھااور آج تک ہم اس دہرے نظام تعلیم سے نکل نہیں سکے ۔ اسلئے تو امریکہ ، برطانیہ ، یورپ کی جدید تعلیم سے دور ہیں۔جاتے ہیں تو ننگے کردئیے جاتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے ہزاروں مدارس کو ہی جدید تعلیم سے آراستہ کردیں تو آکسفورڈ والے پاکستان پڑھنے کیلئے آئیں گے جس طرح ماضی میں آتے تھے ، ایک تو تیمور اور منگولوں نے ہمارے کتب خانے جلا دئیے اور بچا کچا تعلیمی سرمایہ بھی برطانیہ لوٹ کر لے گیا ۔کیا نہیں جانتے کہ آج بھی ان کی یونیورسٹیوں اور کتب خانوں میں ہماری کتابوں سے تعلیم دی جا رہی ہے ۔ رشید بھائی مسکرا پڑے اور کہنے لگے یار۔ میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو سنجیدہ ہوجاتے ہو ، میں نے کہا کہ میں آپ کی ہر بات کو سنجیدہ لیتا ہوں لیکن آپ بھی انیس بھائی کی طرح بھول جاتے ہیں جب بھی اپنا کام یاد دلاتا ہوں تو بس خالی خولی دلاسے دیتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ پھر انھوں نے کہا کہ اچھا چلو ، منیر بھائی سے گول گپے کھاتے ہیں ۔ بہت دن ہوگئے وہ بھی بھول گئے ہونگے ، ہم میں بس یہی بہت خرابی ہے یاد کرانا پڑتا ہے ۔ میں نے کہا ، بھائی ، بس مہربانی کرنا کہ مجھے بھول مت جانا۔