• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈائنیسٹی ڈسٹری بیوشنز کے سی سی او، رومان احمد سے گفتگو

ڈائنیسٹی ڈسٹری بیوشنز کے سی سی او، رومان احمد سے گفتگو

پینل انٹرویو: فاروق انصاری، لیاقت جتوئی

ڈائنیسٹی ڈسٹری بیوشنز نے حال ہی میں گھڑیوں کی امپورٹ اور ڈسٹری بیوشن کے کاروبار کی سلور جوبلی مکمل کی ہے۔ ڈائنیسٹی ڈسٹری بیوشنز ، گھڑیوں کی امپورٹ اور ڈسٹری بیوشن کی پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسررومان احمد، آئی بی اے کراچی کے گریجویٹ ہیں۔ انھوں نے اکتوبر1986میں آئی بی اے سے مارکیٹنگ اور مارکیٹنگ مینجمنٹ میں ایم بی اے کیا۔گریجویشن کے بعد تھوڑے عرصے مختلف بینکس کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد 1993میں ڈائنیسٹی ڈسٹری بیوشنز میں آگئے۔ 

یہ کمپنی ایک سال قبل ہی یعنی 1992میں ان کے والد صاحب نے قائم کی تھی۔ 2016میں رومان احمد نے اپنے پروفیشنل پورٹ فولیو میں Masters In Innovation Leadership ڈگری کا اضافہ کیا، جو انھوں نے امریکا کی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کالج بفیلو سے حاصل کی۔ اپنے کاروبار کے علاوہ، رومان احمد کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے اداروں اور کمپنیز کو Change Management،لیڈر شپ اور Innovation پر ورک شاپس اور لیکچرز کے ذریعے ٹریننگ بھی دیتے ہیں۔

جنگ: کچھ اپنے کاروبار کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں کہ آپ نے یہ کاروبار کب اور کیسے شروع کیا؟

رومان احمد: میرے لئے اس وقت یہ سوال اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی ہمارے بزنس کے 25سال مکمل ہوئے ہیں اور سلور جوبلی منانے کے لیے ہم اپنی ٹیم کولے کر بھوربن گئے ہوئے تھے۔ بنیادی طور پر ہمارا سوئس گھڑیوں (Watches)کی امپورٹ اور ڈسٹری بیوشن کا کاروبار ہے اور اس شعبے میںہم سب سے بڑی ڈسٹری بیوشن کمپنی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہم امریکا سے آڈیو پراڈکٹس بھی امپورٹ کرتے ہیں۔ اس کا نام بوز(Bose)ہے۔ہمارا ریٹیل کا بھی کام ہے۔ ہمارے ریٹیل ڈسپلے سینٹرز کراچی، لاہور، ملتان، کوئٹہ، حیدرآباد میں ہیں۔ پاکستان میں جیسے جیسے مال کلچر فروغ پارہا ہے، ریٹیل کاروبار بھی بدل رہا ہے۔ اس بات کے پیش نظر، ہم ان شاپنگ مالز میں بھی اپنےRetail Outlets بنارہے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے اسٹورز میں اپنے Kiosksبنانا بھی ہماری اسٹریٹجی کا حصہ ہے، جہاں ہم اپنی پراڈکٹس ریٹیل کرسکیں۔

جنگ: کاروبار شروع کرتے وقت کیا چیلنجز درپیش آئے؟

رومان احمد: اگر 25سال پہلے کی بات کریں، تو اس وقت جو چیلنجز تھے، وہ اب پھر سے سر اُٹھا رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں، سب سے زیادہ امپورٹ ڈیوٹیز کا چیلنج درپیش تھا، جن کی شرح بہت بلند تھی۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امپورٹ ڈیوٹیز کی شرح کا بلند ہونا اتنا زیادہ مسئلہ نہیں ہے لیکن دراصل ہوتا یہ ہے کہ ہماری سرحدیںاتنی آزاد (Porous)ہیں کہ جہاں کسی امپورٹڈ آئٹم کی کراچی(پاکستان) قیمت کے مقابلے میں دبئی، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں اچھا خاصا فرق آجائے، وہ آئٹم فوراً ہماری سرحدوں سے اسمگل ہوکر مارکیٹ میں آجاتا ہے۔دوسرا سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ریٹیلئرز بہت disorganizedتھے، ان کا ریٹیل کا روایتی انداز تھا۔ ڈسپلے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ہمیں ان کو Educateکرنا پڑا کہ دکان پر قطار میں زیادہ سے زیادہ گھڑیاں رکھ دینااتنا اہم نہیں، جتنا اہم کوالٹی آف ڈسپلے ہے۔Retailers کو یہ سمجھانے میں ہمیں کافی وقت لگا۔ پھر قیمتوں میں یکسانیت کو برقرار رکھنا بھی بہت بڑا چیلنج تھا۔Retailer کہتا تھا، ’’میں جتنے کی بھی بیچوں اس سے آپ کو کیا‘‘؟ ہمیں اس کو سمجھانا پڑتا تھا کہ کہ اس کا برانڈ پر انتہائی منفی اثرپڑتا ہے کیوں کہ خریدار یہ نہیں کہے گا کہ دکاندار نے اسے لوٹ لیا بلکہ وہ کہے گا کہ فلاں برانڈ والے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔تو پھر ہم نے اس کا یہ طریقہ نکالا کہ پرائس ٹیگ چھاپ کر گھڑیوں پر چسپاں کرنا شروع کردیے وغیرہ وغیرہ۔

جنگ: وہ تو تھے تب کے چیلنجز، اب کیا چیلنجز درپیش ہیں آپ کے بزنس کو؟

رومان احمد: ہائی اسٹریٹ شاپس اور مال کلچر کے باعثRetailers کو اب ڈسپلے کی اہمیت کا تو بخوبی اندازہ ہوچکا ہے، تاہم ڈیوٹیز اور ٹیکسز کا چیلنج اب بہت شدت اختیار کرگیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس وقت ہمیں گھڑیوں پر 65فی صد تک ڈیوٹیز اور ٹیکسز ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ ایک گھڑی جس کی قیمت دراصل 100روپے ہے، ہمیں 165روپے میں پاکستان میں پہنچتی ہے۔ دبئی میں وہی گھڑی امپورٹر کو 110روپے میں پڑتی ہے۔ دبئی میں، سپلائی چین میں شامل ہر بندہ اپنا مارجن نکالنے کے بعد ،وہ گھڑی 165روپے میں ریٹیل میں دستیاب ہوتی ہے۔پاکستان میں وہ ہمیں 165روپےمیں تو پہنچتی ہے۔ یہاں سپلائی چین کے ہر مرحلے کے مارجنز نکالنے کے بعد، وہی گھڑی ہم 200-225میں ریٹیل کرپاتے ہیں۔ اب ہوکیا رہا ہے کہ ایک شخص ہماری Retail Outlet پر آتا ہے، ایک گھڑی پسند کرتا ہے، اس کی قیمت اور ماڈل نمبر پوچھتا ہے اور دبئی میں اپنے دوست یا رشتہ دار کو فون کال یا واٹس ایپ کرکے پتہ کرواتا ہے کہ وہاں کتنے کی مل رہی ہے؟ اب اگر اسے 20ہزار کا فرق مل رہا ہے تو وہ ہم سے کیوں خریدے گا؟ تین، چار سال پہلے تک چلے جائیں تو ہم پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز بہت کم تھیں، ہمارا کاروبار بڑھ رہا تھا اور ہماری کمپنی ٹاپ100ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں میں شامل تھی۔ اب زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس سال خدشہ ہےکہ ہمارے کاروبار میں 50%کمی آجائے گی۔

جنگ:کاروبار میں پچاس فی صد تک کمی، واقعی؟

رومان احمد: جی بالکل، میں آپ کو ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا بریک اپ بتا دیتا ہوں پھر آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔ 3%ڈیوٹی، 20%ریگولیٹری ڈیوٹی اور 1%ایڈیشنل ڈیوٹی۔۔اس کے اوپر ہم 17%سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں، پھر 33%ایڈیشنل سیلز ٹیکس اور پھر اس سب پر 6%انکم ٹیکس۔

حکومت کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک بار میں نے یہ مطالبہ رکھا کہ ایک لسٹ بنائی جائے، جس میں ایک طرف مجھ جیسے ٹیکس ادا کرنے والے کو رکھا جائے اور اس کے نیچے ان سارے ٹیکسزاور ڈیوٹیز کی تفصیلات درج کی جائیں تو وہ کوئی 25-30مختلف ٹیکس بن جائیںگے۔22کروڑ کی آبادی میں ایسے ٹیکس پیئرز صرف 10لاکھ ہیں اور ان میں بھی پانچ، چھ لاکھ تو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لسٹ میں دوسری طرف ان افراد کو رکھ دیں جو اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی مارکیٹ میں کھیلتے ہیںاور ٹیکس نیٹ سے باہر چھوٹے اور بڑے کاروبار چلا رہے ہیں ۔ ان کے نیچے جب آپ ٹیکسز کی تفصیلات درج کرنے لگیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تو زیرو ٹیکس پیئرز ہیں۔بدقسمتی سے، یہاں جو ٹیکس دے رہا ہے، وہی پس رہا ہے۔

جنگ:آپ کے کاروبار میں کمی آئے گی مطلب حکومت کو ٹیکس کم ملے گا، یہ تو حکومت کا نقصان ہے؟

رومان احمد:دیکھیں، حکومت نے جو ایڈیشنل ٹیکسز اور ڈیوٹیز لگائی ہیں، اس سے ہماری طرح کے امپورٹز سے اسے تین،چار سو ملین ڈالرسے زیادہ ٹیکس نہیں ملے گا۔ کھربوں کے ٹیکس میں تین، چار سو ملین کی کیا اہمیت؟ پھر جتنا ٹیکس بڑھے گا، اسمگلنگ کو اتنا زیادہ فروغ ملے گا۔ لوگ ہمارے بجائے دبئی سے زیادہ شاپنگ کریں گے، جو کہ اس وقت درحقیقت ہورہا ہے۔ ایڈیشنل ڈیوٹیز اور ٹیکسز سے بہتر ہے کہ حکومت کرنسی کو ڈی ویلیو کردے۔ کرنسی کی ڈی ویلیوایشن کاروبار کے لئے کم نقصان دہ ہے۔

جنگ: بھارت میں کیا صورت حال ہے؟

رومان احمد: مجھے وہاں کا زیادہ علم نہیں لیکن ایک بات ضرورت ہے کہ وہاں اسمگلنگ اتنی آسان نہیں۔ پھر بھارت اور دبئی میں فاصلہ ہم سے زیادہ ہے اور ان کے سفر کے اخراجات زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارت بہت بڑی مارکیٹ ہے اور برانڈز خود وہاں موجود ہیں، ہمارے یہاں تو کوئی وزٹ کرنے کو تیار نہیں ہے، کاروبار لگانا تو دور کی بات ہے۔

جنگ:پاکستانی مارکیٹ میں Competitionڪ سے کیسے نمٹتے ہیں؟

رومان احمد: ہم Ethicalکاروبار کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ اپنی ٹیم کو میری بڑی واضح ہدایات ہیں کہ ہمیں اپنی پراڈکٹس اپنی Strengthپر بیچنی ہیں، کسی اور کی Weakness پر نہیں۔ بلاشبہ، مارکیٹ میں اور بھی اچھے برانڈز موجود ہیں۔ جسے ہماری پراڈکٹ پسند آئے وہ خریدلے، پسند نہیں آئے تو کوئی بات نہیں۔

جنگ:آپ گھڑیوں کے جو برانڈز امپورٹ، ڈسٹری بیوٹ اور ریٹیل کرتے ہیں، ان کی ٹارگٹ مارکیٹ کیا ہے؟

رومان احمد: پہلے میں ٹیسو (Tissot) کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔ یہ برانڈ اسپورٹس مائنڈڈ، تعلیم یافتہ شہری نوجوانوں میں زیادہ پاپولر ہے۔ راڈو کی ٹارگٹ مارکیٹ کی نشاندہی کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا کسٹمر آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اس برانڈ کی ڈسٹری بیوشن ہمارے پاس ہے۔زمیندار، بزنس کلاس، مڈل کلاس، اندرون ملک رہنے والا، راڈو کا Customer Baseبہت وسیع ہے۔

جنگ:یا وجہ ہے کہ گھڑیوں کے خریداروں کا ایک بڑا حصہ راڈو کو کسی بھی اور برانڈ پر ترجیح دیتاہے، اس کی وجہ مارکیٹنگ اسٹریٹجی ہے یا کچھ اور؟

رومان احمد: بلاشبہ، اس میں مارکیٹنگ کا بڑا اہم کردار ہے۔70 کی دہائی کی بات ہے، جب گھڑیوں پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی شرح 240%ہوا کرتی تھی۔ان دنوں گھڑی خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ لوگ جو دیگر ملکوں کے دورے پر یا گھومنے جاتے تھے، یا وہ لوگ جو دبئی میں کام کرتے تھے، وہاں سے گھڑی خرید کر آتے تھے۔ تاہم ان لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ انھیں پاکستان میں سروس کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ایسے میں راڈو سوئٹزرلینڈ نے یہاں لوگوں کو کہا کہ وہ انھیں ایک جگہ دستیاب کردیں تو وہ انھیں راڈو گھڑیوں کا سروس سینٹر بنا کردے گی۔ مشینری بھی راڈو کمپنی والے خود دے رہے تھے اور Technicians کو بھی خود ٹریننگ دے رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں یہاں کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب راڈو کے سروس سینٹرز کھل گئے۔ چونکہ کسی بھی گھڑی کی پاکستان میں کمپنی سروس دستیاب نہیں تھی اور ایسے میں راڈو نے سروس سینٹرز کھول کر گھڑیوں کی مارکیٹ کو Captureکرلیا۔ اس کے بعد دبئی اور دیگر ملکوں سے آنے والا ہر شخص راڈو واچ ہی لے کر آنے لگا۔اس طرح، بزنس کلاس، مڈل کلاس اور اندرون ملک رہنے والے طبقات میں راڈو Status Symbolکی حیثیت اختیار کرگئی۔

