• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی پرمامور پولیس اہلکار واپس بلانے کا حکم دیا تھا جس کی تعمیل میں چاروں صوبوں نے کئی ہزار اہلکاروں کی سیکورٹی ڈیوٹی ختم کردی اورانہیں معمول کے فرائض اداکرنے کےلئے واپس بلالیا۔صوبائی حکومتوں نے غالباً عجلت میں ایسی شخصیات کی حفاظت کےلئے مقرر اہلکاربھی واپس بلالئے جن کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر انہیں قانون کے مطابق سیکورٹی دیناضروری تھا۔اس حوالے سے عوامی حلقوں اورمیڈیا میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے پیرکوغیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ابہام کو دور کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ جس شخص کی زندگی کوحقیقی خطرہ ہواس سے سیکورٹی واپس نہ لی جائے ۔انہوں نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے سیکورٹی قواعد اورطریق کار وضع کریں اورکسی سے سیکورٹی واپس لینے یانہ لینے کے بارے میں ایک ہفتے کے اندر یکساں فارمولا تیار کریں۔انہوں نے بطور خاص میاں نوازشریف کانام لیا اور کہا کہ انہیں بطور سابق وزیراعظم قانون کے مطابق سیکورٹی ملنی چاہئے۔انہوں نے یہ استفسار بھی کیا کہ اسفند یارولی (سربراہ اے این پی)کوسیکورٹی ملی ہے یانہیں؟جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکورٹی سے متعلق عدالتی کارروائی کا مقصد ٹیکس کے پیسے بچانا ہے۔اس وقت صرف پنجاب میں غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی کاخرچہ ایک ارب38کروڑ روپے بنتا ہے۔باوردی افراد کے علاوہ سفید کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کو بھی سیکورٹی ڈیوٹی پر مامور کیاجاتا ہے ۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ شہریوں کی جان ومال اورعزت وآبرو کاتحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اوروہ پولیس اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ذریعے یہ فرض نبھا رہی ہے۔عوام کے علاوہ خواص کی سیکورٹی بھی ریاست کی خصوصی توجہ کی طلب گار ہے۔قیام پاکستان کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید کردیئے گئے۔مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے علاوہ کئی دوسری اہم سیاسی شخصیات کاقتل بھی ہماری قومی تاریخ کاحصہ ہے۔قتل کی وجوہات میں سیاسی،ذاتی وگروہی مخاصمت بھی ہوسکتی ہےاورمذہبی منافرت و کاروباری چشمک بھی۔بعض صوبوں میں مرکز گریز قوتیں بھی قتل وغارت میں ملوث رہی ہیں۔امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی نے سراٹھایا اوربم دھماکوں میں ہزاروں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔بدامنی اورلاقانونیت کی اس فضا میں اہم سیاسی،مذہبی وپیشہ ور شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی معمول بن گئی۔دہشت گردی کے خاتمے کےلئے پاک فوج نے پہلے آپریشن ضرب عضب اورپھر آپریشن ردالفساد شروع کیا جس کے نتیجے میں دہشت گردی کاتو تقریباً مکمل خاتمہ ہوگیا لیکن دوسری وجوہات کی بنا پر لاحق جانی خطرات بدستور موجود ہیں اس پس منظر میںجہاں عوام کی جان ومال کے تحفظ کےلئےوسیع البنیاد انتظامات کئے جاتے ہیں وہاں قومی ذمہ داریوں پرمامور اہم شخصیات اوران لوگوں کےلئے بھی خصوصی سیکورٹی ناگزیر ہے جنہیں کسی نہ کسی جانب سے جانی نقصان کاخطرہ ہے۔ایسے افراد کی سیکورٹی کاتعین وزارت داخلہ کرتی ہے اوران کی حفاظت کےلئے پولیس کاعملہ مقرر کیاجاتا ہے تاہم یہ حق صرف مجاز افراد کا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ اثرورسوخ اورذاتی تعلق کی بنا پرغیر متعلقہ افراد کو بھی شان وشوکت کے مظاہرے کےلئے پولیس کی نفری دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ مجازشخصیات کو ضرورت سے زیادہ نفری دے دی جاتی ہے۔جس پر بےمحابا اخراجات آتے ہیں۔عوام کے ٹیکسوں کایہ بے جا اصراف ہے اورسپریم کورٹ کے حکم کامقصد بھی یہی ہے کہ اسے روکا جانا چاہئے۔صوبائی حکومتوں کو ازسر نو قواعد وضوابط بنانے چاہئیں اورخصوصی سیکورٹی جس شخص کاحق بنتا ہے اسےاس کی ضرورت کے مطابق دینی چاہئے جس کاحق نہیں بنتا اسے نہیں دینی چاہئے۔

تازہ ترین