• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اِسراء و معراج: سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کا ایک عظیم مُعجزہ

اِسراء و معراج: سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کا ایک عظیم مُعجزہ

’’آج کی شب محسن ِ انسانیت ، سرورِ کائنات ﷺ کو امامُ الانبیاء  المرسلین کے عظیم منصب پر فائز کرکے آپﷺ کی عظمت و رفعت پر مُہرِ تصدیق ثبت کی گئی،اس سفر کی تائید قرآنِ کریم اوراحادیث ِ نبوی ؐسے ہوتی ہے،اس موقع پربارگاہ ِخداوندی سے رسول اللہﷺ کو جو سب سے عظیم تحفہ عطا ہوا،وہ’’نماز‘‘ ہے‘‘

امام الانبیاء،سرورِ کونین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے معجزات میںسے ایک عظیم معجزہ معراج النبیﷺ ہے۔’’ معراج‘‘ عروج سے مشتق ہے، عروج کے معنیٰ ہیں بلندی پر جانا۔خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے قبل جتنے انبیائے کرامؑ تشریف لائے، یہ بلندی اللہ تعالیٰ نے سب کو عطا فرمائی، لیکن دیگر انبیائے کرامؑ کی معراج اور آنحضرت ﷺ کی معراج میں نمایاں فرق یہ ہے کہ دیگر تمام انبیائے کرامؑ کو یہ عظمت و بلندی اللہ تعالیٰ نے فرش پر عطا فرمائی،جب کہ حضور اکرم ﷺ کو یہ عظمت و رفعت اور بلندی اللہ تعالیٰ نے عرش پر عطا فرمائی۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے کے چالیس سالہ دور میں کفار مکہ متفقہ طور پر محمد ابن عبداللہ کی حیثیت سے آپﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔ دیانت کے حوالے سے آپ کے پاس بلا جھجک، بلا خوف و خطر اپنی اپنی امانتیں رکھواتے تھے،لیکن جیسے ہی آپ ﷺ نے اپنی عمر کے چالیس سال مکمل فرمائے۔ آپﷺ نے بحیثیت محمد رسول اللہﷺ اعلان نبوت فرمایا اور کلمۂ حق کے قبول کرنے کی دعوت دی،یہی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یکایک نہ صرف تبدیل ہوگئے،بلکہ آپﷺ کی مخالفت پر زبانی اور عملی طور پر متحد ہو کرآپ ﷺ کی مخالفت میں سامنے آئے ، انہوں نےدشمنی اور ایذا رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مکہ مکرمہ کی سخت گرمی میں جھلسا دینے والی اذیتیں اور شعب ابی طالب کا اذیت ناک بائیکاٹ بھی شامل ہے ۔

آپﷺ کے گھرانے میں سے دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے نبیﷺ کے ساتھ وفاداری، نصرت و حمایت، حسن سلوک کی بے مثال نظیریں قائم کیں، جن کا سلسلہ اعلان نبوت کے بعد بھی مسلسل دس سال چلتا رہا، لیکن اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کے مطابق ان کی طبعی عمریں مکمل ہوچکی تھیں اور انہیں اس دنیا سے دار آخرت کی طرف واپس بلالیا گیا ۔ ان میں سے ایک ہماری اماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں، جنہیں عورتوں میں سب سے پہلی مسلمان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 

دوسرے آپﷺ کے چچا ابو طالب ہیں،انہوں نے آخری وقت تک معاونت میں کوئی کمی نہیں کی۔نبوت کے دسویں سال یکے بعد دیگرے ان دو ہستیوں کا انتقال ہوگیا جو یقیناً ایک بہت بڑا صدمہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس سال کو عام الحزن (غموں کا سال) قرار دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد خالق کائنات نے کائنات کی سب سے مقدس،سب سے اعظم، سب سے ارفع،سب کے سردار،سب سے زیادہ محبوب ہستی رحمۃ للعالمینﷺ کو ملائے اعلیٰ کی سیر کرانے، عالم آخرت کو دکھانے اور بالمشافہ اپنی زیارت و ملاقات کرانے کے لیے معراج کے اعزاز و اکرام سے مالامال فرمایا۔

معراج کا یہ سفر قرآن مقدس اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے (جس کا جھٹلانا محال اور ناممکن ہے) اس سفر کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے جبرائیل امین علیہ السلام کی معیت میں بیت اللہ سے بیت المقدس کا سفر جس میں مختلف مقامات پر ٹھہرتے،دوگانہ ادا کرتے ہوئے پہنچنا شامل ہے۔