جنگ: راڈو اور ٹسو فیملی کے کامیاب ماڈلز کے بارےمیں کچھ بتائیں جو کسٹمرزخریدنا پسند کرتے ہیں؟

رومان احمد: گھڑی کی خریداری میں قوت خریدکا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ایک شخص وہی گھڑی خریدے گا، جس کی اسے جیب اجازت دے گی۔ پھر وقت کے ساتھ ٹرینڈز بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل راڈو فیملی میں ہائی اینڈ پر جو ماڈل سب سے زیادہ پسندکیا جارہا ہے وہ ’’ہائپر کروم‘‘ ہے، یہ وہی ماڈل ہے، جو رتھک روشن نے راڈو کے اشتہار میں پہنا ہے۔ نسبتاً کم قیمت میں ’’فلارنس‘‘ ماڈل زیادہ فروخت ہوتا ہے۔اس کا صرف ٹاپ گلاس اسکریچ پروف ہوتا ہے، باقی Caseاور Baseاسکریچ پروف نہیں ہوتا۔ٹسو ان پڑھے لکھے شہری نوجوانوں کی پسندہے، جو 15سے 25ہزار کی رینج میں اسٹائلش گھڑی خریدنے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اس رینج میں ٹسو کے ’’کلاسک ڈریم‘‘، ’’ڈی آر100‘‘جیسے ماڈلز بہت کامیاب ہیں۔ اس کے بعد گزشتہ دو سال سے ہم نےCalvin Klein کو بھی اپنے پورٹ فولیو کا حصہ بنالیا ہے۔ Calvin Kleinایک فیشن واچ ہے اور فیشن بہت جلدی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔آج ریڈ کا فیشن ہے تو سب نے ریڈ پہننا شروع کردیا، کل بلیو کا فیشن آگیا تو ریڈ کی جگہ بلیو لے لے گا۔ اس کے بعد بالکل ہائی اینڈ پر MAURICE LACROIX واچ برانڈ ہے۔ یہ ایک طرح سے Niche مارکیٹ برانڈ ہے، جس کا سیلز والیوم بہت کم ہے۔

جنگ:کیا موبائل فونز آنے کے بعد بعد گھڑیوں کا استعمال کم ہواہے؟

رومان احمد: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ گھڑی کی حیثیت ایک زیور کی ہے۔ گھڑی صرف وقت بتانے کے لیے نہیں پہنی جاتی۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی اچھے ڈیزائن کی گھڑی پہنے ہوتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ تعریف اس ٹائم پیس کی نہیں ہوتی، بلکہ اس کی بطور زیور جو اہمیت ہے، دراصل اس کو تعریف ملتی ہے۔

جنگ:اسمگلنگ اور Counterfeit پراڈکٹس کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

رومان احمد: صرف کراچی کے ایک علاقے صدر کی مثال لےلیں۔ وہاں راڈو کی آفیشل صرف تین دکانیں ہیں۔ایک ہماری اپنی ہے اور دو ڈیلرز کی ہیں۔اب آپ صدر کا ایک چکر لگائیں اور دیکھیں کہ وہاں آپ کو راڈو کے کتنے بورڈ نظر آتے ہیں۔ میں ان کے بورڈ نہیں ہٹواسکتا۔ حکومت کو جب ٹیکسز چاہئے ہوتے ہیں تو ہم پر ہی مزید ٹیکس لاد دیتی ہے، لیکن ہمارے بزنس کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ افسوسناک صورت حال ہے۔ نادرا کی شکل میں ہمارے پاس ایک بہترین ادارہ موجود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نادرا کے سسٹم کے تحت ہر دکان دار اور کاروبار کو ایک نمبر جاری کرے کہ نادرا کے نمبر کے بغیر کوئی کاروبار شروع نہیں کرسکتا۔ نادرا نمبر جاری کرنے کے بعد اس سے پوچھا جائے کہ اس کا ٹیکس کہاں ہے؟ اس کے علاوہ، کسٹمرز کوبھی Encourage کیا جائے کہ وہ نادرا کی رجسٹرڈ دکان سے خریداری کرنے پر انھیں ٹیکس میںRebate ملے گی۔

جنگ: بوز (Bose)برانڈ کے بارے میں کچھ بتائیں؟

رومان احمد: بوز، آڈیو پراڈکٹس کیٹیگری میں ہائر پرائس سائیڈ پر ایک ابھرتا ہوا نام ہے۔ جس کے پاکستان میں ہم Authorizedامپورٹرز ہیں۔ بوز کی پراڈکٹس بتدریج مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم بوز کی پراڈکٹس کو پاکستان میں لے کر آئے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین