دنیا کے نامور کاروباری کلچر سے وابستہ وقت کی گردش اور کاروباری فلسفے پر بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں ان میں سے ایک ’’سر رچرڈ برنسن‘‘ بھی معروف بزنس مین جنگ اخبار اور دی نیوز میں بھی ان کے کالم شائع ہوتے ہیں اوروہ کاروبار کرنے کے ایسے گوشے اجاگر کرتے ہیں جو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں اسی طرح سونی کے سربراہ شوجی نے بھی ایک بزنس کتاب پر لکھی اور انہوں نے بتایا کہ کاروبار کو وقت کے تناظر میں دیکھا اور وقت کو ماضی ، حال اور مستقبل میں تقسیم کرکے جاپان اور امریکا کے تہذیبی وقت کا تجزیہ کیا اس کتاب کا نام ’’زندگی کا رقص اور وقت کے دوسرے پہلو‘‘ (اردو ترجمہ) اس میں جاپان اور مغرب کو کس طرح سمجھا جائے اور کیسے کاروبار کی بات کی جائے اس بارے میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
وقت کا پیمانہ اور کاروبار
’’مجھے یہ جان کر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ جاپان سے شناسائی کا ایک ذریعہ وہاںکا تہذیبی وقت ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے اور اسی تناظر میں ان کے کاروبار کا فلسفہ بھی سمجھ آسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر یوں سمجھ لیجئے کہ جاپان میں وقت کا پیمانہ ، بدھ مت اور خلائی دور کا تصور یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کچھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ بعض اوقات کسی مغربی باشندے کے لئے اس تعلق کی نوعیت کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے یہ بھی نہیں کہتا کہ جاپانیوں کے لئے مغرب کو سجھنا آسان ہوتا ہے‘‘۔
پاکستان میں کاروباری مارکٹنگ کے انداز
کراچی شہر ایسا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں مارکٹنگ کو ایک علم کی حیثیت سے پڑھا بھی جاتا ہے اور اب تو بزنس اسکولوں میں مارکٹنگ کا نصاب بھی خاصا بہتر ہوگیا ہے ورنہ پاکستان میں تو سیلز مین کا تصور یہ رہا ہے کہ بس ایک گاہک کو ایک مرتبہ ہی سودا سلف دینا ہے یہاں کاروبار باقاعدہ علمی طریقے سے چلانے کوئی خیال یا کوئی فلسفہ موجود نہیں ہے۔ تاہم اب تو اخبارات میں بھی مارکٹنگ کا شعبہ پڑھے لکھے نوجوانوں سے آراستہ ہوگیا ہے اگر جاپان سے موازانہ کیا جائے تو وہاں آپس ہم آہنگی نظر آتی ہے وہاں سخت نوعیت کی مسابقت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔
اب یہ ضرور نظر آتا ہے کہ زیادہ فروخت کرو تو زیادہ کمیشن ملے گا ورنہ پہلے تو سیل مین گاہک کی مدد کرنے کے بجائے ا سے جان چھڑانے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب یہ رویہ رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے لوگ اگر اس فلسفے کو سمجھ جائیں کہ ’’طویل ترین راستہ ہی مختصر ترین راستہ ہوسکتا ہے‘‘۔ پاکستان اور تیسری دنیا میں اڈہاک اور عارضی کاموں کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ کام حکومتیں بھی کرتی ہیں اس لئے ترقی کے راستے دشوار ہوگئے ہیں ورنہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس بروئے کار لایا جائے تو دس سال میں کم از کم ملائیشیا سے زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔
مالک کا کردار الگ ، انتظامیہ الگ اور سیٹھ کلچر ختم کیسے؟
پاکستان میں اب بھی سیٹھ کلچر پایا جاتا ہے جس سے کاروبار جدید مارکیٹنگ سے آشنا نہیں ہوتا تاہم امریکا میں جب کارپوریٹ اور کارپوریشنوں کے اندر مالک کا کردار الگ ہوگیا اور انتظامیہ الگ ہوگئی تو پروفیشنل انتظامیہ سامنے آگئی۔ اور اعلیٰ سطح کے کاروباری فیصلے خود کرنے لگے۔ پاکستان میں اس کے بجائے بورڈ بنادیئے گئے جس میں مختلف ٹیکنو کریٹس اور بیوروکریٹس اس بورڈوں کے بحران بن گئے لیکن حکومتوں کی مداخلت کی وجہ سے بورڈ زیادہ بہتر کام نہیں کرسکے۔ ظاہر ہے جب پروفیشنل افراد کے ہاتھ میں کاروبار ہوگا تو پیش بینی سے کام لیں گے۔ دریافتیں اور اختراعات سامنے آئیں گی۔ کاروبار کو فروغ ملےگا۔
