خالد معین
ایک مبہم سے ایس ایم ایس نے صبح خاصی بے رنگ کر دی۔ دعائیں کرتا رہا، یا الٰہی! مرگِ افّی( دوست افتخار احمد کو پیار سے افّی کہا کرتے تھے) کی یہ خبر سچّی نہ ہو، تاہم جلد ہی ڈیلی نیوز اور جنگ میگزین سے طویل عرصے وابستہ رہنے والے، ہنس مُکھ اور ہر دِل عزیز سینئیر فوٹو گرافر، افتخار احمد کے انتقال کی تصدیق ہو گئی۔ افتخار احمد زندگی بھر کراچی میں رہے، لیکن تقریباً دو سال قبل، فیملی کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے اور 14 مارچ کو65 برس کی عُمر میں اُن کا وہیں انتقال ہوا۔ اسلام آباد جانے کے سبب ہی اس برس کراچی پریس کلب کے انتخابات میں دِکھائی نہ دیے، ورنہ عام طور پر سہ پہر کے وقت اپنے روایتی خوش گوار موڈ میں ہنستے، گنگناتے پریس کلب میں نمودار ہوتے اور دوستوں کے درمیان خُوب چہکتے پھرتے۔ دوستوں کے چہروں پر بھی اُنہیں دیکھتے ہی اِک رونق سی دوڑ جاتی، کیوں کہ وہ بڑے بذلہ سنج، خوش مزاج اور تکّلفات سے کوسوں دُور تھے۔
افتخار احمد سے ہماری پہلی ملاقات نوّے کی دہائی کے اختتام پر ہوئی، جب وہ اپنے کاندھے پر کیمرا لٹکائے جنگ، میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے۔ اُن دنوں جنگ، میگزین کا دفتر، مین بلڈنگ سے اخبار منزل میں منتقل ہو چکا تھا۔ ہمہ صفت، سینئر صحافی، احفاظ الرحمٰن میگزین ایڈیٹر تھے، جب کہ ہمہ صفت، نام وَر صحافی، محمود شام جنگ اخبار کے گروپ ایڈیٹر۔ شعبۂ میگزین کے ارکان اُن دنوں ہونے والے یومیہ اجلاسوں میں بار بار یہی درخواست کیا کرتے کہ میگزین کے لیے بھی ایک فُل ٹائم فوٹو گرافر ہونا چاہیے، تاہم فوٹو گرافر ایسا ہو، جو میگزین سیکشن کی ضروریات بھی پوری کر سکے۔ سو، ڈیلی نیوز کے سینئر فوٹو گرافر، افتخار احمد’’ اسپیشل ڈیوٹی‘‘ پر جنگ میگزین کے لیے مامور کر دیے گئے۔
وہ اداکار لطیف کپاڈیا جیسا ڈیل ڈول رکھتے تھے اور دیکھنے میں اُنہی جیسے ہینڈسم تھے، اُس پر اُن کی خوش لباسی اور خوش مزاجی الگ ہی رنگ دِکھاتی۔ چُپ بیٹھتے، تو فوٹو گرافر کم اور بینک مینیجر زیادہ لگتے۔ کئی ایک کا خیال تھا کہ وہ شعبۂ میگزین میں چند ہفتے بھی بہ مشکل ہی پورے کر پائیں گے، تاہم افتخار احمد نے تمام اندازوں کو جلد ہی غلط ثابت کر دِکھایا، وہ اس طرح کہ’’ ایک انار، سو بیمار‘‘ جیسی صُورتِ حال کو اُنھوں نے بڑی مہارت سے کنٹرول کیا۔ روزانہ کے مطالبات کو کہیں پورا کیا، تو کسی کو وعدے پر ٹالا اور کہیں رابطے کے فقدان کا سہارا لیا۔ اُن دنوں موبائل فون بھی اتنے عام نہیں ہوئے تھے، صحافی رابطے کے لیے پی ٹی سی ایل فون اور پیجر ہی پر گزارہ کرتے تھے اور افتخار احمد بھی اُن دنوں اِنہی ہتھیاروں سے لیس تھے۔
اُن کا آدھا دن ڈیلی نیوز میں گزرتا، پھر جنگ، میگزین کا رُخ کرتے، جہاں بہت سے کام اُن کے منتظر ہوتے ، مگر وہ ایک دن میں آخر کتنے اسائنمنٹ کر سکتے تھے، اسی لیے بہت سے کام ہونے کے باوجود، شکایات اپنی جگہ رہ جاتیں اور بعض ارکان خاص طور پر چند خواتین تو اُن کی جان کو آ جاتیں۔ کئی بار حالات سنگین بھی ہوئے، لیکن افتخار احمد تُو تُو، مَیں مَیں کو جلد ہی اپنی بذلہ سنجی سے’’سب اچھا ہے ‘‘ میں بدل دیتے۔ دوچار بار محمود شام صاحب کی سربراہی میں ہونے والی’’ بڑی میٹنگ‘‘ میں بھی اُن کی پیشی ہوئی، مگر جہاں دیدہ اورحالات کے مطابق پتّے کھیلنے والے’’ اِفّی‘‘، ہر بار سُرخ رُو رہتے۔
افتخار احمد مختلف صفحات کے لیے تصاویر بناتے، تو’’ فن و فن کار‘‘ اور’’ جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے فیشن شوٹس بھی کرتے، باقی کے ہنگامی کام الگ شمار کر لیں اور ڈیلی نیوز کے کام تو اُنہیں کرنے ہی کرنے ہوتے تھے۔ اسی لیے جب میگزین میں اُن کی کھینچی ہوئی کسی تصویر پر اُن کا نام نہ ہوتا، تو وہ پیج انچارج سے الجھ جاتے، کیوں کہ وہ اپنے کام سے بے حد مخلص تھے، تصویروں پر نام سے خوشی تو ملتی ہی، مگر یہ اُن کی شناخت بھی تھی۔’’فن و فن کار‘‘ کے انٹرویوز کے حوالے سے ہمارا اُن سے مستقل رابطہ رہتا۔ اُن کے پاس ایک ٹھیک ٹھاک ویسپا تھی، جب وہ اُسے لے کر نکلتے تو حسبِ عادت کاندھے پر کیمرا لٹکا ہوتا۔
وہ آتے جاتے لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجّہ کر لیتے تھے۔ کسی پر کوئی فقرہ اچھال دیا ،کسی کو مُسکرا کے دیکھ لیا۔ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر لوگوں کی سرزنش کرنا بھی اُن کی پرانی عادت تھی۔ سڑک پر کھڑے قانون کے رکھوالوں کی جانب مُسکراہٹ اور کوئی دل چسپ فقرہ اچھالنا بھی اُن کا دل پسند مشغلہ تھا، غرض وہ جہاں جاتے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیتے۔’’ جنگ گروپ‘‘ سے طویل وابستگی اور اپنی شان دار شخصیت کے سبب بہت سی قدآور اور نمایاں شخصیات سے اُن کی اچھی خاصی جان پہچان تھی اور جو لوگ اُنہیں نہیں جانتے تھے، اُن کا افتخار احمد سے صرف ایک بار مل لینا ہی کافی تھا ۔
شعبۂ میگزین میں اُن کی آمد تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتی، خاص طور پر جب وہ کسی اسائنمنٹ نہیں، محض گپ شپ کے لیے آتے۔ اُن کی حد درجہ مذاق کی عادت کی وجہ سے کئی خواتین اور مرد ارکان اُن سے کتراتے بھی تھے، تاہم اُن کی نوک جھونک اور خوش مزاجی سے لُطف اندوز بھی ضرور ہوتے۔ کبھی موڈ میں ہوتے، تو مہدی حسن کے گانے سُنانے لگتے، ساتھ تھوڑی سی اداکاری بھی کرتے جاتے، اس موقعے پر اُن کی مخاطب ایک دو خواتین ہی ہوتیں، جو بہ ظاہر تو اُن کے اس رویّے سے چڑتیں، مگر اُن کی بچگانہ حرکتوں سے لطف اندوز بھی ہوتیں، کیوں کہ اُنھیں معلوم تھا کہ اِفّی دل کے بہت صاف و شفّاف ہیں۔ ’’ فن و فن کار‘‘ کے صفحات کے لیے جو شوٹ افتخار احمد نے کیے، وہ بہت عُمدہ تھے۔
انھوں نے ٹی وی، تھیٹر اور فلم انڈسٹری کی متعدّد نمایاں شخصیات کے یادگار فوٹو شوٹس کیے۔ ’’ آمنے سامنے‘‘ اور’’ کہی اَن کہی‘‘ جیسے مقبولِ عام سلسلوں کے لیے افتخار احمد نے برسوں فوٹو گرافی کی، جو ایک مشکل کام تھا، لیکن وہ اپنے کام میں بڑے ماہر تھے اور اُنہیں اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق بھی تھا۔ وہ عام اخباری فوٹو گرافرز جیسا مزاج نہیں رکھتے تھے، اسی لیے اپنی سطح سے نیچے بھی نہیں آتے تھے اور ہمیشہ اپنے تہذیبی رکھ رکھائو کو قائم رکھتے ہوئے کام کرتے۔ اپنے ادارے کی عزّت کو اپنے شخصی وقار کی طرح عزیز تر رکھتے۔
یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ساری زندگی اپنی شرافت پر حرف نہ آنے دیا۔ ہمیشہ عزّت سے کام کیا، اعلیٰ کام کیا اور باعزّت انداز میں’’ جنگ گروپ‘‘ سے ریٹائر بھی ہوئے۔ اور اُس کے بعد خاموش زندگی بسر کرنے لگے۔ انتقال سے چند سال قبل شوگر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے، مگر اتنی جلدی چلے جائیں گے، یہ کسی کے سان وگمان میں نہ تھا۔ بہرحال، افتخار احمد اپنی خوش ادائی، خوش خلقی اور خوش اطواری کے ساتھ ہمیشہ ہماری یادوں کا حصّہ رہیں گے۔