• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درجہ حرارت بڑھنے سے بلوچستان کے آبی ذخائر کو لاحق خطرات

درجہ حرارت بڑھنے سے بلوچستان کے آبی ذخائر کو لاحق خطرات

انسانی سر گرمیوں کے سبب گرین ہائوس گیسز کااخراج بڑھنے سے کُرّۂ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے، جس کے اثرات موسمی تغیّرات کی صورت نظر آ رہے ہیں۔ کُرّۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں سمندروں کے سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے ساحلوں پر آباد شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ ہے، جب کہ بارش میں کمی واقع ہونا بھی انہی موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے، جس کی وجہ سے مختلف خطّوں میں انسانوں اور جانوروں کو خوراک کی قلّت کا سامنا ہے۔ 

دُنیا بَھر میں زمین کے درجۂ حرارت کو کم تر سطح پر رکھنے کے لیے کچھ معیارات مقرّر کیے گئے ہیں، جن پر ممالک کو کماحقہ عمل درآمد کی ہدایت کی جاتی ہے، تاکہ زمین پر بسنے والے انسانوں، جانوروں، حشرات اور نباتات کو پنپنے کے لیے ساز گار ماحول میسّر آسکے۔ 

صوبۂ بلوچستان اپنی ارضیاتی ساخت کے اعتبار سے بلند و بالا پہاڑوں، نیم صحرائی علاقوں، وادیوں اور میدانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے شمالی علاقے، جو سطحِ سمندر سے خاصے بلند ہیں، سردیوں میں انتہائی سرد ہوتے ہیں، جہاں بعض اوقات درجۂ حرارت منفی 15ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے ، جب کہ سطحِ سمندر سے کم بلند علاقوں میں، جن میں نوکنڈی کا نیم صحرائی اور سبّی کا میدانی علاقہ شامل ہے، گرمیوں میں بعض اوقات درجۂ حرارت 48سے 50ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ 

بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن کے سوا، جہاں نہری نظام کے ذریعے زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے، باقی علاقوں میں کاشت کاری کے لیے کُلی طور پر قدرتی وسائل پر انحصار کیا جاتا ہے۔ 

درجہ حرارت بڑھنے سے بلوچستان کے آبی ذخائر کو لاحق خطرات

کہیں بارش کے پانی کو براہِ راست استعمال میں لاکر کاشت کاری کی جاتی ہے، جسے بارانی طریقۂ کاشت کاری کہا جاتا ہے، کہیں ٹیوب ویلز کے ذریعے زیرِ زمین پانی کو کاشت کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ کہیں ڈیمز کے ذریعے بارش کا پانی ذخیرہ کر کے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ 

ایک زمانے میں بلوچستان کے کئی علاقوں میں موجود کاریزوں کے ذریعے زیرِ زمین پانی کاشت کاری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر پانی کی سطح تیزی سے کم ہونے کی وجہ سے یہ کاریزیں خشک ہو چُکی ہیں، جب کہ ٹیوب ویلز کے ذریعے زیرِ زمین پانی کے بے دریغ استعمال سے پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ 

موسمی تغیّرات کے نتیجے میں مطلوبہ مقدار میں بارشیں اور برف باری نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی ری چارجنگ میں کمی واقع ہو گئی ہے اور سطحِ آب تیزی سے گرنے کے سبب بلوچستان کے شمالی علاقوں میں ٹیوب ویلز کو ایک ہزار سے 12سو فٹ نیچے نصب کرنا پڑتا ہے، جس پر زیادہ اخراجات آتے ہیں اور پھر زیادہ گہرائی سے پانی نکالنے کے لیے بجلی بھی زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ زراعت اور باغات سے براہِ راست و بالواسطہ طور پر وابستہ بلوچستان کے کم و بیش 50فی صد باشندوں کے لیے ٹیوب ویلز کے ذریعے پانی کا حصول خاصا مہنگا ہو گیا ہے اور اب وہ اس طرزِ زراعت کو خیر باد کہنے کا سوچ رہے ہیں۔ 

نتیجتاً صوبے میں بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ تہذیبیں ہمیشہ دریا کے کنارے ہی پروان چڑھتی ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام کی ترقّی اور معاشی پائے داری میں پانی کی دست یابی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں ممالک کے درمیان جنگیں پانی پر ہوں گی۔

