• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بڑھتی ہوئی صارفیت

آج ہم صارف معاشرہ کہلاتے ہیں جو چیزوں کا خریدار تو ہے موجد نہیں۔یہ خریداری آن لائن کی جاتی ہے ۔ابتدا صنعتی انقلاب سے ہوئی جس کا پس منظر بیان کرتے ہوئےایک امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ لکھتا ہے کہ صنعتی انقلاب درحقیقت صنعتی انقلاب نہ تھا، بلکہ یہ صارف انقلاب (کنزیومر ریوولیشن) تھا۔

صارفیت صرَف سے مشتق ہے۔ یعنی کسی چیز کو استعمال میں لانا۔ استعمال میں کسی شرط یا کسی قید کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر چیز خواہ اچھی ہو یا بری اس کے استعمال کو صارفیت کہتے ہیں۔ صارفیت کو ’’پوسٹ انڈسٹریل ‘‘ صورتحال سے تعبیر کیا گیاہے۔ انڈسٹریل عہد میں پیداوار پر زور تھا۔ پوسٹ انڈسٹریل صورتحال چیزوں اور پیدوار کے استعمال پر زوردیتی ہے۔ 

ایسا اس وقت ہوتاہے جب پیداوار بے قابو ہوجائے اور اس پر کسی قسم کا کنٹرول باقی نہ رہ جائے۔ زیادہ پیداور کے لئے زیادہ استعمال کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ صرَف کے لئے ضروری ہے کہ بڑا مارکیٹ ہو اور استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو۔ آج فری ماکیٹ اکانومی کا عہد ہے۔ 

فری مارکیٹ اکانومی نے ریاست کے کردار کو کمزور کردیاہے لہذا انسانی ضرورتیں پیدا کرنے کے لئے میڈیا سے مدد لی جاتی ہے۔ میڈیا اشتہارات کے ذریعہ روزآنہ ’انسانی ضرورتیں ‘‘ تخلیق کرتاہے۔ 

پہلے انسانی ضرورتوں کے پیش نظر چیزیں ایجاد یا تخلیق کی جاتی تھیں۔ آج ایجادات اور تخلیقات کے پیش نظر انسانی ضرورتوں کو تخلیق کیا جاتاہے۔ گویا آج میڈیا اور صارفی نظام باہم ہیں اور ایک دوسرے کامکمل تعاون کررہے ہیں۔

صارفیت زدہ عہد میں اس کے اثرات سے محفوظ رہ پانا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ صارفی نظام جس منصوبہ اور پالیسی کے تحت اپنے اثرات مرتب کرتاہے وہ انسان کے دل و دماغ پر چھاجاتے ہیں۔ یعنی ہر وقت انسان اس پالیسی کا ذہنی طورپر شکاررہتاہے۔ چاہتے ہوئے بھی ہم اس کے اثرات سے خود کو بچانہیں پاتے کیونکہ وہ صارفی نظام ہماری تہذیب اور روزمرہ کی ضرورتوں پر مسلط ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر ہم ناشتہ میں گھر پر بنائی گئی روٹی کی جگہ بریڈ اور جیم یا بٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ 

یہ استعمال صحت کے نقطۂ نظر سے نہیں ہوتابلکہ ہمیں یہ یقین دہانی کرادی گئی ہے کہ بریڈ، جیم یا بٹر جیسی مصنوعات ہی آسان بریک فاسٹ ہیںاور صحت کے لئے فائدہ مند ہیں۔ آج کے عہد میں انسان اتنا مصروف ہوچکاہے کہ اس کے پاس اپنی صحت پر دھیان دینے کا بھی وقت نہیں ہے۔ 

اس مصروف نظام زندگی کا فائدہ صارفی نظام کو پہونچتا ہے۔ ان کے بزنس ایکسپرٹ اور مارکیٹ کے تجزیہ نگار ایسے پروڈکٹس کی پیداور کی کھپت کا یقین دلاتے ہیں جو اس مصروف نظام زندگی میں با آسانی انسانی ضرورتوں پر محیط ہوسکے اوراسکے وقت کے تحفظ میں معاون ہو۔

اسی لئے سپرمارکیٹ کا دائرہ مزید وسیع تر ہورہاہے کیونکہ انسان الگ الگ مارکیٹ اور مختلف دوکانوں پر جاکر سامان خریدنے میں وقت برباد کرنا نہیں چاہتاہے۔ وہ ایک ایسی مارکیٹ کا خواہشمند ہوتاہے جہاں اس کیضرورت کا ہر سامان کم وقت میں اس کیدسترس میں ہو۔ 

اس صارفی نظام نے ہمیں اس قدر سہل پسند اور مطمئن بنادیاہے کہ ہم چیزوں کے برانڈ کو دیکھ کر اس کیکوالٹی کا یقین کرلیتے ہیں جبکہ اس برانڈ کی اہمیت کی یقین دہانی پر کمپنیاں کروڑوں روپے خرچ کررہی ہوتی ہیںتاکہ اس کا پروڈکٹ بد اعتمادی کی بنیاد پر ریجیکٹ نہ کردیاجائے۔ سرمایہ دار انہ نظام مارکیٹ میں برانڈ کے اعتماد اور کوالٹی کے یقین پر ٹکا ہوا ہے۔ 

اگر یہ یقین بحال نہ ہو تو سرمایہ دارانہ نظام کسی بوسیدہ عمارت کی طرح ڈھہ کر رہ جائے۔ جبکہ کنزیومر اس حقیقت کے ادراک سے عاری ہوتا ہےکہ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف پیداوار کے اضافہ پر نگاہ ہوتی ہے اس کیکوالٹی پر نہیں۔ 

اس نظام کی عمومی تعریف ہی اس طرح کی گئی ہے کہ ’’ ایک ایسا سماجی و معاشی نظام جو پیداوار کا ارتقاچاہتا ہے اور اس پیداوار کو ذاتی ملکیت میں بڑھوتری کی شرح برقرار رکھتے ہوئے اپنے منافع کی مقدار کو ذاتی معاشی افزودگی میں استعمال کرتا ہے، تاہم کولیٹرل بینیفٹ کے طور پر کچھ حصہ خودبخود معاشرے کے دیگر عناصر تک پہنچ جاتا ہے۔ 

یہ نظام انفرادی اور کارپوریٹ سماجی اکائیوں کو اپنے مرتکز سرمایہ کی ملکیت کی آزادی دیتا ہے۔ ‘‘مارکیٹ کے اس سسٹم پر نگراں ریاستی سسٹم بھی پیدوار کے ان حقائق سے بخوی واقف ہوتاہے مگر ان کمپنیوں اور مارکیٹ سے حاصل شدہ ٹیکس کی بڑی رقم ریاستی نگراں سسٹم کو آنکھیں موندنے پر مجبورکردیتی ہے۔

گلوبلائزیشن کے عہد میں ہر چیز کو خریدا اور بیچا جاسکتاہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو قابل استعمال نہ ہو۔ یہ عہد صارف کی پیدا وار کا عہد ہے۔ شے کی پیداوار کا عہد پرانا ہوچکاہے۔ اس لئے آج کا مارکیٹنگ سسٹم اور میڈیا شے کی پیداوار پر زور نہیں دیتا بلکہ شے کی پیداوار سے پہلے صارف پیدا کرلئے جاتے ہیں۔ 

جس چیز کو آپ آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں اسے بیش قیمت بناکر پیش کیا جاتاہے تاکہ کوئی چیز صارف کی دسترس میں نہ ہو۔ یا دسترس میں ہوتے ہوئے بھی وہ ان چیزوں کے استعمال پر یقین نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم برانڈیڈ چیزوں کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ خواہ وہ برانڈ کتنا ہی بے قیمت یا غیر ضروری ہی کیوں نہ ہو۔ 

ایک پانی کی بوتل سے لے کر انڈرویئر، اور ٹوتھ پیسٹ سے لے کر گاڑی تک ہم ہرچیز میں اچھا برانڈ تلاش کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں یہ بارور کرادیا گیاہے کہ اگر صحت ضروری ہے اور سماج میں مہذب لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو ان کے استعمال کی چیزوں کا اپنانا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین