• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آؤ بغاوت کردیں

مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی، ملازمت کے مواقعے دن بہ دن ختم اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار سڑکوں پر بے یار و مدد گار پھر رہے تھے، کوئی سبزی اور پھلوں کا ٹھیلہ لگانے پر مجبور تھا، تو کوئی چائے کے ہوٹل یا موچی کی دُکان پر کام کر کے گزر بسر کر رہا تھا۔ ایسے میں رشوت خوری کا بازار بھی گرم تھا، ایوانوں میں بیٹھے ممبران ، سینہ تان کر کرپشن کرتے رہے، اشیاء ضروریہ عوام کی پہنچ سے کوسوں دور تھیں ، قانون شکنی بھی عروج پر تھی، سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا تھا ، الغرض ظلم کی کوئی انتہا نہ تھی۔ 

قارئین! اگر آپ کو مندرجہ بالا سطریں پڑھ کر وطن عزیز کا خیال آیا تو آپ غلط ہیں، کیوں کہ یہ ذکر ہے ’’تیونس‘‘ کا ، جہاں آج سے آٹھ برس قبل عوام پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔

تئیس برس تک سابق صدر زین العابددین بن علی کی آمرانہ حکومت قائم تھی، جو ملک کو خالی اور اپنا بینک بیلینس بھرنے میں مصروف عمل تھا، اور ملکی میڈیا سب اچھا ہے، کا راگ الاپ رہا تھا۔ عوام حقیقت، اپنے حقوق اور آزاد فضا سے بے خبر تھی۔ اگر کوئی اس ظلم و بر بریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش بھی کرتا تو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا تھا۔

کہتے ہیں ناں…

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

ایسا ہی کچھ ہوا 17 دسمبر 2010ء کو، جب ایک 26 سالہ نوجوان ’’محمد بوعزیزی‘‘ نے خود سوزی کرلی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ، وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مستقبل کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے ایک در سے دوسرے در نوکری کی خاطر ٹھوکریں کھا رہا تھا، لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ نوکری کے لیے ڈگری نہیں سفارش کی ضرورت تھی یا پھر صدر کا عزیز ہوتا۔ جب وہ چاروں سمت سے مایوس ہوگیا تو اس نے تیونس کے شہر ’’سدی بوعزیدی‘‘ کی گلیوں میں پھلوں اور سبزیوں کا ٹھیلہ لگانے کا فیصلہ کیا، تاکہ اس کا اور اہل خانہ کا گزر بسر ہوسکے۔ 

ماہانہ 140 ڈالر سے گزر بسر ہو رہا تھا کہ ایک روز مقامی پویس کی جانب سے اس کے ٹھیلے کو صرف اس لیے ضبط کر لیا گیا کہ ، اس نے انہیں رشوت دینے سے انکار کردیا تھا۔ تنگ دستی اور ذہنی دباؤ سے دوچار محمد بوعزیزی کو جب کوئی دوسرا راستہ سوجھائی نہ دیا تو اس نے مایوس ہوکر پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اپنے دوست احباب کو آگاہ کرتے ہوئے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا، پھر میونسیپل آفس کے سامنے خود کو آگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی، گو کہ وہاں موجود اہل کار اسے کسی طرح اہسپتال لے جانے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکا۔

پھر کیا تھا، محمد بوعزیزی کی موت نہ صرف تیونس بلکہ اہل عرب کے لیے وجہ محرک ثابت ہوئی اور انقلاب کی ایک نئی لہر اہل عرب میں دوڑ اُٹھی جسے ’’عرب اسپرینگ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ انقلاب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے پروان چڑھتا گیا اور یکے بعد دیگر عرب ممالک میں آمریت کا تختہ الٹتا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تیونس سے ’’زین العابدین بن علی‘‘ کا راج ختم کیا گیا، جس نے 1989ء میں اقتدار میں آتے ہی تیونس کے آئین میں دو اہم تبدیلیاں کی تھیں، پہلی یہ کہ ایک شخص دو سے زائد بار اقتدار میں آ سکتا ہے اور دوسری تبدیلی یہ کی کہ، دور اقتدار کو تین سال سے بڑھا کر پانچ برس کر دیا گیا۔ اس طرح زین العابدین بن علی کے دور اقتدار میں پانچ بار انتخابات کروائے گئے، ہر مرتبہ زین العابدین 90 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 

لیکن ہوا کچھ یوں کہ، محمد بوعزیزی کی موت ناانصافی، غربت، ظلم و بربریت، معاشی استحصال، قانون شکنی اور حقوق کی پامالی کی علامت بن گئی۔ بعدازاں 24 دسمبر 2010ء کو محمد بوعزیزی کے حق میں مظاہرین نے حکومت کے خلاف ’’منزیل بوعزین‘‘ میں احتجاجی ریلی نکالی، لیکن کم افراد ہونے کے باعث پولیس اہل کاروں نے ان پر فائرنگ کرکے باآسانی انہیں خاموش کروا دیا اور 28 دسمبر کو اس وقت کے صدر زین العابدین بن علی نے بیان دیا کہ ’’چند انتہا پسندوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں، ہم انہیں ان کے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ 

جس کے بعد تیونس کے باسیوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آواز بلند کرنا شروع کی، بہت ممکن ہو کہ، تیونس کے باسیوں کی دلوں میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی خواہش عرصہ دراز سے ہو، لیکن ٹیلی ویژن ہو یا اخبار یا پھر ریڈیو، الغرض ملکی میڈیا اور صحافت آمرانہ زنجیروں میں بری طرح جگڑی ہوئی تھی، میڈیا عوام کے مسائل و پریشانیاں سننے، ان کی آواز بلند کرنے، ان کے جذبات کی درست ترجمانی کرنے سے قاصر تھا۔ ایسے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ ہی تھے، جس نے عوام کو زبان دی، اظہار رائے کی طاقت عطا کی۔ 

سوشل میڈیا ہی وہ واحد موثر ذریعہ ثابت ہوا، جہاں عوام کھل کر اظہار رائے کرسکتے تھے۔ انہیں کسی قسم کی پابندیوں اور بندیشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا، یوں انہیں سوشل میڈیا کے روپ میں ایک نئی راہ مل گئی تھی، جس کے طفیل وہ آزادی حاصل کرسکتے تھے۔ اسی ذرائع سے چند سرگرم کارکنوں نے عوام کو احتجاج کے لیے متحرک کیا۔ احتجاج سے متعلق تمام منصوبہ بندی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہی کی جانے لگی۔ مثلاً احتجاج کی جگہ، وقت اور طریقہ کار کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جاتا اور اگلے روز ان پر عمل درآمد کیا جاتا، اس طرح ایک جیسی سوچ رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد ایک ہی پلٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ یہ مختصر سا مجمع لشکر کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ 

12 جنوری 2011ء کو پہلی بار تیونس کے فیس بُک اور ٹوئٹر صارفین منظم طریقے سے یکجا ہو کر حکومت کے خلاف اجتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے صدر کے مستعفی ہونے اور جمہوری حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاج کا اثر ایوان میں فوری طور پر نظر آیا۔ زین العابدین نے ویزر داخلہ رفعق بلحاج کائم کو عہدے سے اس لیے ہٹا دیا، کیوں کہ وہ احتجاجی ریلیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔

اس کے اگلے ہی روز 13 جنوری کو زین العابدین نے قومی ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معینہ مدد پوری کرنے یعنی 2014ء میں دور اقتدار ختم ہونے کے بعد انتخابات کروانے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی احتجاج ختم نہ کرنے کی صورت میں عوام پر سیاسی، معاشی اور سماجی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن مظاہرین کی بڑی تعداد ان کی دھمکیوں میں نہ آئی اور احتجاجی مظاہرے بدستور جاری رہے۔ 

یہاں یہ واضح کر دیں کہ دوران احتجاج مظاہرین احتجاج کی وڈیوز، تصاویر، دوران احتجاج پیش آنے والے حادثات اور سرکاری اہل کاروں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے خبریں ہر لمحہ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر ڈالتے رہتے، جس کے باعث ان کی آواز بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ گئی۔ بعدازاں تیونس کی عوام کا مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔ ایک جانب تیونس کی حکومت پر عالمی طاقتوں کا دباؤ بڑھ گیا، تو دوسری جانب تیونس کے حالات کشیدہ ہوتے گئے، مظاہروں میں شدت آگئی۔ زین العابدین نے موقعے کی مناسبت دیکھتے ہوئے ملکی باگ ڈور کو وقتی طور پر افواج کے حوالے کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ 

اور آئندہ چھ ماہ میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا، لیکن عوام کا غم و غصہ اس قدر شدید تھا کہ وہ کسی زبانی وعدے میں نہ آئے۔ جب زین العابدین کو محسوس ہوا کہ اب عوام مزید دھوکے میں نہیں آسکتے تو انہوں نے اہل خانہ کے ہمراہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

17 جنوری کو عبوری حکومت قائم کرتے ہوئے محمد الغانچی کو عبوری وزیر اعظم بنا دیا گیا اور آئندہ چھ ماہ میں شفاف انتخابات کروانے کی ذمہ داری انہیں دی گئی۔ عوام کے پرزور احتجاج کے باعث زین العابدین اور ان کے اہل خانہ کے خلاف انٹرپول نے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ انٹرپول اور تیونس کی حکومت کی جانب سے 26 جنوری کو سابق صدر تیونس اور ان کے اہل خانہ کے خلاف عالمی سطح پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ زین العابدین اور ان کی اہلیہ کو کرپشن کے علاوہ، اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور منشایات فروشی کے جرم میں پینتیس سال قید کی سزا سنائی گئی، نیز قریبی عزیز و اقارب کو بھی بھاری رقم اور قیمتی زیورات کی چوری کے جرم میں سزایں دی گئیں۔

23 اکتوبر کو تیونس میں جمہوری انتخابات عبوری حکومت اور افواج کی زیر نگرانی کروائے گئے، جس کے بعد حزب النہضہ اقتدار میں آگئی۔واضح رہے زین العابدین کے دور حکومت کے دوران اس جماعت پر پابندی عائد تھی، یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ حزب النہضہ نے 217میں سے 90 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جس کے بعد ’’محمد المنصف المرزوقی‘‘ تیونس کے صدر منتخب ہوئے۔

آؤ بغاوت کردیں


آؤ بغاوت کردیں


تازہ ترین