• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 یونیورسل ایجوکیشن…سب کیلئے

آرٹیکل A-25ہمارے آئین کے مطابق 25سے 16برس تک تمام بچّوں کیلئے ’تعلیم بنیادی حق‘ قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف حکومتیں کوششیں کرتی رہیں کہ مذکورہ عمروں کے بچّے کسی نہ کسی طرح اسکولوں میں داخل ہوں اور مجموعی طور پر انرولمنٹ میں اضافہ ہو۔ پہلے حکومتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ 25Aآرٹیکل کے تحت بچّوں کو کم از کم پرائمری تعلیم کو یونیورسلائز کیا۔ بدقسمتی سے حکومتیں اس میں بھی ناکام رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 2%مختص کیا جاتا ہے۔

پنجاب کی صورتحال

پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ پرائمری کی سطح پر انہوں نے 90%بچّوں کی شرکت یقینی بنا دی ہے لیکن یہ بات صاف نہیں ہے کہ پنجاب حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے، وہ درست ہے۔ کیونکہ لفظ جو استعمال کیا گیا ہے اس میں ابہام ہے، شرکت کرنے اور انرولمنٹ معنیٰ بالکل جدا ہیں۔ شرکت کو ہم خالص یا ملی جلی انرولمنٹ کی شرح کے ساتھ کس طرح منسلک کرتے ہیں اور ہم کس طرح پرائمری کی سطح تک تعلیم مکمل کرنے والے بچّوں کا تخمینہ لگا سکتے ہیں کیونکہ انرولمنٹ کے بارے میں باقی تینوں صوبوں کی شرح پنجاب کے مقابلے میں کم ہے۔ 

اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ پنجاب پڑھا لکھا ہو گیا ہے اور دیگر صوبے ابھی جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن یہ اکثر دلیل دی جاتی ہے، خاص طور پر تعلیم سازی کے سرکل میں، جہاں تعلیمی نظام سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ بچّے کو اسکول میں داخل کروا دیں، اس کے بعد تعلیم کے معیار اور دیگر ایشو پر غوروفکر کرنے کی باری آتی ہے۔ وسیع تر معنوں میں پالیسی کا مطلب تو یہ ہوا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اعدادوشمار کے دھندے میں گرپڑ کر دیگر مسائل کو صرف نظر کرتی ہیں۔

تعلیمی معیار

اب دو چیزیں سامنے آ گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومتیں کس طرح اس قابل ہوں کہ وہ بچّوں کو اسکول تک لے آئیں اور اس کے بعد اس بات پر غور و فکر کریں کہ معیار تعلیم کیسا ہو…؟اور نصاب کیسا بنایا جائے گا؟ میرے خیال میں تعلیمی بیوروکریسی کسی فکری مغالطے کو طوالت دے کر اجلاس، اجلاس کھیلتی ہے اور تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے مگر بچّوں کو مناسب اور اعلیٰ معیار کی تعلیم نہیں دی جاتی اور نہ ہی تعلیم کو اتنا دلچسپ بنایا جاتا ہے کہ بچّے اس میں دلچسپی لیں۔ 

کیا تعلیمی معیار ایسا ہے کہ جس میں تعلیمی میٹیریل اور معاشرے کی اقدار کے ساتھ منسلک رکھا گیا یا کتابوں کو اتنا خوبصورت بنایا گیا ہے کہ بچّے اس کی طرف راغب ہوں، لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ نجی اسکولوں میں خاص قسم کی کتابیں خاص قسم کے کتب خانوں سے لینی پڑتی ہیں جو خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں غریب بچّے اس لئے نہیں پڑھ سکتے کہ وہ کتابوں اور کاپیوں کا لاگتی بوجھ نہیں اٹھا سکتے، باالفاظ دیگر ان کے والدین کی قوّت خرید اتنی نہیںہے کہ وہ بچّوں کو پڑھا سکیں۔ 

ہندوستان میں کیرالہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کو دنیا نے سراہا۔ ہندوستانی بنگال کی قیادت 21سال سے کمیونسٹ پارٹی کے پاس تھی اور ان کے حکمران جوتی باسو نے کیرالہ میں پڑھانے کی شرط یہ رکھی کہ بچّوں کو دوپہر کا کھانا دیا جائے گا اور گھر لے جانے کیلئے بھی طعام کا بندوبست کیا گیا، کاپیاں، کتابیں مفت فراہم کی گئیں اور آج کیرالہ کی شرح خواندگی سو فی صد ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی حکومت اپنے صوبے میں ایسا نظام جاری کر سکتی ہے۔

ہوسٹل سسٹم اور تعلیم

پاکستان میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچّوں کو ہوسٹل میں رکھا جاتا ہے لیکن اب حالات ایسے ہیں کہ والدین اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کے بچّے ہاسٹلز میں رہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بچّوں کو اسکول میں رکھنے کا کیا فائدہ ہے جبکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کو ملازمتیں نہیں ملتیں اس لئے بچّوں کے وقت کے مواقع صفر ہیں۔ 

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت دو کروڑبیس لاکھ بچّے 16سال کی عمر تک اسکولوں سے باہر ہیں لیکن ستم ظریفی یہ بھی دیکھئے کہ جو بچّے اسکولوں میں جاتے ہیں ان کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جاتی۔ ایسے مسائل سے کون سی حکومت نبردآزما ہو گی۔ لگتا ہے کہ یہ بھی ایک معجزا ہو گا اور ایسا کب ہو گا کہ یونیورسل ایجوکیشن اور آئین 25Aکے تحت 5 سے 16برس کے بچّے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ یہ بھی ایک خواب اور معجزا ہے۔

سرکاری اسکولوں کی حالت زار

بہت سے شواہد موجود ہیں جس میں ملک کے سرکاری اسکولوں کی حالت زار سامنے آئی ہے۔ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم نہایت خراب ہے اور نہ ہی ان کے اساتذہ تربیت یافتہ ہیں جو درست تعلیم بچّوں کو منتقل کر سکیں۔ خستہ حالت میں عمارتیں ہیں اور دیگر سہولتوں کے فقدان کا کیا ذکر کریں اور امتحانات کا طریقہ بھی عجیب ہے کہ 33%نمبر لے کر آپ کسی مضمون میں پاس ہو سکتے ہیں۔

کیا جدید دنیا میں اس طرح کی تعلیم ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کر سکتی ہے؟اس کے باوجود ان اسکولوں کے نتائج نہایت ہی خراب ہوتے ہیں جبکہ طالبعلم نقل بھی کرتے ہیں۔ پنجاب امتحانی کمیشن نے پانچویں جماعت کا پنجاب کے اسکولوں میں معائنہ کیا تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بچّہ بھی صحیح طور پر نہ لکھ سکتا ہے اور نہ ہی پڑھ سکتا ہے۔ 

ریاضی اور گرامر تو بڑی دور کی بات ہے لیکن نجی اسکولوں کی بھی حالت کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ چند ایک اشرافیہ اسکول ہیں جن کی فیسیں بہت بھاری ہیں۔ ان میں کسی حد تک اچھی ملازمت کیلئے اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ جو درمیانی نجی اسکول ہیں ان کے طالبعلم اسکول سے کم اور ٹیوشن سے زیادہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بعض زیادہ فیسیں لینے والے اسکول دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ معیاری تعلیم مہیا کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سرکاری اسکولوں سے معمولی بہتر تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ 

جن اسکولوں کی فیس کم ہوتی ہے ان کا تعلیمی معیار بھی کم ہوتا ہے البتہ بھاری فیسوں والے اسکولوں کے بچّے کو Oاور Aلیول پاس کرتے ہیں اور صرف انگلش ہی میں وہ دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں اس لئے یونیورسل ایجوکیشن کے تحت اگر حکومتیں بچّوں کو انرول بھی کرتی ہیں اور معیار تعلیم صفر ہو تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ…؟

اس سے تو بہتر ہے کہ بچّے کوئی ہنر مندی سیکھ لیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے لیکن پارلیمنٹ اور سینیٹ میں یونیورسل ایجوکیشن اور تعلیمی معیار پر کبھی کوئی مباحثہ دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔ اگر تعلیم کا یہی حال رہا تو پھر ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟

تازہ ترین