صوبۂ بلوچستان کا رقبہ 4,37,185مربّع کلو میٹر ہے ،جو وطنِ عزیز کے 43فی صد رقبے پر مشتمل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں 300-250ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے، جو کہ بہت کم ہے۔ 

صوبے کی 70فی صد آبادی دیہات میں مقیم ہے اور صوبے میں دست یاب 93فی صد پانی مختلف مقاصد کے لیے اسی کے زیرِ تصرّف رہتا ہے، جب کہ رہی سہی کسر عشرے سے بھی زاید عرصے سے جاری خشک سالی نے پوری کر دی ہے۔ پانی کی قلّت کی وجہ سے صوبے کی کُل قابلِ کاشت اراضی ایک کروڑ 94لاکھ ایکڑ سے صرف 20لاکھ ایکڑرہ گئی ہے۔ 

بلوچستان میں آب پاشی کے لیے مختلف ذرایع استعمال کیے جاتے ہیں۔ انڈس ریور سسٹم سے تقریباً 9لاکھ ایکڑ، نہری نظام سے 2لاکھ 25ہزار ایکڑ اور کاریزوں، چشموں اور ٹیوب ویلز سے 1.5لاکھ ایکڑ زمین سیراب کی جاتی ہے۔ 

صوبائی محکمۂ آب پاشی پانی کے حصول کے لیے منصوبہ بندی، تحقیق، پانی کی دیکھ بھال اور زیرِ زمین پانی کی سطح کی جانچ پڑتال اور اس میں بہتری کے لیے اقدامات کا ذمّے دار ہے، جب کہ متعلقہ اداروں نے پچھلے دو عشروں سے صوبے بَھر میں زیرِ زمین پانی کی سطح بہتر کرنے، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کے بہتر استعمال، زراعت میں توسیع اور غُربت کی شرح میں کمی لانے جیسے منصوبوں پر خصوصی توجّہ مرکوز کر رکھی ہے۔ 

دریائے ناڑی کے کنارے موجود زر خیز اراضی کو زیرِ کاشت لانے کے لیے ’’فلڈ ڈسپیرل اسٹرکچر‘‘ کا منصوبہ مکمل ہو چُکا ہے، جس پر491کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ 

نیز، صوبے میں ایک سو ڈیمز کی تعمیر کے پیکیج میں شامل20ڈیمز کی تعمیر مکمل ہو چُکی ہے، جن پر 240کروڑ روپے لاگت آئی، جب کہ فیز II کے تحت 26ڈیمز کی تعمیر کا کام جاری ہے، جس پر 464کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ آب پاشی کے اعتبار سے اہمیت کے حامل منصوبے، کچھی کینال کی تعمیر مکمل ہو چُکی ہے اور مکران ڈویژن میں شادی کور ڈیم بھی تعمیر ہو چُکا ہے، جس پر 652کروڑ روپے لاگت آئی۔

صوبے میں پانی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمۂ آب پاشی، بلوچستان مختلف اضلاع میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے۔ گزشتہ عشرے میں محکمۂ آب پاشی بلوچستان، وفاقی حکومت اور ڈونر ایجینسیز کے تعاون سے تُربت میں میرانی ڈیم، ژوب میں سبکزئی ڈیم اور لسبیلہ میں حب ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ صوبے میں سالانہ دست یاب پانی تقریباً 10ملین ایکڑ فٹ ہے۔ 

صوبائی محکمۂ آب پاشی زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے بھی مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ تاہم، اس کے علاوہ پانی کے زیاں کو روکنے اور قطرہ قطرہ آب پاشی کے نظام کو فروغ دینے کے لیے کسانوں کو تربیت فراہم کرنے اور اس سسٹم کی تنصیب کے لیے انہیں زرِ تلافی دینے کی ضرورت ہے، جب کہ این او سی کے بغیر نئے ٹیوب ویلز کی تنصیب پر کڑی نظر رکھی جانی چاہیے۔

موسمیاتی تغیّرات کے نتیجے میں بلوچستان میں بارشوں میں کمی اور اس کے صوبے کی زراعت اور دیگر معمولات پر اثرات کے حوالے سے ریجنل میٹرو لوجیکل اینڈ جیو فزیکل سینٹر، کوئٹہ کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر عظمت حیات کا کہنا ہےکہ ’’11فروری کو صوبے میں پورے ایک سال بعد معمولی بارش اور برف باری ہوئی اور تاخیر سے بارش ہونے کی وجہ سے بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہوئی ہے اور اگر کہیں گندم کی بوائی ہوئی، تو اُسے بر وقت پانی مہیا نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے بیج پُھوٹنے کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔ 

بلوچستان کے شمالی علاقوں میں بارشیں اور برف باری نہ ہونے کی وجہ سے ڈیمز اور سطحِ زمین پر موجود آبی ذخائر خُشک ہو چُکے ہیں۔ نیز، کوئٹہ کے قریب واقع، ہنّہ جھیل بھی خُشک ہو چُکی ہے۔ آبی ذخائر خُشک ہونے سے مقامی آبادی کا انحصار زیرِ زمین پانی پر مزید بڑھ جائے گا، جب کہ زیرِ زمین پانی کی سطح پہلے ہی تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس کے مزید کم ہونے سے صوبے کی زراعت پر ہمہ جہت منفی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔‘‘ ماہرینِ موسمیات کا ماننا ہے کہ بارش اور برف باری نہ ہونے کا سبب وہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جنہیں ’’Anthropogenic Emissions‘‘ کہا جاتا ہے۔ صنعتوں، گاڑیوں اور کچرا جلنے سے پیدا ہونے والے دھویں اور زہریلے مواد سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے کی وجہ سے بادل تو بنتے ہیں، لیکن وہ بارش برسانے سے قاصر رہتے ہیں، کیوں کہ بارش برسانے کے لیے بادلوں کو Condensationیا بخارات میں تبدیل ہونے کے عمل سے گزرناپڑتا ہے۔ 

یعنی زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے سے بارش کا عمل رُک جاتا ہے، لیکن اگر زمین کا درجۂ حرارت کم ہو اور جنگلات کی تعداد زیادہ ، تو فضا میں آکسیجن اور نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے بادلوں میں آبی بخارات بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ برسنے لگتے ہیں۔

بلوچستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور سالانہ ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر ہو رہی ہے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، پاکستان خصوصاً بلوچستان میں جنگلات کا تیزی سے کٹائو ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور قدرتی آفات سے بچائو کے لیے سالانہ 1.5سے 2 کھرب درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ 

اس وقت پاکستان کے کُل رقبے میں سے صرف5فی صد جنگلات پر مشتمل ہے، جن میں قدرتی جنگلات کے علاوہ زرعی اراضی پر موجود جنگلات بھی شامل ہیں، جب کہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے صرف ایک سے 2فی صد رقبے پر درخت ہیں اور اس قدر کم شرح ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں کم و بیش 203اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں اور پورے مُلک میں جونیپر (صنوبر) کے قیمتی جنگلات صرف بلوچستان کے علاقوں، زیارت اور ہربوئی (قلات) میں واقع ہیں۔ 

یہ جنگلات کوئٹہ سے 133کلو میٹر دُور شمال میں سطحِ سمندر سے 2,449 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ زیارت میں صنوبر کے قدیم جنگلات کو کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ صوبے بَھر میں معمول سے کم بارشیں ہونے کی وجہ سے قدرتی چراگاہیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، جس کے سبب مویشیوں کے لیے خوراک نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ 

دوسری جانب ضلع ژوب اور شیرانی میں بھی لاکھوں ایکڑ پر پھیلے زیتون کے قیمتی قدرتی جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے کہ مقامی باشندے انہیں ایندھن، گھروں کی تعمیر اور مویشیوں کے چارے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے 2فی صد رقبے پر زیتون کے جنگلات پائے جاتے ہیں، جن میں سے 80فی صد مقامی آبادی اور 20فی صد حکومت کی زیرِ ملکیت ہیں۔ 

موسمیاتی اعتبار سے یہ جنگلات اُن علاقوں میں موجود ہیں کہ جو مون سون رینج میں آتے ہیں اور جہاں اوسطاً 250 سے 750ملی میٹرسالانہ بارش ہوتی ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث ماحول اور جنگلی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور مُلک کے دیگر حصّوں کی طرح بلوچستان میں بھی اس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ 

