لغت میں صادق کے معنی سچا اور امین کے معنی امانت دار بتائے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے ایسے شخص کو جو ہمیشہ سچ بولتا ہو اور امانتوں میں خیانت نہ کرتا ہو، صادق اور امین کہنا درست ہے۔ اس میں کوئی شرعی قدغن نہیں لیکن علمی نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ اصطلاح سب سے پہلے حضور نبی کریمﷺ کے لئے استعمال کی گئی اور صرف انہی کے لئے مخصوص ہے۔ عام انسانوں پر اس کا اطلاق مناسب نہیں ہے اسی لئے اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدینؓ سمیت جتنے صحابہ کرامؓ، اولیائے اللہؒ اور صالحین گزرے کسی کے لئے بھی یہ اصطلاح استعمال کی گئی نہ خود انہوں نے پسند فرمائی۔ دینی کتب میں مرقوم ہے کہ بعثت سے پہلے آپ ﷺ نے معاش کے لئے تجارت کا پیشہ اپنایا تھا۔ آپؐ کی خوش معاملگی، راست گوئی اور امانت داری سے متاثر ہوکر ثروت مند لوگوں نے اپنا سرمایہ حضورؐ کی خدمت میں پیش کرکے اپنا کاروبار ان کے سپرد کرنا شروع کردیا۔ حضرت سیدہ خدیجہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اس دور میں پیشہ تجارت سے وابستہ تھیں اور ایک مالدار خاتون تصور کی جاتی تھیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح انہیں کاروباری معاملات میں آپؐ کی خوبیوں اور کامیابیوں کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنا مال تجارت حضورؐ کے سپرد کردیا جو اونٹوں پر لاد کر دور دراز علاقوں میں جائز منافع پر فروخت کر دیتے۔ تجارتی لین دین میں آپؐ سے معاملہ کرنے والے سب لوگوں نے امانت داری کی وجہ سے آپؐ کو امین کا لقب دے دیا اسی بنیاد پر قبیلہ قریش نے بھی آپؐ کو صادق و امین قرار دیا اور پاک نفس، دانا و حلیم اور بلند اخلاق و بلند کردار تسلیم کیا۔ حضورؐ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ پر لرزہ طاری ہوگیا، گھر پہنچ کر آپؐ نے ام المومنین حضرت خدیجہؓ کو سارا واقعہ بیان فرمایا اور کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ حضرت خدیجہؓ نے اس پر فرمایا کہ آپؐ گھبرائیں نہیں۔ آپؐ صادق ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، فقیروں مسکینوں کی مدد کرتے ہیں، مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور انصاف کی خاطر لوگوں کی مصیبتوں میں کام آتے ہیں۔ اس سے قبل بھی قریش معاملات میں کھرا پن، وعدے کی پاسداری اور انتہائی دیانت داری کے یکتا اوصاف کی وجہ سے آپؐ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارنے اور یاد کرنے لگے تھے۔ پھر یہ ایک اصطلاح بن گئی جو صرف آپؐ سے مخصوص ہے اور صادق اور امین کے الفاظ ایک ساتھ آجائیں تو حضورؐ کے سوا کسی اور کا تصور بھی ممکن نہیں۔ تین سال تک دعوت وتبلیغ کا عمل پوشیدہ طور پر جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب باقاعدہ اعلان نبوت کا حکم ہوا تو ایک دن آپؐ کوہ صفا تشریف لے گئے اور پہاڑی پر کھڑے ہو کر پکارا ’’یا صباحا‘‘ ۔ عرب میں دستور تھا کہ کوئی خطرہ درپیش ہوتا تو ایک شخص کسی اونچی جگہ پر چڑھ کر یہ الفاظ پکارتا اور لوگ اس کی پکار پر نیچے جمع ہو جاتے۔ آنحضورؐ نے یہ ندا دی تو قبیلہ قریش کے بہت سے لوگ کوہ صفا کے نیچے جمع ہوگئے۔ ان میں آپ کا چچا ابو لہب بھی شامل تھا۔ لوگوں کے جمع ہونے پر حضورؐ نے فرمایا ’’لوگو !‘‘ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر جمع ہے اور تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو سچ مان لوگے؟ ہجوم کی جانب سے جواب آیا ’’بے شک ہم مان لیں گے کیونکہ آپؐ نے آج تک کوئی بات جھوٹی نہیں کہی اور ہم آپ کو صادق اور امین سمجھتے ہیں‘‘ تب آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! میں تمہیں ایک خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہوں اور بتوں کی پوجا سے بچانا چاہتا ہوں۔ اگر تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں ایک بہت سخت اور دردناک عذاب سے ڈراتا ہوں‘‘ قریش نے یہ بات سنی تو سخت برہم ہوئے۔ ابو لہب نے تو نہایت غضبناک ہوکر کہا ’’کیا تم نے بس یہی بتانے کے لئے ہمیں پکارا تھا‘‘۔ گویا اہل قریش آپ پر فوری ایمان تو نہ لائے لیکن آپ کے صادق اور امین ہونے کا برملا اقرار کیا۔
آئین پاکستان کی دفعہ62کے تحت پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کا رکن منتخب ہونے کا اہل صرف وہ شخص ہے جس کا کردار اچھا ہو۔ جس کی عمومی شہرت اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے جیسی نہ ہو، جو اسلامی تعلیمات کا بخوبی علم رکھتا ہو، اوامر کی پابندی کرتا ہو اور گناہوں سے بچتا ہو، عاقل اور اعلیٰ درجے کا ذہین ہو، سچا ہو، فاسق، فاجر، عیاش اور بدکار نہ ہو، دیانتدار اور امین ہو اور ان حوالوں سے کسی عدالت سے خلاف ورزیوں کا مرتکب اور منکر قرار نہ دیا گیا ہو۔ آئین کی اس دفعہ میں ہمارے منتخب نمائندوں کی اہلیت کے لئے صادق اور امین ہونے کے علاوہ بھی کئی شرائط درج ہیں جو در حقیقت صادق و امین ہی کا تتمہ ہیں، صادق اور امین کی ترکیب مفہوم کے اعتبار سے ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے اور اس کا اطلاق صرف اللہ کے نبی ﷺ پر ہی ہو سکتا ہے کسی دوسرے انسان سے اس اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی لیکن ہماری دروغ مصلحت آمیز پر مبنی سیاست میں جو شخص عدالت میں دائرکسی ایک بے قاعدگی کے ارتکاب سے بری ہو جائے تو لوگ اسے بھی صادق اور امین کا خطاب دے دیتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی دوسری بے قاعدگیوں میں ملوث ہو۔ یہ صادق اور امین کے پیغمبرانہ وصف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اور اخلاقیات سے بے بہرہ عمومی سیاست میں آج کل اس کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاست کے میدان میں بہت اچھے اعلیٰ اخلاق کے حامل اصول پرست اور نیک لوگ بھی ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے دن رات جھوٹ بولتے ہیں کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں، وعدے کسی سے کرتے ہیں اور پیسے لے کر ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں، مخالفین پر الزامات لگاتے ہیں اور ثبوت پیش نہیں کرتے اپنی ایسی خوبیاں گنواتے ہیں جو ان میں سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ جب صورت حال یہ ہو تو ضروری ہے کہ ’’صادق اور امین‘‘ کی اصطلاح کی حرمت قائم رکھنے کے لئے متبادل الفاظ استعمال کئے جائیں اور آئین میں بھی متبادل الفاظ ہی شامل کئے جائیں۔