• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

امامُ الاولیاء، سید اجمیر حضرت خواجہ غریب نوازؒ

امامُ الاولیاء، سید اجمیر حضرت خواجہ غریب نوازؒ

محمد عبدالمتعالی نعمان

دین مبین کی نشر و اشاعت اور تبلیغ اسلام میں اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی جدوجہد اور کردار مثالی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے، ان کا وجود معاشرے میں ایک اصلاحی ادارے کی حیثیت سے ہر دور میں کام کرتا رہا ہے۔’’اجمیر شریف‘‘ راجستھان بھارت میں واقع وہ عظیم خطہ ہے، جہاں سے سلطان الہند، امام الاولیاءشیخ الا سلام ،سیدا لطائفہ حضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری ؒکا فیض پوری دنیا میں پھیلا۔ حضرت معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نوازؒ اسلامی تصوف کی تاریخ میں برگزیدہ ترین بزرگ ہستیوں میں سے ایک ہیں۔

سلسلۂ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت و تبلیغ اسلام کا نقطہ ٔ آغاز تھی، ولی کامل حضرت معین الدین چشتیؒکے ہاتھ پر کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ 

سلسلہ چشتیہ ہندوستان میں آپ ہی کی بدولت پھیلا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق نوے لاکھ افراد آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاک و ہند میں مسلمانوں کی تعداد کی کثرت بہت کچھ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی کوششوں اور روحانیت کی مرہون منت ہے ،ان میں سے ایک بڑی تعداد آپ کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوئی۔ آپ کے علم و فضل اور تعلیمات کا فیض آج بھی جاری ہے۔

حضرت خواجہ غریب نواز کا اسم گرامی حسن اور لقب معین الدین ہے، آپ کے والد ماجد کا اسم شریف سید غیاث الدین تھا ،آپ 1141ء میں علاقہ سجستان (سیستان) میں پیدا ہوئے، اسی لئے آپ کو سنجری کہا جاتا ہے۔ سیستان خراسان کے جنوب میں واقع ہے، اس وقت اس کا کچھ حصہ ایران میں شامل ہے اور کچھ افغانستان میں۔نشو و نما افغانستان میں پائی۔ شجرہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت امام حسین بن علی المرتضیٰؓسے جا ملتا ہے۔

آپ ابھی پندرہ برس ہی کے تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اسی اثنا ءمیں مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیؒ جو مجذوب بھی تھے کی توجہ سے طلب حق کا جذبہ پیدا ہوا۔ 

چنانچہ وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر تحصیل علم کے لئے سمرقند و بخارا ،جو ان دنوں اسلامی علوم و فنون کے مرکز سمجھے جاتے تھے، کا سفر اختیار کیا، پہلے قرآن حکیم فرقان حمید حفظ کیا اور پھر علوم دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی۔ اس زمانے کے ممتاز علما سے کسب فیض کیا۔ 

سمر قند سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے اور نیشاپور کے قریب قصبہ ہارون یا ہرون میں مشہور بزرگ حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف بیعت حاصل کیا۔ 

سید محمد بن مبارک کرمانی سیرت الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ بیس سال تک آپ حضرت عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں سلوک و طریقت کی منازل طے کرتے رہے اور سفر و حضر میں ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔ 

بیس سال بعد حضرت خواجہ ہارونیؒ نے مکہ مکرمہ میں آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کی مقبولیت اور آپ کے حق میں خدا اور اس کے رسول ﷺکی بارگاہ میں دعا فرمائی۔ مدینۃ النبیﷺ کی حاضری میں حضور اقدس ﷺ نے آپ کو ہندوستان جانے کا حکم دیا اور بشارات سے نوازا، اس کے بعد آپ نے کسب روحانی کے لئے مختلف مقامات کا سفر کیا اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ 

ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا، جن میں شیخ نجم الدین کبریٰؒ، شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، شیخ یوسف ہمدانیؒ، شیخ ابو سعید تبریزیؒ، شیخ محمود اصفہانیؒ اور شیخ ناصر الدین استر آبادی کا نام سر فہرست ہے، بعض تذکروں میں آپ کا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملاقات کا بھی ذکر موجود ہے، کچھ عرصے آپ ہرات میں رہے اور شیخ الاسلام شیخ عبداللہ انصاری کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ 

پھر غزنی سے ہوتے ہوئے لاہور تشریف لائے اور سردار اولیاء شیخ ابو الحسن علی بن عثمان ہجویریؒ کے مزار پر چند روز معتکف رہے۔ روحانی فیض حاصل کیا اور اسلامی علوم و تعلیمات کو پھیلانے کے لئے لاہور سے براستہ ملتان دہلی اور دہلی سے اجمیر تشریف لے گئے۔

آپ 573ھ کے بعد سلطان شہاب الدین غزنوی کے اجمیر پر حملے کے دوران وارد اجمیر ہوئے ۔اجمیر اس وقت راجپوت طاقت و حکومت اور ہندو مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ لہٰذا راجہ پتھورا کے حکام نے خواجہ صاحب کے قیام میں بڑی مزاحمت کی اور جب وہ خود ان کے مقابلے میں بے بس اور لاچار رہا تو ہندو جوگیوں اور جادوگروں کو اپنے جادو سے خواجہ صاحب کو مغلوب کرنے کیلئے مامور کیا، لیکن حضرت معین الدین چشتیؒ اپنی روحانی قوت اور کرامات سے ان پر غالب رہے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ 

آپ کی تعلیمات سے خواص و عوام کے ساتھ ساتھ راجہ پتھورا کے ملازمین بھی مشرف بہ اسلام ہونے لگے، حتیٰ کہ پرتھوی راج کے ایک بیٹے نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ چنانچہ آپ کی تعلیمات اور آپ کے فیضان کے اس اثر کو روکنے کے لئے راجہ نے حضرت کو اجمیر سے نکال دینے کی دھمکی دی، مگر خواجہ صاحب نے اس دھمکی کے جواب میں صرف یہ ارشاد فرمایا: ہم نے اس کو باہر کردیا ہے‘‘۔ آپ کی یہ پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی اور سلطان شہاب الدین غوری نے پتھورا کے خلاف دو حملے کئے اور آخری حملے میں پتھورا گرفتار ہو کر مارا گیا اور اس کے بعد اسلامی سلطنت کے قیام و استحکام اور حضرت معین الدین چشتی ؒ کے فیوض و برکات سے ہندوستان اسلام کے نور سے منور ہوا اسلام کا ڈنکا بجنے لگا ، کفر و فساد کی جڑ کٹ گئی اور ہندوستان کی روحانی تسخیر اور اخلاقی و ایمانی فتح خواجہ بزرگ، شیخ الاسلام نائب رسول اللہ فی الہند حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے حصے میں آئی۔بقول اقبال

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ولایت، بادشاہی، علم اشیاء کی جہانگیری

یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایمان کی تفسیریں

حضرت معین الدین چشتیؒ ہندوستان کے امام الطریقت تھے، آپ ہی سے ہندوستان میں علوم و معرفت کا آغاز ہوا، آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں۔ حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ جس پر نظر ڈالتے ، وہ صاحب معرفت ہو جاتا ۔ 

آپ کو علوم ظاہریہ و باطنیہ دونوں میں کمال حاصل تھا۔ آپ کے فقر،اخلاق کی پاکیزگی، صاف ستھری زاہدانہ اور بے طمع زندگی، ایمان و یقین کی قوت، خلق خدا کے ساتھ ہمدردی اور بلا تفریق مذہب و ملت انسان سے محبت انسانیت کا احترام اور جرأت ایمانی دیکھ کر مخالفین بھی معتقد اور دشمن بھی دوست بن گئے۔

ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتا ہے ’’آپ اجمیر شریف میں گوشہ نشین ہوئے اور ہدایت کے بے شمار چراغ روشن کئے ،آپ کے نفس قدسیہ کی برکت سے لوگوں کی بڑی بڑی جماعتیں اسلام میں داخل ہوئیں۔

قدیم تذکروں سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت خواجہ اجمیری ؒ کی زندگی بڑی سادہ مگر نہایت دلکش تھی ،ہندوستان کے سب سے بڑے سیاسی و سماجی اور روحانی انقلاب کا یہ بانی ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں نہایت سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ آپ اکثر روزے سے رہتے تھے۔

آپ کے کمالات و خدمات کی وجہ سے مولانا آزاد بلگرامی نے حضرت خواجہ اجمیریؒ کو ساتویں صدی ہجری کا مجدد کہا ہے ،اس طرح صاحب سیرالاقطاب کا یہ لکھنا بھی صحیح ہے کہ ’’ہندوستان میں حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ کے دم قدم کی برکت سے اسلام کی اشاعت ہوئی اور کفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی۔‘‘

حضرت خواجہ غریب نواز ؒنے کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی آپ کے ملفوظات کوان کی تصانیف سمجھ کر درج ذیل کتابیں آپ کی طرف منسوب ہیں۔

(1)انیس الارواح۔(2)رسالہ ورکسب فیض۔(3)دلیل العارفین۔ان ملفوظات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خواجہ صاحب کے نزدیک اہل سلوک کا ہر قسم کے صدری و معنوی اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک تصوف نہ علم ہے، نہ رسم بلکہ مشائخ کا ایک خاص اخلاق ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے۔ 

آپ کے نزدیک اولین ضرورت شریعت کی ہے یعنی صدری حیثیت سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو ،جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت سرزد نہ ہو گی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے اور جب اس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا اور جب اس میں بھی پورا اترے گا تو حقیقت کا درجہ پائے گا جس کےبعد اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگے گا، اسے ملے گا۔

یہی وجہ ہےکہ خواجہ اجمیرؒ نے شریعت کے تمام ارکان اور جزئیات خصوصاً نماز کی پابندی پر بہت زور دیا ہے ،چنانچہ فرمایا ہے کہ جب نماز پڑھے تو اس طرح کہ وہ گویا انوار وتجلی کا مشاہدہ کر رہا ہو۔آپ کے متعدد خلفاء تھے، تذکروں میں آپ کے تیرہ خلفا ءکے نام لکھے ہیں، ان میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور شیخ حمید الدین صوفی ناگوریؒ زیادہ مشہور ہیں۔

آپ نے آخر وقت تک اجمیر ہی میں قیام فرمایا اور یوں تقریباً نصف صدی تک ارشاد و تلقین، اشاعت اسلام اور ہزاروں مریدین کی تعلیم و تربیت کرنے اور یاد حق میں سرگرمی سے مشغول رہنے کے بعدوصال فرمایا،داعی اجل کو لبیک کہا۔آپ کی وفات سلطان التمش کے دور میں ہوئی اور تاریخ وفات بقول جمہور اہل تاریخ 6رجب یوم دوشنبہ ہے۔سیر العارفین کے مصنف کا بیان ہے کہ وفات کے وقت سن شریف 97سال تھا۔

سید محمد بن مبارک کرمانی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ وفات کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒکی پیشانی مبارک پر یہ نقش ظاہر ہوا ’’حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘ (یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں فنا ہوگیا)

کئی حکمرانوںنے آپ کے دربار میں حاضری کو دین اور دنیا کی سعادت جانتے ہوئے اپنے تعلق اور دلی عقیدت کا اظہار کیا۔ آپ کی تعلیمات کا فیضان آج تک جاری و ساری ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی در گاہ کی زیارت کے لئے زندگی کے ہر شعبے اور طبقہ فکر کے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین