• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کراچی سے خیبر تک ضمیر جاگنے کا وقت ہو چکا ہے ،کسی کو اصول اور نظریے کی فکر لاحق ہے تو کسی کو وفاداری کا مفہوم یاد آرہا ہے، کسی کو ماضی کی غلطیوں پر پچھتاوا ہورہا ہے تو کوئی مستقبل میں ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم کرتا دکھائی دے رہا ہے، کسی کو ووٹ کی عزت کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو کوئی ووٹر کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے غم میں ہلکان ہوا جا رہا ہے۔ کسی کو آئین کے تقدس کا احساس چین نہیں لینے دے رہا تو کوئی حقیقی جمہوریت کے غم میں گھلا جا رہا ہے، کسی کو عمر بھر کا سفر رائیگاں لگ رہا ہے تو کوئی دائرے میں سفر کرنے سے بغاوت پر آمادہ ہے، کسی کو جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر عوام کی محرومیاں نظر آنے لگی ہیں تو کسی کو قبائلی عوام کیساتھ کئے گئے وعدوں کی پاسداری عزیز ہو چکی ہے، کسی کو طویل لوڈ شیڈنگ پر کراچی کے عوام یاد آ رہے ہیں تو کوئی کسانوں کی بد حالی پر نوحہ کناں ہے،کسی کو بلوچوں کے احساس محرومی نے گھیر لیا ہے تو کوئی پختونوں کے حقوق کیلئے سرگرداں ہے لیکن یہ تمام مناظر اس قوم کیلئے کسی طرح بھی نئے نہیں ہیں۔ عام انتخابات سے قبل عوام ،ضمیر، کی یہ ہڑبڑاہٹ برسوں سے سنتے اور اسکے کچوکوں پر قلابازیاں دیکھتے چلے آ رہے ہیں ، ہاں فرق آیا تو صرف یہ کہ ماضی میں لوگ ضمیر کے ان قیدیوں کی پارسائی کے دعوئوں کو بھول جایا کرتے تھے اور عوام کے اسی بھولپن کا فائدہ اٹھا کر یہ ہمیشہ ایسے معزز ہی نظر آتے تھے کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
لیکن برا ہواس الیکٹرانک میڈیا کا جو عوام کے ان مسیحائوں کے منہ سے جھڑنے والے پھولوں کو اتنا سنبھال کر رکھتا ہے کہ ادھر ضمیر کے کچوکے پر انہوں نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کیا ادھر ان کے اور عوام کے سامنے پھولوں کا وہ گلدستہ پیش کر دیا جس کی بھینی خوشبو چار سو پھیل جاتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ووٹروں کیلئے ماحول کو معطر کرنے والی یہ خوشبو ووٹ لینے کے خواہشمندوں کو اتنی ناگوار گزرتی ہے کہ وہ اس نگوڑے میڈیا کو کوسنے دینے لگتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اسی سیاست کا نقشہ کھینچتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘ اور اسی جملے میں یار لوگوں نے بھی کیا کمال گرہ لگائی کہ’’اور سیاست دانوں کی آنکھ میں شرم نہیں ہوتی‘‘۔ اسی شرم کا احساس دلانے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کے خیبرپختونخوا سے صوبائی اسمبلی کے ان بیس ارکان کے نام عوام کے سامنے رکھ دئیے جو ان کی تحقیقات کے مطابق سینیٹ الیکشن میں ضمیر فروشی کے مرتکب ہوئے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے پیسے لے کر ووٹ بیچنے کے الزامات پر صوبائی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے خلاف کارروائی کا اعلان ملک کی پارلیمانی تاریخ میں یقیناً سنہری حروف سے لکھا جانے والا اقدام ہے۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے میں پہل کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دینا جرات اور شفافیت کی اعلیٰ مثال ہے جس پر بلا شبہ عمران خان داد تحسین کے مستحق ہیں تاہم ان کے اس عمل کو بعض حلقوں کی طرف سے آدھا سچ قرار دے کر اس پر کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان سوالات کا ذکر کرنے سے پہلے یہ نشان دہی بھی ضروری ہے کہ خان صاحب کو اپنی صفوں میں تطہیر کے اس عمل کو کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔ ماضی میں بھی انہوں نے اپنی جماعت میںحقیقی انتخابات کرانے اور کرپشن میں ملوث صوبائی وزرا سمیت کئی ارکان کے خلاف کارروائی کرنے جیسے اچھے اقدامات کا آغاز کیا تھا تاہم بعد میں مصلحتوں اور نظریہ ضرورت کے تحت ان کو ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ سب سے اہم پہلو یہ ہےکہ تحریک انصاف کے سربراہ کو ان تمام ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ بھی انصاف کرتے ہوئے انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع دینا چاہئے جن پر پیسے لیکر ووٹ بیچنے جیسے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ کیونکہ ان اراکین نے ان الزامات کو لغو اور بے بنیاد قرار دے کر نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ کئی اراکین نے تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف ہتک عزت کے دعوے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ خواتین سمیت بعض ارکان کی طرف سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے قرآن پاک پر حلف دئیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بہت ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے بجائے کسی غیر جانب دار رہنما کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے کیونکہ ان میں سے بعض ارکان ماضی میں پرویز خٹک پربھی کرپشن کے الزمات عائد کر چکے ہیں اور ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ عمران خان کو شکایت کرنے کی پاداش میں ان کا نام بھی ووٹ بیچنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح غیرمتعصب اور اچھی شہرت کے حامل رہنما کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کر کے ان ارکان کو نہ صرف اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے بلکہ اگر ان میں سے کوئی رکن اپنے بے گناہی ثابت کر دے تو کمیٹی کی سفارش کے بعد چیئرمین تحریک انصاف خود اسی طرح پریس کانفرنس کے ذریعے اس رکن کے بے قصور ہونے کا اعلان کریں اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے معذرت بھی کریں۔ اسی طرح بابر سلیم اور وجیہہ الزمان جیسے ایم پی ایز کا نام اس فہرست سے خارج کیا جائے جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند تھے۔اب کچھ ذکر اس آدھے سچ کا جس کی بنا پر عمران خان کے اس احسن اقدام کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سوال پوری شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ووٹ بیچنے والے مجرم ہیں تو خریدنے والے بھی برابر کے قصور وار ہیں اسلئے انکے نام بھی سامنے لائے جائیں۔اس فہرست میں سب سے اہم نام پنجاب سے پارٹی ووٹوں کے برعکس ووٹ لیکر کامیاب ہونے والے سینیٹر چوہدری سرور کا لیا جا رہا ہے۔ اس پر بھی انگلی اٹھائی جا رہی ہے کہ اگر پارٹی ایم پی ایز ووٹ بیچیں تو وہ حرام ہے لیکن اگرپارٹی سینیٹرز بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو منتخب کرانے کیلئے ووٹ دیں تو وہ کیسے حلال ہو گئے۔ اب تو تحریک انصاف کے اہم اتحادی اور خیبر پختونخوا کی حکومت میں شامل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی فرما دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کیلئے خود ان سے رابطہ کر کے حمایت طلب کی تھی اوران کے استفسار پر بتایا تھا کہ یہ ہدایات اوپر سے آئی ہیں۔ یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ اگر تحریک انصاف کے ارکان ہارس ٹریڈ نگ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچنے والے سینیٹرز اور اس سینیٹ الیکشن کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ اسی طرح عمران خان نے ایک بار پھر فرمایا کہ انہیں سینیٹ کے ٹکٹ کیلئے 45 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش ہوئی تھی لیکن اس بار بھی انہوں نے پیشکش کرنیوالے کا نام نہیں بتایا۔ وقت آ چکا ہے کہ خان صاحب کوان تمام افراد کو بے نقاب کرنا چاہئے جنہوں نے براہ راست یا بلواسطہ سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے ان کی بھی قیمت لگانے سے دریغ نہیں کیا اور انہیں باقی ماندہ سچ بھی بول کر اپنے آدھے سچ کو پورا اور معتبر بنا دینا چاہئے۔ اسی طرح نیم اور شیم کا دعویٰ کرنیوالے وزیر اعظم سے لیکر تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو محض دوسروں پر انگلی اٹھانے کی بجائے اپنی صفوں میں موجود ووٹ بیچنے والوں کے ساتھ ووٹ خریدنے والوں کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کرنا چاہئے تب ہی ضمیر فروشی کا یہ باب ہمیشہ کیلئے بند کیا جا سکتا ہے۔ میاں افتخار حسین نے گزشتہ ہفتے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ سیمینار میں بالکل بجا فرمایا تھا کہ جب تک سیاسی جماعتوں کے سربراہان خود ووٹ کو عزت نہیں دینگے اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو گلے لگاتے رہیں گے تب تک ’’دوسروں‘‘ سے ووٹ کی عزت کرنے کی توقع کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترداف ہوگا۔ رہی عوام تو ماضی کی طرح اس بار بھی وہ عام انتخابات سے قبل ’’ضمیر‘‘ کی آواز پر لبیک کی صدائیں سنتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین