• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ …شہزادعلی
برطانیہ میں رہائش پذیر وہ لوگ جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور جن کی زندگیوں کے کئی معاملات بدستور وطن عزیز سے جڑے ہیں۔ جب 23 مارچ یا کسی اور قومی دن پر برطانیہ کے مختلف شہروں میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں تو برطانیہ میں پیدا اور پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل اکثر ہم سے یہ دریافت کرتی نظر آتی ہے کہ ہم کیوں بے مقصد سرگرمیوں میں وقت ضائع کرتے ہیں؟ زیادہ تر بالکل بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہیں، چند قدرے دلچسپی کا مظاہرہ کرکے ان ایام کا پس منظر دریافت کرتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کاش اگر برطانیہ میں پاکستان کے سفارتی مشنز بھی اس حوالے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے۔ اور نئی جنریشننز کو آگاہ کرسکتے کہ یہ تقاریب بے مقصد ہرگز نہیں ہیں یہ تو ہمارا ورثہ ہیں کاش بجائے محدوے چند (زیادہ تر ) مخصوص خوش آمدی افراد منظور نظر لوگوں کو پاکستان سے متعلق تقریبات میں مدعو کرنے اور وسائل ضائع کرنے کے، یہاں کی نوجوان نسل اور بچوں کو وسیع طور پاکستان سے متعلق سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا تو شاید ہمارے بچے بھی اپنے وطن سے متعلق تقریبات اور سرگرمیوں کو منعقد کر رہے ہوتے اور آج ہمیں یہ گلہ نہ ہوتا کہ اپنی کمیونٹی سے متعلق بچے اور نوجوان زرمبادلہ تو دور کی بات ہے ہالیڈیز منانے کے لیے بھی وطن عزیز پر دیگر ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔ 23مارچ 1940 کو جو قرارداد لاہور پاس ہوئی اسی نے مسلمانان ہند کے مطالبات کو واضح شکل دی اور قیام پاکستان کی راہ متعین کی اور ان کی حتمی منزل کی نشاندہی کی اسی لیے اسے قرار داد پاکستان کہا جاتاہے۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں یہ قرار داد یہ ایک پہلی دستاویز ہے جس میں مسلمانوں کے ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ پیش کیا گیا۔اس قرارداد نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی نئے جذبے بیدار کر دئیے تھے۔ کاش ہماری نئی نسل کے نمائندے بھی اس ریزولیشن کی اہمیت سے آگاہ ہوسکتے۔اس قرارداد کو آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل کونسل باڈی نے لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں پیش کیا۔جب کہ سٹیج پر مصور پاکستان کا یہ شعر درج تھا
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں واضح کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان صرف دو الگ مذاہب ہی نہیں ہیں بلکہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق اقوام ہیں جن کا کھانا پینا اور طرز معاشرت قطعی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہںے اور چونکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کی ہندوستان میں اپنی الگ مملکت اور جداگانہ ریاست ہو۔ مورخین کےمطابق ہمارے عظیم قائد کا یہ خطاب ان کے اعلی پارلمینٹرین ہونے کا ثبوت تھا، کاش ہماری تقاریب میں ہمارے قائدین ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے قائد کی ایسی تاریخ ساز تقاریر جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا کو دہرائیں اور ملت کے پاسبان محمد علی جناح کی عظمت سے نئی جنریشن کو واقفیت دلائیں اور مصنوعی ’جناح ثانیوں‘ کے گیت گانے سے باز رہیں۔ اس طرح یہ بتایا جائے کہ قرارداد لاہور ہے کیا؟ کہ جس نے اس پاک مملکت کے قیام کو ممکن بنایا ۔آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی اس عہد ساز قرار داد میں یہ شامل تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سوچا سمجھا نقطۂ نظر ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ہو گا، جب تک جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائےاور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں گی مزید یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب، مؤثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے جملہ حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ اس کے بعد جدوجہد میں ایک طویل داستان ہے۔ آگے چل کر 1946ءمیں ایک نئی اور حتمی قرارداد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ 7 اپریل 1946ءکو دہلی میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین قانون ساز اسمبلی کا ایک تاریخی کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت بھی قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائداعظم نے جو خطاب کیا وہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ انہوں نے 23 مارچ 1940 کی قرار داد کی روشنی میں ہی آزاد و خودمختار پاکستان کے قیام کی ضرورت کو مزید اجاگرکیا اور صرف مسلمانوں ہی نہیں دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہندوؤں کے تعصب کو بھی انہوں نے اپنے خطاب کا حصہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوؤں کے ذات پات پر مبنی فلسفہ نے بھارت کے چھ کروڑ انسانوں کو اُچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے برملا کہا تھا کہ مسلمان، عیسائی اور دوسری اقلیتں سماجی اور معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ قائد نے اس امر کی نشاندہی کی کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے، اس لیے کہ مرکز میں ہندوؤں کی بالادستی ہو گی۔ اس لیے انہوں نے شدت سے یہ مطالبہ پیش کیا کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان زونز پر مشتمل پاکستان کی آزاد اور خودمختار ریاست بنائے جائے۔ قائداعظم نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تھیو کریسی یا تھیو کریٹک ریاست نہیں چاہتے اور جب وہ مذہب کی بات کرتے ہیں تو ان کے نزدیک دنیاوی چیزوں کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی۔ بلکہ سماجی اور معاشی زندگی ان کے نزدیک اہم ہے اور اس کو بھی پیش کیا کہ سیاسی طاقت کے بغیر مسلمان اپنے عقیدے اور معاشی حقوق کا دفاع نہیں کر سکتے اور پاکستان ہی ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے ۔انہوں نے اس موقع پر خواتین کی قومی مقاصد میں بھرپور شمولیت کی ضرورت کو بھی اس خوبصورتی سے پیش کیا تھا کہ جس کے باعث مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں خواتین نے مردوں سے بھی بڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ لے کر اسے کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ کاش آج ہماری کشمیری قیادت بھی اس حقیقت کا ادراک کرے کہ خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی آزادی کی تحریک کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ سو! 1940ءکی قرارداد اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے مگر اس قرارداد کی روشنی میں ہمیں آج اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔آج 78 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقدس دن کو تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کے فرمودات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پھر سے ایک قوم بننا ہوگا کیونکہ مختلف سیکٹرز سے دو قومی نظریہ پر ضرب لگانے کا عمل جاری ہے۔ بھارت جس نے آج تک کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا یہ ماضی سے بھی بڑھ کر پاکستان توڑنے اور اس کی بنیادوں اور نظریاتی اساس کمزور کرنے میں مصروف ہے اس لیے نئی نسل کو نظریاتی طور پر تیار کرنا ہوگا اور انہیں قیام پاکستان کے محرکات سے آگاہ کرنے کے لیے کاش، اہل قلم اپنے حصے کا کردار موثر طور ادا کر سکیں۔ اور ہم وطنوں کی درست رہنمائی کرسکیں۔اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو ۔پاکستان زندہ باد
تازہ ترین