پاکستان کی برآمدات بہت کم ہیں۔ ٹیکسٹائل بحران رسیدہ ہے برآمدات کی توسیع کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔ ملکوںملکوں پاکستان کی ثقافت اور صنعتی مال کو اجاگر کرنے کے لئے سفارت کار، بزنس مین اور مختلف لابیز کومارکیٹنگ کے لئے کام کرنا ہوگا۔ ملک کے اندر لاگت مناسب سطح پر رکھنا ہوگا ورنہ برآمدات نہ بڑھیں تو روپے کی قدر گرتی رہے گی۔
ماضی ، حال اور مستقبل کا کاروباری فلسفہ
امریکا میں انتظامی عہدیدار زمانہ حال میں موجود رہتے ہیں اور اسی میں کاروبار چلاتے ہیں۔ ایک کاروبار ی اسکالر بیلون ایک جگہ لکھتا ہے کہ ’’ان کی نظریہ ہمیشہ مستقبل پر لگی ہوتی ہیں، یورپ والے حال میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے کاروباری بھی زمانہ حال کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے ’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘ لیکن اسٹاک مارکیٹ میں مستقبل کے سودے پاکستان میں بھی حال میں ہوتے ہیں لیکن بیلون کا کہنا ہے کہ بے شک یورپ کے کاروباری حال میں رہتے ہیں لیکن ان کی نظریں ماضی پر رہتی ہیں یعنی وہ تجربے کو بھی اہمیت ہیں۔ تاہم امریکی کاروباری مستقبل پر زیادہ زور دیتےہیں لیکن حال کو ترجیح دیتے ہیں۔
بچوں کے ساتھ ماضی اور کاروبار میں ماضی بطور مستقبل دیکھنا
آپ نے پاکستان، جاپان ، یورپ اور امریکا میں کاروبار کرنے کی سوچ کے انداز پڑھ لئے لیکن جاپان کے لوگ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ بچوں سے والہانہ پیار اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ بچوں میں اپنے بزرگوں کو دیکھتے ہیں اس لئے کاروبار میں بھی وہ حال میں رہتےہوئے ماضی کو ضرور دیکھتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ مستقبل ایک پتنگ کی طرح ہے جتنی دور تک فضا میں جاسکتے ہیں وہ ہماری مرضی ہے اور جب جی میں آیا پتنگ کو اتار لیا اور حال میں آگئے اس لئے اگر جاپان کی معاشی تاریخ کو دیکھا جائے تو ان کا گراف کبھی بلندی پر ہوتا ہے اور کبھی پستی کی طرف ہوتا ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ بچت جاپانی کرتے ہیں اور پھر اپنی بچتوں کو بروئے کار لاکر ملک کو پھر بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔
کاروباری کلچر پر کتابیں لکھنے والوں کے فکری انداز
ایڈرورڈ ہال، رچرڈ بزنسن کاروباری عالم اور اسکالر ہیں اسی طرح پروفیسر رابرٹ بیلون ٹوکیو کی صوفیہ یونیورسٹی میں انتظامی امور کے پروفیسر اور ماہر ہیں۔ وہ جاپان میں تجارت کے موضوع اپنے مطالعہ اور تبصرے کر نے میں مشہور ہیں۔
ایڈروڈ ہال کی بہت سی تصانیف ہیں وہ مختلف تہذیبوں کے درمیان تعلقات پر اکثر لکھتے ہیں ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ وقت جیسی سامنے کی چیز کو سمجھنے میں مختلف معاشروں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے تاہم اکثر لوگ اس نقطے کو نظرانداز کرتے ہیں ہر ملک کا دنیا تہذیبی وقت ہوتا ہے جس کے مطابق کام کرتے ہیں۔
یقین کریں میں کبھی مایوس نہیں ہوا!
رچرڈ برنسن ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے فکری انداز کو اس طرح پیش کرتے ہیں ’’میں نئے تصورات پر جامع تحقیق کرتا ہوں بہت سے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ا ن کا اس ضمن میں کیا خیال ہے یا وہ اس صورت حال کا کیا تجربہ رکھتے ہیں لیکن بہت سے مواقع پر میں اپنے وجدان سے بھی کام لیتا ہوں۔
آپ صرف اعداد و شمار اور رپورٹس کی بنیاد پر ہی فیصلے نہیں کرسکتے کسی نئے منصوبے کو شروع کرنے کے لئے بہرحال حوصلہ درکار ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو پیش بینی کی صلاحیت بھی چاہئے۔ آپ رسک لینےسے خائف نہ ہوں۔ اس رویے نے میری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی برپا کی ہے یقین کریں میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