ان کے تدارک کے لیے ماہرین کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ درختوں اور جنگلات کے تحفّظ کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔گزشتہ دنوں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر عبدالقدّوس بزنجو نے سی ایم سیکریٹریٹ، کوئٹہ میں پائن کا پودا لگا کر صوبے میں موسمِ بہار کی شجر کاری مُہم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس شجر کاری مُہم کے تحت صوبے بَھر میں15لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہر سال شجر کاری مُہم کے دوران صوبے میں لاکھوں پودے لگانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود درختوں کی تعداد بڑھنے کی بہ جائے گھٹ رہی ہے۔

بلوچستان کے علاقے بارکھان، موسیٰ خیل، خضدار اور قلات مون سون ریجن میں آتے ہیں۔2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق، بارکھان میں پورا سال 369ملی میٹر بارش ہوئی، جب کہ یہاں بارش کا سالانہ تناسب 418ملی میٹر ہے۔ قلات میں 66ملی میٹر سالانہ بارش ریکارڈ کی گئی، جب کہ گزشتہ برسوں میں یہاں اوسطاً 216ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ 

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برس بلوچستان میں مون سون بارشوں کے تناسب میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں پانی کے ذخائر خُشک ہو چُکے ہیں۔ چُوں کہ بلوچستان میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم جیسے دریا موجود نہیں، لہٰذا صوبے میں کہیں کہیں بڑی بڑی پہاڑی ندیوں سے آب پاشی بھی کی جاتی ہے۔ ان ندیوں کو بلوچی زبان میں ’’کھورا‘‘ اور براہوی میں ’’جل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان پہاڑی ندیوں سے آب پاشی کے لیے جو نالے نکالے جاتے ہیں، انہیں ’’کھور جو‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

موسلادھار بارش کے نتیجے میں ان ندی نالوں کے قریب واقع خُشک اراضی زیرِ آب جاتی ہے اور اسے پہاڑوں کی زر خیز مٹی ملتی ہے، جو فصلوں کے لیے کھاد کا کام انجام دیتی ہے۔ تاہم، کبھی کبھار اس کے برعکس بھی ہوتا ہے اور یہ تیز رو سیلاب کھیتوں، نخلستانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ بلوچستان کی سر زمین میں ایسے بہت سے آثار ملتے ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہاں آباد باشندے، جو عُرفِ عام میں ’’گبر‘‘ کہلاتے ہیں، کوہستانی ندیوں پر پتّھر کے بڑے بڑے بند باندھ کر ان سے آب پاشی کا کام لیتے تھے۔ 

ان قدیم بندوں کو بلوچی میں ’’گئور بند‘‘ یا ’’گئور بست‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان بندوں میں سے کئی ایک جھالا وان اور خاران کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کئی کئی میل طویل ہیں اور ان کی اونچائی بھی 10سے 15فٹ سے کم نہیں اور بعض مقامات پر 20سے 25فٹ تک بلند گئور بست ملتے ہیں۔ ذیل میں بلوچستان کی قابلِ ذکر پہاڑی ندیوں (کھوروں) کی مختصر تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

(1) ہنگول کھور :ہنگول کھور، بلوچستان کی سب سے طویل پہاڑی ندی ہے۔ اس کی کُل لمبائی 350میل اور دو بڑی شاخیں ہیں۔ پہلی شاخ جھالاوان کے علاقے، جیوا سے شروع ہوتی ہے اور تحصیل، مشکے میں مشکے کھور بن کر نکلتی ہے اور یہاں سے آواران کا رُخ کرتی ہے۔ دوسری شاخ قلات کی جنوب مغربی پہاڑیوں میں تبدیل ہونے کے بعد سوراب کی مغربی سمت میں ’’جنگل کھور‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہاں ماراپ و سیاہ کنب کی پہاڑی ندیاں اس کی آغوش میں سما جاتی ہیں۔ 

یہاں سے آگے بڑھ کر یہ نال کھور کے نام سے وادیٔ گریشہ اور نال کے درمیان سے گزرتی ہے۔ آواران پہنچ کر یہ اپنی پہلی شاخ سے مل جاتی ہے اور پھر جاہو سے گزر کر ساحل پر واقع، ہنگول پہاڑ کے دامن میں بحیرۂ عرب میں جا گرتی ہے اور اس لیے یہاں اسے ’’ہنگول کھور‘‘ کہتے ہیں اور ہنگول دراصل ہنگلاج سے مشتق ہے۔

(2) ناڑی کھور :ناڑی کھور، بلوچستان کی دوسری بڑی کھور یا پہاڑی ندی ہے۔ یہ ضلع لورالائی کے شمالی پہاڑوں سے شروع ہو کر سپیرہ راغہ کے مقام پر انمبار کے نام سے نمودار ہوتی ہے۔ پھر جب یہ مری میں داخل ہوتی ہے، تو اسے ’’ بھیجی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ راستے میں کئی چھوٹے بڑے ندی نالے اس میں شامل ہو جاتے ہیں، جس سے یہ ایک بہت بڑی کھور بن جاتی ہے اور پھر تحصیل سبّی میں بابر کچ کے قریب پہنچ کر ناڑی کا نام اختیار کر لیتی ہے۔ 

انگریزوں کے دَورِ حکومت میں ناڑی گیج کے نام سے اس پر ایک بڑا بند باندھ کر اس میں سال بَھر بہتے پانی کو روکا گیا تھا، جس سے سبّی کے دیہی علاقوں میں آب پاشی ہوتی ہے۔ جب اس ندی میں سیلاب آتا ہے، تو یہ تحصیل، بھاگ کو اپنی لپیٹ میں لے کر کھنڈا، تمبو اور شوری سے ہوتے ہوئے کیرتھر بیراج کی جنوب مغربی حد تک پہنچ کر دَم توڑ دیتی ہے۔ اس کھور کی کُل لمبائی300میل ہے۔

 ( 3) رخشان کھور :یہ بلوچستان کی تیسری بڑی کھور (خشک ندی) ہے اور اس کی کُل لمبائی 258میل ہے ۔ یہ کھور سلسلۂ کوہِ وسطی مکران اور سیاہان کے پہاڑوں کے مقامِ اتصال پر نکلتی ہے اور پھر ماشکیل کھور کے ساتھ مل کر کوہِ سیاہی سے ہو کر گزرتی ہے۔ آگے جا کر یہ کیل کھور اور کیچ کھور سے مل جاتی ہے اور پھر دشت کھور میں شامل ہو کر خلیج گوستر میں جا گرتی ہے، جو جیونی اور چاہ بہار کی بندر گاہوں کے درمیان واقع ہے۔

(4) دشت کھور:یہ ندی ایرانی بلوچستان سے مند کے مقام پر ضلع مکران میں داخل ہوتی ہے اور اس سے نہنگ کھور سمیت دوسری بہت سی چھوٹی بڑی پہاڑی ندیاں آ ملتی ہیں۔ یہ کیچ اور دشت کے جنوب مغربی علاقے کو سیراب کرتی ہے۔ اس کی کُل لمبائی 255میل ہے اور یہ جیونی بندرگاہ کے مغرب میں واقع، خلیج گوستر میں گرتی ہے۔

(5) لوہڑہ یا بُر کھور:اس کھور کی ایک شاخ توبہ کاکڑی کے پہاڑوں سے نکل کر پشین میں لوہڑہ شال کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے مغرب کی طرف افغانستان کے علاقے شوراوک تک جاتی ہے، جب کہ اس کی دوسری شاخ قلات کے گرد و نواح کی شمالی مغربی پہاڑیوں سے نکل کر منگوچر میں شیرین آب کی ندی سے مل جاتی ہے اور پھر یہاں سے مغربی سمت میں بہہ کر شیخ واصل کے قریب شورہ رود میں جا گرتی ہے۔ اب یہ شورہ رود کہلاتی ہے، جو شوراوک کی مشرقی سمت میں پہلی شاخ سے مل جاتی ہے اور برنالہ یا برکھور کہلاتی ہے۔ 

برنالہ ضلع چاغی کی تحصیل نوشکی کی شمال مغربی سمت میں تحصیل نوشکی کے زرخیز خطّے، ڈاک کو سیراب کرتا ہے اور بالآخر چاغی گائوں کی مشرقی پہاڑیوں کے قریب ہامون میں غرقِ آب ہو جاتا ہے۔ یہ ہامون یا دلدل اسی کھور کے نام سے ’’ہامون لوہڑہ ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کا موجودہ نام زنگی ناوڑ ہے۔ اس کھور کی کل لمبائی 250میل ہے۔

(6)ژوب کھور :یہ کھور پشین کے مشرق کی طرف کوہِ کند سے نکلتی ہے اور دریائے گو مل میں جا گرتی ہے۔ اس کی کُل لمبائی 240میل ہے۔

(7) بولان کھور :یہ وہ پہاڑی ندی ہے، جو درۂ بولان سے نکل کر ضلع کچھی میں داخل ہوتی ہے۔ اس میں سارا سال پانی بہتا ہے، جو ڈھاڈر کے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے چشموں سے نکلنے والا پانی آبِ گُم کے مقام پر زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر کسی اور مقام پر نمودار ہوتا ہے۔ 

پہلے اس ندی کا پانی بند اللہ یار شاہ پر پہنچ کر اُس جھیل میں جمع ہوتا تھا، جو اس غرض کے لیے بند باندھ کر وجود میں لائی گئی تھی۔ اس جھیل سے تحصیل بھاگ کے علاقوں، جات کھٹن اور ستچو وغیرہ میں آب پاشی کی جاتی تھی۔ تاہم، 1976ء کے سیلاب میں یہ بند تباہ ہو گیا اور اب تک اسے دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔

(8) مولہ کھور :بولان کی طرح یہ ندی بھی درہ مولہ میں بہتی ہے۔ زہری، ساسول اور کرخ کی تمام پہاڑی ندیاں اور نالے اسی کھور سے آکر ملتے ہیں۔ برسات کے موسم میں یہ ٹھاٹھیں مارتی ہوئی کچھی کے علاقے، گنداوہ میں نمودار ہوتی ہے اور پہاڑوں سے لائی ہوئی زر خیز مٹی خُشک اراضی میں پھیلا دیتی ہے۔ 

اس میں سال بَھر صاف پانی بہتا رہتا ہے اور یہ پنجک کے مقام پر پانچ حصّوں میں تقسیم ہو کر گنداوہ، گاجان اور جھل مگسی کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 85میل ہے۔

(9)گاج کولاچی کھور :یہ دو ندیاں ہیں، جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر زادہ کے پہاڑوں سے نکلتی ہیں۔ خضدار اور زیدی سے گزر کر آپس میں مل جاتی ہیں اور گاج کولاچی کھور کہلاتی ہیں۔ اس کھور میں سرسبز و شاداب بھینٹ (نخلستان) بہ کثرت ملتے ہیں، جن میں چاول کی عُمدہ فصل ہوتی ہے۔ کیرتھر کے پہاڑ سے گزر کر یہ کھور دادو (سندھ) کے قریب منچھر جھیل میں جا گرتی ہے اور اس کی کُل لمبائی تقریباً ایک سو میل ہے۔

(10) حب کھور :یہ کھور کوہِ حب سے نکل کر جنوب مغربی سمت میں بہت دُور تک بلوچستان اور سندھ کے درمیان تک جاتی ہے اور اس میں سارا سال پانی بہتا ہے۔ بند مُراد خان کے نام سے اس پر ایک بند تعمیر کیا گیا تھا، جو اب آب بُرد ہو چُکا ہے۔ البتہ حب ڈیم تعمیر ہو چُکا ہے، جس سے آس پاس کے علاقے سیراب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حب شہر اور کراچی کو اس ڈیم سے پانی کی فراہمی بھی ہوتی ہے۔

(11) پورالی کھور :یہ کھور پب اور اورناچ کے پہاڑوں سے نکلتی ہے اور جنوب کی طرف سے بہتے ہوئے لس بیلہ میں داخل ہوتی ہے۔ اس میں سارا سال پانی بہتا رہتا ہے، جو لسبیلہ ، ویل پٹ اور سنجری کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس کا سیلاب میانی ہور کے مقام پر سمندر میں جا گرتا ہے اور اس کی لمبائی تقریباً ایک سو میل ہے۔

(12)شادی کھور :یہ کھور مکران کے ساحلی سلسلۂ کوہ سے نکلتی ہے اور گوئر کوپ کے علاقے سے گزر کر کیچ کی مشرقی سمت سے جنوب کی طرف مُڑ جاتی ہے اور پھر بیسیوں ندی نالوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر پسنی کے قریب سمندر میں جا گرتی ہے۔

(13) لہڑی کھور :یہ کھور مری و بگٹی کے مغربی پہاڑوں سے نکلتی ہے اور کچھی کی تحصیل لہڑی کو سیراب کرتی ہے۔

(14) بڈو کھور :یہ قلات کے مغربی پہاڑوں سے نکل کر کئی اور چھوٹے بڑے ندی نالوں کو اپنے دامن میں سمیٹے خاران کے علاقے میں داخل ہوتی ہے۔ نوروز قلات سے کچھ آگے جا کر جنوب مغربی سمت میں مُڑ کر خاران کی خُشک اراضی کو سیراب کرتی ہے۔ 

حکومتِ پاکستان کی طرف سے نو روز قلات سے کچھ آگے اور خاران شہر کے قریب اس پر ایک بند باندھا گیا تھا، لیکن یہ مضبوطی سے تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے بڈو کے تند و تیز سیلاب کو نہ روک سکا اور ٹوٹ پُھوٹ کر آب بُرد ہوگیا۔ پتکن اور نوروز قلات کے علاوہ اس کھور میں کئی اور نخلستان بھی آباد ہیں۔ یہ کھور خاران کی آبادی کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔

(15) کڈ کھور :یہ ایک مختصر سی پہاڑی ندی ہے، جو بیلہ شہر کے مغربی سمت میں واقع پہاڑیوں سے نکل کر وادی کی مغربی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔

ہائیڈرو جیالوجسٹ، محمد افضل کے مطابق، ’’زیر زِمین پانی کی ری چارجنگ کے لیے ضروری ہے کہ پہاڑوں کے دامن میں تعمیرات سے اجتناب کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، کیوں کہ پہاڑوں کے دامن میں تعمیرات کی وجہ سے بارش کا پانی زمین کے اندر جذب ہونے کی بہ جائے تیزی سے بہہ کر ندی نالوں میں شامل ہو جاتا ہے، جس کے سبب زیرِ زمین پانی کی سطح میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔ خصوصاً کوئٹہ شہر میں، جو پہاڑوں میں گِھرا ہوا ہے، پختہ تعمیرات کی وجہ سے پانی تیزی سے نشیب میں بہہ جاتا ہے اور اس کے زمین میں جذب ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ 

وادیٔ کوئٹہ میں زراعت سمیت دیگر مقاصد کی غرض سے پانی کے حصول کے لیے نئے ٹیوب ویلز کی تنصیب پر پابندی ہے، مگر قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے نئے ٹیوب ویلز کی تنصیب جاری ہے اور اس عمل کی روک تھام کے لیے پابندی پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘‘ کوئٹہ شہر کے مسائل کے حوالے سے ڈاکٹر عظمت حیات کا کہنا ہے کہ ’’گاڑیوں اور صنعتوں کے دھویں اور صفائی کے فقدان کی وجہ سے شہر کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ گھر گھر ہیٹر اور گیزر کی موجودگی کی وجہ سے بھی درجۂ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً موسمِ سرما میں ہیٹرز کا استعمال بڑھنے سے موسم پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

نیز،کوئٹہ شہر میں رِکشوں کی تعداد سواریوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان کی تعداد کم کرنے اور ان کی فٹنس چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ شہر میں آلودگی کم ہو کہ محض چند افراد کے روزگار کی وجہ سے کوئٹہ کے 30لاکھ مکینوں کی زندگیاں تو خطرے میں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ اس کے علاوہ گھروں میں گیس ہیٹرز کم سے کم استعمال کیے جائیں اور بازار میں فروخت ہونے والے ہیٹرز کے معیار پر بھی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

اس کے لیے ہم استعمال شُدہ پانی بھی استعمال کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں آلودگی اور درجۂ حرات میں بھی کمی واقع ہوگی۔‘‘

تازہ ترین