• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018کے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور سینیٹ الیکشن کے مقررہ وقت پر ہونے سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ رواں سال جولائی میں عام انتخابات کا انعقاد ہوجائے گا۔ مسلم لیگ (ن) روز بروز مشکلات کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ جنوبی پنجاب سے قومی وصوبائی اسمبلی کے10اراکین بھی اسے داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ اس وقت نگران سیٹ اپ کامسئلہ درپیش ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان اس حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں نگران وزیراعظم کے لئے کوئی نام متفقہ طور پر طے ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو الیکشن کمیشن تین ناموں میں سے کسی ایک نام کو فائنل
کرے گا۔ مسلم لیگ(ن) احتساب کے عمل کو روکنا چاہتی ہے۔ اُس کا مطالبہ ہے کہ الیکشن سے پہلے نیب کو روکا جائے کہ وہ امیدواروں سے پوچھ گچھ نہ کرے۔ سابق وزیراعظم احتساب سے نجانے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ کرپٹ عناصر کے خلاف احتساب کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک میں فعال اور متحرک عدلیہ موجود ہے۔ غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کے آنے کے بعد شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ کیونکہ نگران حکومت کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہوگا اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اعتماد بھی اسے حاصل ہوگا۔ تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں نگران حکومت کا دورانیہ ایک یا دو سال تک نہ بڑھ جائے اور عام انتخابات تاخیر کا شکار نہ ہوجائیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور سینیٹ الیکشن کی طرح عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ کیونکہ سبھی چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہے۔ البتہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سکڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ پاناماکیس اور ختم نبوتؐ کی شق میں ترمیم کا معاملہ حکمران
پارٹی کے لئے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے کیس میں شریف فیملی احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہی ہے۔ اب احتساب عدالت کا فیصلہ بھی جلد آنے والا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ نوازشریف کو آنے والے فیصلے کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں جیل بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) شریف فیملی کے بغیر آئندہ انتخابات میں جائے گی تو اُسے 2013کی طرح مینڈیٹ نہیں ملے گا۔ پنجاب میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کو بہتر ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں ملا جلا مینڈیٹ مل سکتا ہے۔ البتہ سندھ میں پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایم ایم اے کو اکثریت ملنے کے امکانات ہیں۔ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ الیکشن 2018میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور سینیٹ الیکشن کی طرح کا منظرنامہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بنے گا۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آئندہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدار بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ 1970سے لے کر آج تک ہونے والے تمام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگے۔2013کے انتخابات پر بھی سنگین دھاندلی کا الزام لگایا گیا۔ اگر ماضی کے انتخابات کی طرح اس بار بھی دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے تو جمہوری سسٹم پر قوم کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔اب بھی تحریک انصاف الیکشن سے قبل ہی دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔عمران خان اگر گزشتہ پانچ سال میں انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اس ضمن میں نئی قانون سازی کی جاتی تو حالیہ سینیٹ الیکشن میں امیدواروں کی خرید و فروخت نہ ہوتی۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ(ن) کی پانچ سالہ کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی ہے۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے دعوے کئے گئے لیکن ابھی تک غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ہے۔ بجلی کا بحران سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔ حکومت بجلی چوری روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ لائن لاسز کی صورتحال پریشان کن ہے۔ جس کا خمیازہ بجلی کے بلوں میں اضافے کی صورت میں غریب صارفین کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ مسلم لیگ (ن)2013میں جب برسراقتدار آئی تھی تو اُس نے پہلے چھ ماہ اور پھر ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر اب پانچ سال پورے ہونے کو ہیں لیکن بجلی کا بحران اب تک حل نہیں ہوسکا۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب کے علاوہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری نے قوم کا بھرکس نکال دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں میٹروبسوں، پل اور سڑکیں بنانے میں پر زور دیا ہے۔ انفراسٹرکچر بنانا اچھی بات ہے لیکن عوام کو دو وقت کی روٹی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کو بھی خیبرپختونخوامیں اپنی پانچ سالہ کارکردگی کا حساب دینا پڑے گا۔ خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے تحریک انصاف کے لئے خیبرپختونخوا میں مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت ایم ایم اے بننے سے خاصی پریشان ہے کہ خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کا اتحاد ان کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے اپنی سیاسی پیش رفت شروع کردی ہے۔ ایم ایم اے کی مرکزی اور پنجاب کی تنظیم سازی مکمل ہوچکی ہے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان مجلس عمل کے مرکزی صدر، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ سیکریٹری جنرل اور دیگر عہدیداران کا انتخاب عمل میں آچکا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد ایم ایم اے پنجاب کے صدر اور جمعیت علمائے پاکستان کے ڈاکٹر جاوید اختر سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔ ایم ایم اے کی دیگر صوبوں کی تنظیم سازی بھی جلد مکمل ہوجائے گی۔ عام انتخابات کی تیاری کے لئے اس وقت تمام جماعتیں سیاسی میدان میں اترچکی ہیں ۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام نے مختلف شہروں میں بڑے جلسے کئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے پنجاب میں جے آئی یوتھ کے تحت مینار پاکستان پر چند روز قبل ایک بڑا سیاسی پاور شو کیا ہے۔ بلاشبہ جے آئی یوتھ گرینڈ کنونشن پنجاب بھر کے نوجوانوں کا تاریخی اور یادگار پروگرام تھا۔ مینار پاکستان پر ایک عرصے کے بعد جے آئی یوتھ نے سینیٹرسراج الحق کی صدارت میں عظیم الشان کنونشن کا انعقاد کر کے مخالف سیاسی جماعتوں کو حیران کردیا ہے۔ کامیاب یوتھ کنونشن کے انعقاد پر جے آئی یوتھ کے مرکزی صدر، امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصوداحمد اور دیگر قائدین قابل مبارک باد ہیں، کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق کاکہنا تھا کہ موجودہ نظام حکمرانوں کے لئے ہے جہاں غریب نوجوان ڈگریاں جلانے پر مجبور ہیں۔ میں اس نظام سے بغاوت کا اعلان کرتا ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمرانوں نے ملک کو85 ارب ڈالر کا مقروض کردیا ہے جبکہ پانچ سو ارب ڈالر پاکستانیوں کے بیرونی بینکوں میں پڑے ہیں۔ اللہ نے ہمیں موقع دیا تو لٹیروں سے ملکی دولت وصول کر کے پاکستان واپس لائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آج بھی مخلص اور دیانتدار قیادت ملک کو مل جائے تو پاکستان کے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین