• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر صاحب دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی پھٹ پڑے، چہرہ پسینے سے شرابور تھا، ہاتھ میں فائل تھی جو پسینے سےآدھی بھیگ چکی تھی، میں چونکا، سر! آپ جلدی آگئے؟ کیا کیس کا فیصلہ ہوگیا؟ بھنا کر بولے، تم نے تو میری یہ حالت آج دیکھی ہے، میں چھ سال سے ہر پیشی پر کسی فیصلے کی امید لگا کر کچہری جاتا ہوں کبھی مدعی اور کبھی وکیل غائب اور کبھی جج صاحب ہی نہیں ہوتے، گواہ تو کوئی ہے ہی نہیں جو جھوٹی گواہی ہی دے دے۔ بےگناہ ہوں، کیس بوگس ہے لیکن بے بسی اور بے انصافی میرا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ شاید فیصلہ میرے مرنے کے بعد بھی نہیں ہوگا۔ میں پریشان اور حیران تھا کہ ایک بہت ہی لاڈلے طالب علم نے کسی کی ایما پر پروفیسر صاحب کی چیک بک چرائی، چیک پھاڑا اور جعلی چیک دینے کے جھوٹے کیس میں پھنسا دیا۔ وہ لمحہ مجھے نہیں بھولتا جب آدھی رات کو پروفیسر صاحب نے پولیس کے گھر میں گھسنے اور اپنی گرفتاری کی خبر دی، مدد کے لئے مجھے پکارا، میں یا کوئی اور پنجاب پولیس کے سامنے بھلا کیا کرسکتا تھا، محترم بےگناہ استاد نے رات حوالات میں گزاری اور جانے کیا کچھ سہا، حوصلہ نہیں ہارا، مقدمے کا سامنا بھی کر رہے ہیں، لیکن انصاف کی دہائی کون سنے؟ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ بےانصافی کا شکار وہ اکیلے تو نہیں یہاں تو لاکھوں ان جیسے انصاف کے منتظر ہیں۔ جہاں اچھے اور برے وکیل کی تمیز کی جاتی ہو وہاں صرف اچھا وکیل کرنے والا امیر ہی انصاف حاصل کرسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا مقدمہ ہے کہ جب جرم ہونے کا وقت مقرر نہیں تو عدالتوں کا وقت مقرر کیوں ہے؟ جہاں 30لاکھ کیسز زیر التواہوں وہاں تشہیری کارکردگی کے بجائے عدالتوں کو24 گھنٹے کام کرنا چاہئے۔ پروفیسر صاحب کا سوال ہے کہ ملک میں جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے، طرز حکومت اچھا نہیں اور ملکی ادارے کام نہیں کررہے، تو کیا عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں؟ اور کیا وہ اپنا کام چھوڑ کر انتظامیہ کا کام سنبھال لیں؟ بلاشبہ ریاست کے ایگزیکٹو، مقننہ اور جوڈیشل سسٹم کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ آئین کو بالاتر اور تمام آئینی اداروں کے سربراہوں کو طاقتور ہونا چاہئے، تاہم موجودہ جمہوری نظام میں آئین کا خالق ادارہ اور اس کا منتخب وزیراعظم جو دراصل ریاست کا چیف ایگزیکٹو ہے، ہمیشہ سب سے کمزور دکھائی دیتا ہے، بدقسمتی سےچیف ایگزیکٹو کی اتھارٹی تسلیم کئے جانے کے بجائے دیگر دو ادارے اپنی اتھارٹی منوانے پر مصر رہتے ہیں، ستر برسوں میں 40سے50 برس انہی دو اداروں کا راج رہا اور گویا اب بھی ہے۔ پروفیسر صاحب کی رائےمیں شاید ہم نفسیاتی مرضBipolar disorderکا شکار ہیں، یعنی ایسی بیماری جس میں ہر دو قسم کی کیفیات میں جذبات کی انتہائوں کو چھونے لگتے ہیں، غمگین ہوتے ہیں تو انتہائی غمگین، خوش ہوتے ہیں تو انتہائی خوش، خوشی سے غمی اور غمی سےخوشی میں تبدیل ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ تاریخ اٹھا کر اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاہ ولی اللہ قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ لکھتےہیں تو ان کو کافروں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے، قائد اعظم کی خوش لباسی اور جدت سے خفا ہوکر کافر اعظم قرار دیا جاتا ہے اور علامہ اقبال کو شکوہ جواب شکوہ پر نجانے کن کن القابات اور الزامات سے نوازتے ہیں، آزادی کے بعد بھی یہ انتہاپسندانہ رویہ رکا نہیں آج دہشت گردوں سے بچ کرعلم کی شمع جلا کر پاکستان کا تعارف بن جانے والی ملالہ کی اپنے گھر واپسی کو بھی سازش قرار دیتے ہیں۔ ہم ایسے ہیں کہ انسانیت کے بجائے سوچ، خیالات، عقائد اور طرز زندگی کی بنیاد پر دوسروں کے بارے میں فیصلہ اور اپنا نظریہ مسلط کرتے ہیں، معاشرتی طبقاتی تقسیم کا شکار ایسے ہوتےہیں کہ ایک ہی وقت میں کسی کو اپنا ہیرو اور اسی وقت میں نفرت و حقارت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ پروفیسرصاحب کی نظر میں یہ سب شاید اس لئے ہے کہ ہم خود سے مخلص نہیں، عدم برداشت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، ہم عادات و اطوار اور رویوں میں کسی بھی سطح پر گریجویل پراسیس کےعادی نہیں، ہم آئین کی بات کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کرنا توہین سمجھتےہیں، جمہوریت کا نام لیتےہیں لیکن آزادی اظہار رائے تک کی اجازت نہیں دیتے اور یہی زبان بندی پریشر ککر بن جاتی ہے، جو پھٹتا ہے تو تباہی پھیلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب کی رائے میں ترقی یافتہ ملکوں میں جمہوری اصولوں کی پاسداری کی مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ وہاں رائے کے اظہار کو عزت دی جاتی ہے، دنیا میں امریکی صدر کا عہدہ طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے، ان کے فیصلوں سے لے کر ذاتی زندگی تک کے بارے میں روزانہ تنقیدی خبریں چھپتی اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی ہیں جن پر تنقید اور وضاحت توہوتی ہے لیکن اظہار رائے، چینل یا اخبار پر پابندی کی کوشش نہیں کی جاتی۔ وطن عزیز میں بھی جمہوریت کا دور دورہ ہے لیکن جمہوری رویے دکھائی دے رہے ہیں نہ سجھائی دے رہے ہیں، ماضی کی طرح محض الزامات لگا کر پاکستان میں صحافت کی شناخت جنگ اور جیو کو عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے، زبان بندی کی کوششیں عروج پر ہیں، مختلف شہروں میں جیو کی نشریات بند کردی گئی ہیں، سچ لکھنے اور بولنے والوں پر اعصاب شکنی کےحربے آزمائے جارہے ہیں، الزام لگانے والے حقیقت میں جھانک کر دیکھیں تو70 سے80 چینلز میں سے ایک چینل کو مرضی کی تشریح نہ کرنے کا مجرم قرار دے کر قابل گرفت قرار دینا انصاف کے اصولوں کا خون کرنے کے مترادف ہےحالانکہ کم و بیش سبھی آپ کےطرف دار نظر آتے ہیں، اب اگر پہلے کی طرح پھر زبان بندی کی بھی گئی تو عوام کی چاہت اور پسندیدگی تو بزورطاقت ختم نہیں کی جاسکتی، چینل ریموٹ سے نہ ملا تو عوام انٹرنیٹ پر ڈھونڈ نکالیں گے۔ آئین کی حفاظت کا ذمہ عدالت عظمیٰ کے سر ہے اور آرٹیکل 19بھی اسی آئین کا حصہ ہے، بقول حسرت موہانی
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
روس کے معروف ناول نگار میکسم گورکی کے شہرہ آفاق ناول ’’ماں‘‘ کا آخری مکالمہ مزدور بیٹوں پر ریاستی تشدد کے جواب میں جذبات گرما دیتا ہے، درد سے کراہتی ماں کہتی ہے "زندگی کبھی کبھی بڑی کٹھن ہوجاتی ہے، لوگ مار کھاتے ہیں، بے رحمی سے مارے جاتے ہیں، ان پر مسرت کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، لیکن ہمارے بچے بلند حوصلوں سےقدم آگے بڑھاتے جارہے ہیں، ایک ہی منزل کی طرف۔ ان کے دل پاکیزہ ہیں، ان کے ذہن منور ہیں، اور بدی کےخلاف قدم جمائے جھوٹ کو پیروں تلے روندتے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ صرف انصاف کی خاطر۔ اس میں کس کو شک ہے کہ فتح انہی کی ہوگی کیونکہ خود زندگی ان کی فتح کی منتظر ہے۔ بے وقوفو! جو تم کررہے ہو اس سے نفرت میں اضافہ ہوگا۔یہ سب کچھ تمہارے سروں پر گرنے والاہے۔ لوگوں کی آوازیں بلند ہونے دو،، ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین