• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ سے بات چیت

ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ سے بات چیت

انٹرویو :سیّد خلیل الرحمٰن، کوئٹہ

رپورٹ :فرّخ شہزاد ملک

تصاویر:جان باسکو ولیم

انسانی فطرت ہمیشہ ہی سے تفریح کی متلاشی رہی ہے اور دُنیا کی ہر تہذیب مختلف صُورتوں میں اس کا اہتمام کرتی رہی ہے، جس میں شاعری، موسیقی، رقص، ڈراما اور فلم شامل ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آج ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈرامے عام افراد کی تفریحِ طبع کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، جن میں معاشرے کے مختلف کرداروں اور واقعات کو دِل چسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔ ٹی وی ڈراموں کے اعتبار سے پاکستان کو پڑوسی مُلک ،بھارت پر بھی برتری حاصل رہی ہے، جب کہ اسٹیج ڈراما تفریح کا ایک قدیم ذریعہ ہے اور ماضی میں اسٹیج ہی کو اداکاری کی درس گاہ تصوّر کیا جاتا تھا۔ 

یہی وجہ ہے کہ اسٹیج سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اداکاروں نے شُہرت کی بلندیوں کو چُھوا۔ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال پزیر ہونے کے بعد ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں ہی نے شہریوں کو تفریح کے مواقع فراہم کیے اور تھیٹر کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی نامی گرامی اداکار ٹیلی ویژن اسکرین پر جلوہ گر ہونے کے ساتھ اسٹیج ڈراموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ’’بلوچستان میں اسٹیج ڈرامے کی روایت‘‘ کے مصنّف، فضل الرحمٰن قاضی کے مطابق، ’’بلوچستان میں اسٹیج ڈرامے کے سفر کی ابتدا 15ویں عیسوی میں قدیم لوک روایتوں یا قصّے کہانیوں کو کرداروں کی حرکات و سکنات اور مکالموں کے ذریعے پیش کرنے سے ہوئی۔‘‘ 

بلوچستان میں تھیٹر کے فروغ کے لیے مختلف ادوار میں کئی ثقافتی تنظیموں اور اداروں کا اہم کردار رہا ہے، جن میں انڈین ڈرامیٹک کلب، کوئٹہ ریلوے کلب، گورنمنٹ انٹر کالج، خالصہ (موجودہ اسپیشل) ہائی اسکول، بزمِ تمثیل، نذر الاسلام اکیڈمی، ریڈیو پاکستان، پاکستان چلڈرن اکیڈمی، کوئٹہ آرٹ اینڈ لٹریری سرکل، کوئٹہ آرٹس کائونسل، حلقۂ اربابِ فن، سنگت تھیٹر، سویرا آرٹس اکیڈمی، پاکستان آرٹس اکیڈمی، فن کدہ، بولان کلچر سوسائٹی، اینڈرسن ڈرامیٹک کلب، چلتن اکیڈمی آرٹس، ادارۂ ثقافت، براہوی ادبی سوسائٹی، قومی ایوانِ ثقافت، ادارۂ ثقافت بلوچستان، بلوچستان اسٹیج الائنس، ہزارگی ڈراما ایسوسی ایشن اور دیگر شامل ہیں، جب کہ مختلف ادوار میں بلوچستان میں تھیٹر کے فروغ کے لیے کوششیں کرنے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی فضا تھیٹر کے لیے ہمیشہ ہی سازگار رہی ہے۔ 

اس وقت بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی فن کار تھیٹر سے وابستہ ہیں اوریہ تمام اپنی ثقافت کے سچّے عاشق ہیں اور ان کی لگن ہی سے بلوچستان میں تھیٹر کی روایت مزید مضبوط ہو گی اور صوبے کی ثقافت کو بھی فروغ ملے گا۔ ان ہی فن کاروں میں اے ڈی بلوچ بھی شامل ہیں، جنہوں نے نہ صرف اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی عُمدہ کارکردگی سے مُلکی سطح پر نام کمایا، بلکہ وہ نوجوان فن کاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ اے ڈی بلوچ ’’بلوچستان یونائیٹڈ آرٹسٹ فورم‘‘ کے سیکریٹری جنرل کے طور پر فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوشاں ہیں اور انہوں نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے فن کاروں کے لیے ہائوسنگ اسکیم، ہیلتھ کارڈز اور فنڈز مختص کرنے سمیت اُن کے مسائل پر بھی آواز بلند کی۔ 

گزشتہ دِنوں ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ نے جنگ سے خصوصی گفتگو کی، جو نذرِ قارئین ہے۔

ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ سے بات چیت
جنگ پینل سے بات چیت کرتے ہوئے

س:اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج:مَیں نے 1954ء میں جیکب آباد، سندھ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میٹرک کے بعد بلوچستان منتقل ہو گیا اور یہیں گریجویشن مکمل کی۔ بچپن ہی سے ڈرامے ، فلمیں دیکھنے کا شوقین تھا اور پھر یہی شوق مُجھے شوبِز کی دُنیا میں لے آیا۔

س:ابتدا میں ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں میں کون سے کردار ادا کیے؟

ج:مَیں نے اپنی زندگی کا پہلا اسٹیج ڈراما ’’محمد بن قاسم‘‘ کے نام سے جیکب آباد میں پیش کیا تھا، جس میں میرا مرکزی کردار تھا اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ ’’محمد بن قاسم‘‘ کی پزیرائی سے مُجھے حوصلہ ملا اور پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں سنجیدہ اسٹیج ڈرامے پیش کرنا شروع کیے، جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس سلسلے میں مُجھے اکرم زیب، پرویز جیلانی، عالی سیّدی، عبدالقادر، اشرف سلہری اور دیگر فن کاروں کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔

س:کن ڈراموں کو مُلک گیر شُہرت ملی؟

ج:یوں تو مَیں نے سیکڑوں ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دِکھائے، لیکن اُردو ڈراموں آتش، زمین کی گود میں، ہنج، غلام، دِیا جلائے رکھنا اور پہلی بوند کو مُلک بَھر میں بہت زیادہ پزیرائی ملی ۔

س:کسی اکیڈمی سے ڈرامے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی؟

ج:جی ہاں۔ مَیں نے ’’نیشنل کائونسل آف آرٹس‘‘ سے ڈرامے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور اس کے علاوہ ڈاکٹر وقار عظیم نے بھی اداکاری کے جوہر سکھائے، جب کہ ٹی وی پر محمد نواز مگسی، بیدل مسرور، راشد ڈار اور شاہد ندیم میرے استاد ہیں، جن کی محنت و رہنمائی کی بہ دولت مَیں اس مقام تک پہنچا۔ ہمارے مُلک میں اداکاری کے شعبے میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے، لیکن اگر اداکاری کے شوقین افراد کو ٹی وی اور سلور اسکرین پر لانے سے قبل تھیٹر میں تربیت فراہم کی جائے، تو وہ اپنے کرداروں میں بہ خوبی حقیقت کا رنگ بَھر سکتے ہیں۔

س:عموماً کہا جاتا ہے کہ آج پاکستانی ڈراما موضوع کے اعتبار سے زوال پزیر ہے۔ کیا آپ اس سے متّفق ہیں؟

ج:ڈراما ایسا ہونا چاہیے کہ جو ناظرین و حاضرین کے دِل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑ جائے۔ بد قسمتی سے آج ہم اپنی ثقافت کو فراموش کر چُکے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا ڈراما زوال پزیر اور ناکامی سے دوچار ہے۔ماضی میں پاکستانی ڈرامے دُنیا بَھر میں دیکھے اور پسند کیے جاتے تھے، لیکن آج ہم بھارتی ڈراموں میں زیادہ دِل چسپی لیتے ہیں، جنہوں نے ہماری ثقافت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے آج روایتی موضوعات پر ڈرامے تیار کیے جا رہے ہیں اور ان میں بھی جدّت لانے کی بہ جائے نقّالی پر زور ہے۔ عصرِ حاضر کے معروف ڈراما نگاروں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں تربیت حاصل کی اور وہیں سے عروج حاصل کیا اور پی ٹی وی ہی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ عوام کے سامنے کون سے موضوعات کس انداز میں پیش کیے جانے چاہئیں۔ پی ٹی وی نے صحت مندانہ ڈراما نگاری کی بنیاد رکھی، مگر پھر ہماری یہ روایت کم زور پڑ گئی اور ذوق میں بھی کمی آ گئی۔ نیز، شدّت پسندی کے سبب بھی مسائل پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں ڈراما تنزّلی کا شکار ہوا۔ درحقیقت، معاشرے کا منفی رُجحان کسی مثبت ایجاد کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔ ٹی وی کا مقصد تفریح کے ساتھ اصلاح کرنا بھی ہے، لیکن ہم نے اپنے غلط رویّوں اور رُجحانات کے سبب سے اس میڈیم کو منفی بنا دیا۔ آج ہم تفریح کے نام پر فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں اور اب ڈرامے کا اصل ہدف مقصدیت کی بہ جائے سرمایہ کاری بن چُکا ہے اور ڈراما نگاری کمرشل اِزم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ سے بات چیت
عذرا آفتاب کے ساتھ

س :ایک کام یاب ڈرامے کے لیے کیا لوازمات درکار ہوتے ہیں؟

ج :مَیں گزشتہ 35برس سے ڈراما نگاری سے وابستہ ہوں۔ ڈراما نگار معاشرے کی عکّاسی کرتا اور لوگوں کو آئینہ دِکھاتا ہے، لیکن ہم نے یہ آئینہ بھی توڑ دیا اور اب معاشرے کی عکّاسی بھی نہیں ہو رہی۔ آج بھی لوگ ڈرامے میں اپنی ثقافت دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا اسی کو موضوع بنانا چاہیے اور جن ڈراموں میں معاشرے کی حقیقی عکّاسی کی جاتی ہے، وہی مقبول ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اصلاحی ڈرامے پیش کیے جاتے تھے، جن میں ناظرین کو اپنی ثقافت نظر آتی تھی اور اُن سے اپنائیت بھی محسوس ہوتی تھی۔ بعد ازاں، بے تحاشا تفریحی چینلز تو وجود میں آ گئے، لیکن ڈراما نگاروں کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت نہیں ہو سکی۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کل ڈراموں میں ہمارے معاشرے کے نقائص ہی کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان مختلف تہذیبوں کا مسکن ہے۔ لہٰذا، ڈراموں میں مُلک کے متنوّع کلچر کو پیش کیا جانا چاہیے۔

س:کیا موجودہ ڈرامے ہمارے حالات اور ثقافت کی نمایندگی کرتے ہیں؟

ج:ہمارا ٹی وی ڈراما زوال پزیر ہے۔ دن بہ دن اس کا معیار گر رہا ہے اور موجودہ دَور میں تیار ہونے والے ڈراموں کی اکثریت کسی بھی طور پر ہمارے حالات اور کلچر کی نمایندگی نہیں کرتی۔ پاکستانی ڈرامے کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے تُرکی اور ہسپانوی ڈراموں نے اپنی بہترین پروڈکشن کی بہ دولت پاکستان میں جگہ بنا لی۔ پاکستانی عوام انہیں بہت شوق سے دیکھتے ہیں اور جو ان ڈراموں کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ ان کی کام یابی سے خائف ہیں اور اپنی خامیوں کو دُور کرنے کی بہ جائے ان ڈراموں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ہمارا ٹی وی ڈراما، جو ماضی میں عالم گیر شُہرت کا حامل تھا، اب یکسانیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں ڈرامے کے زوال کے اسباب پر توجّہ دینا ہو گی۔ نیز، حکومتی سطح پر فن کاروں کی تربیت کے لیے اکیڈمیز قائم کی جانی چاہئیں اور جامعہ بلوچستان میں شوبِز کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا جانا چاہیے، تا کہ نوجوان فن کاروں کی ایک بڑی کھیپ کو آگے لایا جا سکے۔

س:آپ اپنے کیریئر میں کن فن کاروں سے زیادہ متاثر ہوئے؟

ج:یوں تو تمام ہی پاکستانی فن کاروں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن مُجھے طلعت حسین، عظمیٰ گیلانی، عبدالقادر حارث، اشرف سلہری اور عذرا آفتاب کی اداکاری نے بے حد متاثر کیا اور شعبۂ فن ان کی صلاحیتوں پر ہمیشہ نازاں رہے گا۔

س:بلوچستان میں ڈرامے کے حال اور مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ج:بلوچستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ یہاں کے فن کاروں اور ڈراموں نے ماضی میں نہ صرف ناظرین کو متاثر کیا، بلکہ ڈراموں میں جدّت بھی پیدا کی، جس کی مثال ڈراما سیریل، ’’دھواں‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جس میں پہلی مرتبہ ڈراموں میں ایکشن متعارف کروایا گیا۔ بدقسمتی سے بلوچستان کے فن کاروں کے پاس وسائل اور اپنے صلاحیتیوں کے اظہار کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کئی فن کاروں نے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کا رُخ کیا اور ان کی صلاحیتیں کسی سے کم نہیں۔

س :بلوچستان میں تھیٹر کی روایت دَم توڑ رہی ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟

ج:فن اور فن کار دونوں ہی تھیٹر کے بغیر نا مکمل ہیں، ليکن بد قسمتی سے پاکستان میں اسٹیج کئی سال سے زوال پزير ہے۔ ماضی میں معاشرتی اصلاح کا کوئی پہلو ہو يا سماجی خاميوں کی نشان دہی، فن کاروں نے ہر اہم معاملے کو تھيڑ کا موضوع بنايا اور حاضرين سے خُوب داد سميٹی، مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث بلوچستان میں تھیٹر مکمل طور پر دَم توڑ گیا۔ گرچہ غیر سرکاری تنظیموں کے زیرِ اہتمام کبھی کبھار مختلف معاشرتی موضوعات پر اسٹیج ڈرامےپیش کیے جا رہے ہیں، لیکن ضرورت اس اَمر کی ہے کہ بلوچستان حکومت اس جانب سنجیدگی سے توجّہ دے اور بلوچستان میں اسٹیج کے احیا کے لیے ہنگامی اقدامات کرے، تا کہ لوگوں کو تفریح کے مواقع میسّر آسکیں۔

س:موجودہ ڈرامے کمرشل ازم کے پہلو کے تحت بن رہے ہیں۔ یہ رُجحان فائدہ مند ہے نقصان دہ؟

ج:جی بالکل۔ آج کل ڈراموں پر کمرشل اِزم چھایا ہوا ہے اور پرفارمینس کی بہ جائے گلیمر پر توجّہ دی جانے لگی ہے۔ پرائیویٹ پروڈکشنز کے تحت بننے والے ڈراموں نے پی ٹی وی کے ڈراموں کی ہیئت تبدیل کر دی۔ پی ٹی وی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے فن کاروں کے تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ دُنیا بَھر کی اقوام اس میڈیم سے اپنے عوام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہی ہیں، جب کہ ہم عشق و محبت کے افسانے دُہرانے میں مصروف ہیں۔ بھارت میں ٹیلی ویژن ہمارے بعد متعارف ہوا، مگر انہوں نے اس میڈیم میں تیکنیکی، فنی اور پیش کاری کے حوالے سے نِت نئے تجربات کیے، جب کہ اس کے برعکس ہم نے اس میڈیم کو کمرشلائز کر کے اپنے ڈراموں کو تباہ کر لیا۔ بھارتی ٹی وی چینلز کو اپنی مٹّی کو سونا بنا کر پیش کرنا آتا ہے، جب کہ ہم اپنے سونے کو مٹّی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جب تک ڈراما انڈسٹری اپنی پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائے گی، ہمارا ڈراما رُو بہ زوال رہے گا۔

ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار، رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اے ڈی بلوچ سے بات چیت
زیبا بیگم، روبینہ قریشی سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

س:ڈرامے کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کیا مشورے دیں گے؟

ج :مَیں پاکستان میں ڈراموں اور تھیٹر کے مستقبل سے مایوس نہیں ، بلکہ پُر امید ہوں کہ شوبِز انڈسٹری جلد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گی، کیوں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور پاکستانی فن کاروں کو دُنیا بَھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج بھی اگر اچّھے موضوعات اور مضبوط اسکرپٹ کے حامل ڈرامے بنیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مقبول نہ ہوں۔

س :فارغ اوقات میں کیا مصروفیات ہوتی ہیں؟

ج :مَیں فارغ اوقات میں کتابوں کا مطالعہ اور ڈرامے تحریر کرتا ہوں۔

س :مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟

ج :مَیں اپنی توانائیاں مُلک اور صوبے میں شعبۂ فن کی ترقّی کے لیے صَرف کرنا چاہتا ہوں۔

س :قارئین اور پرستاروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:کوئی بھی فن کار انتہائی محنت اور لگن سے کام کر کے اپنا نام بناتا ہے۔ پردے کے پیچھے کی دُنیا سے نکل کر پردے پر دِکھائی دینے والی دُنیا تک پہنچنے کا راستہ آسان نہیں ۔ سو، نوجوان شارٹ کٹ کی بہ جائے زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا صرف محنت ہی کے ذریعے منوایا جا سکتا ہے۔ اگرہم سینئر فن کاروں پر نگاہ ڈالیں، تو ان کی پوری زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے۔ لہٰذا، نوجوان فن کار انہیں اپنا آئیڈیل بنائیں۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین