• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ایسے وقت ،کہ موجودہ حکومت کی آئینی میعاد کی تکمیل میں دو ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے، عام انتخابات کی تیاریاں زور پکڑتی نظر آرہی ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلسوں، جلوسوں کی صورت میں عملاً انتخابی سرگرمیاں پہلے سے جاری ہیں جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان بدھ کے روز نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کے لئے ایک ملاقات ہوچکی ہے مگر کوئی نام تجویز کرنے سے پہلے دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے لئے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ الیکشن کمیشن کا انتخابات کے انعقاد میں کلیدی کردار ہے اس لئے اس کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس باب میں ہمہ وقت ضروری تیاریوں سے لیس رہے ۔ اب جبکہ عام انتخابات کا وقت قریب آچکا ہے اس کی جانب سے نئی بھرتیوں اور ترقیاتی منصوبوں پرعملدرآمد روکنے سمیت بعض ایسے فیصلے کئے گئے ہیں بادی النظر میں جن کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے دو الگ الگ احکامات کے ذریعے وفاق اور صوبوں میں برسراقتدار پارٹیوں کے لئے جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کے حصول کیلئے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ملازمتیں دینا اور سرکاری فنڈز کا استعمال کرنا امکانی حد تک ناممکن بنادیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت جاری کئے گئے ان آرڈرز کے مطابق تمام وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اداروں میں یکم اپریل2018ء سے بھرتیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشنز کے ذریعے ہونے والی تقرریوں کو چونکہ سیاسی رشوت سے پاک اور میرٹ پر مبنی سمجھا جاتا ہے اس لئے ان اداروں کے تحت ہونے والی بھرتیاں مذکورہ پابندی کی زد میں نہیں آئیں گی۔ مختلف انتخابی حلقوں کے لوگوں کو الیکشن کے وقت ترقیاتی اسکیموں کے ذریعے حکمراں پارٹیوں کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کے ماضی کے بعض تجربات کے پیش نظر ایسے تمام ترقیاتی منصوبوں پر جن کی منظوری یکم اپریل 2018ء سے یا اس کے بعد ہوئی ہے (مثلاً گیس پائپ لائنز کی تنصیب یا سڑکوں کی کارپیٹنگ یا واٹر سپلائی اسکیمز) پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے اور پہلے سے جاری ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کسی دوسری مد میں منتقل نہیں کئے جاسکیں گے۔ مذکورہ پابندیاں یکم اپریل سے لگائی گئی ہیں اس لئے یہ واضح ہے کہ اس تاریخ یا اس کے بعد اب تک اگر کسی قسم کی بھرتیاں کی گئی ہیں یا اسکیمیں منظور کی گئی ہیں تو انہیں کالعدم سمجھا جائے گا۔ مذکورہ احکامات کے ذریعے ان طریقوں کے استعمال کی روک تھام کی گئی ہے جو قبل از انتخاب دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالتی افسروں کو ریٹرننگ افسر بنانے کے فیصلے کا مقصد بھی دھاندلی کے امکانات کو کم کرنا اور انتخابات کو زیادہ قابل اعتمادبنانا ہے۔ اس باب میں ملک بھر کی ہائی کورٹس کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اس کی درخواست پر جوڈیشیل افسران کی فہرستیں مل بھی گئی ہیں۔ حلقہ بندیوں کا کسی ہیر پھیر کے بغیر فطری انداز میں کیا جانا بھی منصفانہ انتخابات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کمیشن نے کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے کی بجائے براہ راست اعتراضات طلب کئے ہیں جنہیں 2مئی تک نمٹادیا جائے گا۔ یہ سب باتیں اہم ہیں۔ مگر شفافیت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ اگر کسی پارٹی کو انتخابی میدان میں گنجائش محدود کئے جانے کی شکایت ہے تو اس کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے لاحق ایسے خطرات سے بھی بچنے کی حتی المقدور کوششیں کی جانی چاہئیں جن کا فیس بک کے بانی نے خود امریکی انتخابات کے حوالے سے اعتراف کیا ہے۔ فیس بک کے بانی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ان کی ویب سائٹ کو جعلی اکاؤنٹس ، جعلی خبروں ، انتخابات میں غیرملکی مداخلت ، نفرت انگیزی اور صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کے حوالے سے محفوظ بنانے میں وقت لگے گا۔ اس لئے جولائی کے انتخابات کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے ہمیں اپنے طور پر تدابیر کرنا ہوں گی۔

تازہ ترین