دوسرا حصہ بیت المقدس سے تمام آسمانوں سے ہوتے ہوئے مختلف انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات،جنت اور دوزخ کے احوال دکھائے جانے اور اللہ تعالیٰ کے دربار عالیہ میں تن تنہا حاضری، زیارت، گفتگو اور امت کے لیے عطیۂ خداوندی پر مشتمل ہے، نیز اس میں بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی حاضری اور آپﷺ کی اقتدا میں دوگانہ ادا کرنا بھی شامل ہے۔

معراج کا یہ سفر بالتحقیق آپﷺ کو بے داری کے عالم میں بقائم ہوش و حواس جسم اطہر کے ساتھ کرایا گیا۔ اس لیے کہ معراج (اسریٰ) کے تذکرے میں قرآن مقدس نے ’’عبد‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور ’’عبد‘‘ نہ خالی روح کو کہتے ہیں،نہ ہی خالی جسم کو کہا جاتا ہے، بالاتفاق روح مع الجسد کو عبد کہا جاتا ہے۔جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ اس کا پہلا سیدھا، عام فہم،غیر مبہم جواب خود قرآن مقدس نے دیا ہے کہ یہ سفر نبیﷺ نے خود نہیں کیا۔ 

اللہ تعالیٰ نے کرایا ہے (کیا نبیﷺ کو سفر کے آغاز سے پہلے معلوم تھا کہ چند لمحات کے بعد ایسا معجزاتی سفر شروع ہونے والا ہے؟ روایات کے مطابق آپﷺ نیند اور بے داری کی درمیانی حالت میں تھے ،گویا آپﷺ تو آرام کی مکمل نیت کے ساتھ سونے کا آغاز فرما رہے تھے) سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تلاوت کیجیے! واقعے کی ابتدا ہی میں قرآن نے واقعے کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب فرمایا ہے، پھر قیامت تک آنے والے کند ذہنوں کی تسلی کے لیے جملے کی ترتیب بھی ایسی ہے کہ ذہن میں اعتراض آنے سے پہلے اس کا حل مل جائے۔

اس واقعے کے بیان سے پہلے لفظ سُبْحٰن نے اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہر طرح کی کمی، کمزوری اور عجزو بے بسی، بے کسی اور مجبوری کی نفی کردی، پھر اسریٰ کے جملے نے یہ بتایا کہ قادر مطلق، مختار کل اور امرکن کا مالک لے گیا، کیا اس کے بعد بھی کسی شک، شبہے، گمان، اندیشے، پس و پیش،تردد، سوچ بچار کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ سوائے ضد، عناد، ہٹ دھرمی، تعصب کے اور اس کا علاج خالق کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ 

دوسرا عاشقانہ، فرماںبردارانہ جواب یہ ہے کہ اس واقعے کی اطلاع و تفصیلات اس مقدس ذاتِ گرامی ﷺ نے دی ہے، جن کی لغت میں جھوٹ کا لفظ ہی نہیں ہے، جن کی بول چال میں خلاف واقعہ بیان کو راہ ہی نہیں ملی، جن کے نامۂ اعمال میں کھوٹا عمل ہی نہیں ہے، جن کی فطرت میں من گھڑت قصوں کا دخل ہی نہیں،جن کے ناموس کو غلط بیانی کی ضرورت ہی نہیں اور اس کا مشاہدہ اپنے اور پرائے اعلان نبوت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کرتے رہے ۔ تیسرا الزامی، مسکت اور لاجواب کردینے والا جواب یہ ہے کہ اگر یہ جسمانی معراج نہ ہوتی تو معاندین اتنا شورو غوغا نہ مچاتے۔

یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان اپنے علاقے سے نکل کر کہیں سفر پر جاتا ہے تو واپسی پر اپنے متعلقین کے لیے ان کی مناسبت اور پسند کا لحاظ کرتے ہوئے کسی نہ کسی بہترین سے بہترین، دیدہ زیب، قابل فخر تحفے کا اس علاقے میں انتخاب کرتا ہے، بحفاظت لاکر متعلقین تک پہنچا کر اپنی بھی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔ 

متعلقین سے اپنے محبت بھرے تعلق کا اظہار بھی کرتا ہے اور متعلقین کو قلبی طمانیت، جاں نثاری، ذہنی تاثیر اور چہرے کی کھلکھلاتی، جگمگاتی فرحت کے ساتھ شکریے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس انسانی فطرت کے تناظر میں ہمارے نبیﷺ جو اپنی امت کے قیامت تک آنے والے ہر ہر فردِ انسان ہی کے لیے نہیں، بلکہ تمام مخلوقات کے لیے انتہائی شفیق، نہایت مہربان، سراپا رحمت ہی رحمت ہیں،اس مبارک، عظیم اور پر سعادت سفر سے واپسی پر اپنی امت کے ہر بالغ، عاقل مرد و عورت کے لیے ایک عطیۂ خداوندی بطور تحفہ لے کر آئے، رب العالمین جل جلالہ کے اپنے بندوں سے تعلق کی معراج دیکھیے کہ اس عطیے کو عطا فرمانے کے لیے رحمۃ للعالمینﷺ کو ملائے اعلیٰ سے اوپر اپنے پاس بلا کر براہ راست بغیر کسی واسطے کے عطا فرمایا۔اس عطیۂ خداوندی کا عربی نام الصلوٰۃ ہے۔ 

ہماری زبان میں اسے نماز کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بہترین عمل ہے جسے ہمارے پالنہارنے تفویض فرمایا ہے،جو ہمارے نبیﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، جو فرشتوں کی عبادات کا مجموعہ ہے جو مؤمنین کے لیے یقینی معراج کا درجہ رکھتا ہے جس کی ادائیگی کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نمازی کے درمیان حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں،جو تمام اہم امور کے انجام بخیر کا کامل و مکمل ذریعہ ہے،جو ہر قسم کی برائی اور ناپسندیدہ کاموں سے مکمل تحفظ کی صلاحیت رکھتا ہے، رزق کی تنگی ہٹا دیے جانے کی ضمانت ہے، چہرے کی رونق بڑھانے کا نسخہ ہے،دل کی ظلمت و کثافت اور بدن کی بیماریوں کا علاج، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے،عذاب قبر سے چھٹکارا دلانے،اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں دلوانے،پل صراط پر بجلی کی طرح گزروادینے، بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخلہ دلوادینے والا عمل ہے۔ 

نیز محبیّن کے لیے محبوب کے سامنے محبوبانہ طور پر جھکنے اور اپنے عشق کا اظہار کرنے کے حوالے سے اس سے بہتر،اس سے پہلے نہ تھا،نہ ہوسکا ہے،نہ آئندہ اس کا احتمال ہے۔ نبی اکرمﷺ کے ذریعے جن لوگوں نے براہ راست اس عطیے کو حاصل کیا، انہوں نے اس عطیے کو ایسا حرز جان بنایا کہ تنگی و خوش حالی، بیماری و تندرستی، مصروفیت و فرصت، سفرو حضر، جنگ و امن میں کسی بھی حال میں اس سے اعراض نہ برتا۔

اسلام میں نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے نماز کوایمان کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا۔‘‘(سورۃ البقرہ ) یعنی جو لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے وفات پاگئے،اب خانہ کعبہ کی طرف تحویل قبلہ ہو جانے سے ان کی نمازوں کو اللہ تعالیٰ برباد نہیں کرے گا۔

(صحیح بخاری)نماز کو لفظ ’’ایمان‘‘سے تعبیر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اعمال صالحہ (جو ایمان میں داخل ہیں)میں نماز کو اوّلین درجہ حاصل ہے،دیگر اعمال صالحہ کے مقابلے میں نماز کویہ بھی حیثیت حاصل ہے کہ نماز نہ ہونے کی صورت میں اللہ کے نزدیک کوئی بھی نیک عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکے گا۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:’’ روزقیامت بندے سے (حقوق اللہ میں) سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا،اگر نماز صحیح طریقے سے ادا کی ہوگی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا اور اگر نماز ضایع کی ہو گی تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔(جامع ترمذی)اسلام میں نماز کی اہمیت اور مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ نے آخری وقت وصال سے قبل جو وصیت امت کو کی تھی، وہ نماز ہی کی وصیت تھی۔ آپ ﷺفرما رہے تھے’’الصلاۃ الصلاۃ‘‘ یعنی نماز کا خیال رکھنا، نماز کا خیال رکھنا۔

مگرآج نمازنہ ہمارے دل کا سکون ہے،نہ آنکھوں کی ٹھنڈک۔ نماز تو بے حیائی اور ہر برائی سے دور رکھنے والی ہے،پر کیا وجہ ہے کہ ہم نمازی بھی ہیں اور بے حیائی اور برائی کا سیلاب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ نماز تو استعارہ ہے ایک اسلامی نظام زندگی کے قیام کا، نماز دین کا ستون ہے۔ ’’دین‘‘ نظامِ زندگی ہے، نظامِ زندگی میں کہاں کیا غلط ہو رہاہے؟یہ غور کرنا ہر فردکا اپنا کام ہے۔ افراد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے، عمارت کی ہر اینٹ درست ہو گی تو عمارت درست ہو گی۔ نماز ہی معراج کا سب سے عظیم تحفہ ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین