• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لفظ گولی ہمارے معاشرے میں کیا مقام رکھتا ہے، ہم نے کبھی غور نہیں کیا۔ ہماری بولی ٹھولی میں، کہاوتوں اور محاوروں میں گولی بارہا ہمارے کان کے قریب سے گزر جاتی ہے لیکن ہم نے کبھی دھیان نہیں دیا۔ کب آئی، کون لایا، کس نے پہلے پہل چلائی، یہ سب تاریخ کی تاریکی میں گم ہو گئے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جب کبھی ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیںکہ کوئی دہشت گرد پکڑا گیا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ برآمد ہوا ہے تو اس میں باقی چیزیں تو دو چار ہی ہوتی ہیں لیکن گولیاں کلو کے حساب سے ڈھیری کی صورت نظر آتی ہیں۔ سنا ہے کوئٹہ شہر میں سڑک کے کنارے دستی بم درجن کے بھاؤ ملتے ہیں جنہیں وہاں انار کہا جاتا ہے۔ پھر تو یقین ہے بندوق اور پستول کی گولی کو انگور کہا کرتے ہوں گے اور پاؤ کے حساب سے بکتی ہوں گی۔ ہم نے زندگی میں جو کہاوتیں پہلے پہل سنیں ان میں ’گولی اندر دم باہر‘ بہت عام تھی۔ کسی زمانے میں یہ بات حکیموں اور طبیبوں کی شان میں کہی جاتی ہوگی مگر اب پستول یا بندوق کے تعلق سے کہنے لگے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے سندھ میں کسی گانے کی محفل کی ویڈیو، یعنی زندہ تصویر دیکھی۔ ایک خوش لباس ، خوش وضع گلوکارہ اسٹیج پر کھڑی گا رہی تھی کہ اچانک کچھ ہوا اور گلوکارہ جہاں کھڑی تھی وہیں فرش پر ڈھیر ہوگئی۔ یہ تھیں گولی کی کرامات۔ویڈیو میں گولی چلنے کی آواز نہیں تھی لیکن ہم نے گولی چلنے کی ایک ایسی آواز سنی ہے جو عمر بھر یاد رہے گی۔ راولپنڈی کے کمپنی باغ کے ایک جلسہء عام کے دوران ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جو گولی ماری گئی اس کی آواز ریڈیو کے خبر نامے میں سنائی گئی تھی۔اس کے بعد شور اور ہنگامے کی آوازیں تھیں جن کے دوران ایک پولیس افسر نے قاتل کو وہیں کھڑے کھڑے گولی ماردی تھی۔ اس کی آواز تو نہیں سنی گئی لیکن خلق خدا کی یہ آواز آج تک سننے میں آتی ہے کہ قاتل کو وہیں کے وہیں مارڈالنا پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ میں درج تھا ۔مجھے دھواں دھواں سا یا د ہے کہ دلّی میں گاندھی جی کے سینے میں اتاری جانے والی گولی کی آواز بھی ریڈیو پر نشر ہوئی تھی۔
گولی کی راکٹ سائنس کچھ یوں ہے کہ اس میں سارا زور بارود کا ہوتا ہے جو چین والوں نے ایجاد کیا تھا۔ چنگاری دیکھتے ہی شعلہ بن کر بھڑک جانے والی یہ وبا منگولوں کے ہاتھ لگی، یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے مغلوں کے استعمال میں آئی اور مغل فاتحین کے سرخیل ظہیرالدین بابراپنی توپوں کی گھن گرج کے ساتھ ہی وارد ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ گولے آئے، گول انداز آئے تو یقین ہے کہ ان کے پیچھے لگی لگی گولی بھی آئی ہوگی۔ بابر کی توپوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن بندوق کی شان نزول یوں ہے کہ انگریز بہادر ہندوستان لایا۔ بارود سے اس نے کارتوس بنایا۔ یہ کارتوس بندوق میں آہستگی سے نہیں بھر ا جاتا تھا بلکہ بندوق کی نالی کے منہ سے اند ر تک ٹھونسا جاتا تھا۔ اس بندوق کو بھرمار کہا جاتا تھا۔کہتے ہیں کارتوس کا منہ موم یا چربی سے بند ہوتا تھا۔ اسے بندوق میں بھرنے سے پہلے اس چربی یا موم کو سپاہی اپنے دانتوں سے توڑنے کے بعد اس نالی میں ٹھونستا تھا۔ یہی وہ چربی تھی جو ہندوستانی سپاہی کو دانتوں سے توڑ کر تھوکنی ہوتی تھی۔ شاید یہی چربی انگریز حکمرانوں کی آنکھوں پر بھی چڑھی ہوئی تھی۔ اسی کے بارے میں یہ خبر اڑا دی گئی تھی کہ یہ چربی سور کی یا کسی جانور کی ہے۔ کہنے کو یہ ذرا سی بات تھی لیکن اس ایک بات پر ہندوستان کی تاریخ کا وہ دھماکہ ہوا جسے غدر کہا گیا اور جس میں بغاوت کا علم بلند کرنے والے ہندوستانی سپاہیوں کو منظّم نہ ہونے کی وجہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ کارتوس پر ضرب لگانے والی بندوق کی ٹکٹکی تو گم ہوگئی۔انسان جو ایک طرف جان بچانے والی پنسلین ایجاد کرنے میں سر کھپا رہا تھا وہیں جان لینے والی بندوق کو اپنے وقت کاجدید ہتھیار بنا رہا تھا۔ روس میں وہ تباہ کن رائفل وجود میں آرہی تھی جسے کلاشنکوف صاحب نے ایجاد کیا او رجس نے کم سے کم ڈھائی تین نسلوں کو چین سے جینے نہ دیا۔امریکہ میں پچھلے دنوںایک اسکول کے بچّوں کا قتل عام ہوا تو پتہ چلا کہ ایک ایسا پرزہ ایجاد ہوا ہے کہ ایک ایک گولی داغنے والی بندوق میں لگا دیا جائے تو وہ تابڑ توڑ گولیاں برسانے والی خود کار رائفل میں ڈھل جاتی ہے۔ پتہ چلا کہ امریکہ والے ، جن کے دیوانہ ہونے میں کوئی شک نہیں، بڑے ذوق و شوق سے اپنی بندوقوں کو آٹو میٹک بنا رہے ہیں او رجی ہی جی میں خوش ہورہے ہیں۔
ہمارے بزرگ تو چین سے جیا کرتے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہی گولی کو جانتے تھے: افیون کی گولی۔ ہم نے عوامی تھیٹر کے ڈرامے قتلِ تمیزن عرف عالم آرا میں ایک صاحب کو تمیزن نامی طوائف پر تمنچہ سے گولیاں چلاتے دیکھا تھااور بس۔ پھر زندگی میں چال بازیاں آئیں تو گولی دینے کا یعنی چکما دینے کا محاورہ رائج ہوا۔پرانے وقتوں میں گولی جتنا فاصلہ طے کرتی تھی اسے گولی کا ٹپّہ کہا جاتا تھا ۔اب تو کہیں یہ بحث چھڑ جائے کہ گولی کتنے فاصلے سے چلی، کتنی اونچائی تک گئی پھر کس زاویے سے نیچے آئی تو تنگ آکر لوگ کہتے ہیں کہ ہٹاؤ، گولی مارو۔ بالکل اسی طرح کہیں گولیاں برسا کر گیارہ بارہ افراد کو ہلاک اور اسّی سے زیادہ کو زخمی کیا گیا ہو اور دنیا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھے کہ مجرموں کو اعلیٰ عہدوں پر ترقی کیوں دی گئی یا انہیں تبادلے کر کے کہاں چھپا دیا گیا تو اس کا بھی بے بدل جواب یہی ہے کہ ہٹاؤ، گولی مارو۔
اس طرح کی گولی کا عجب چلن ہے کہ بارہا ایسا ہوا کہ نشانے پر نہیں بیٹھی لیکن بڑی کمبخت ہے، ایک بار بیٹھ جائے تو اس کی آ واز خبرنامے میں نشر ہوتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین